وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس ۱۲ نومبر بدھ کو صبح گیارہ بجے دفتر وفاق ملتان میں صدر وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی زیرصدارت منعقد ہوا جو نماز اور کھانے کے وقفے کے ساتھ رات سات بجے تک جاری رہا۔ جبکہ اجلاس کی ایک نشست کی صدارت نائب صدر وفاق حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم نے فرمائی۔
اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں دینی مدارس کے عمومی معاملات کے ساتھ ساتھ نصابات اور امتحانات کے حوالہ سے مختلف امور کا جائزہ لیا گیا اور اہم فیصلے کیے گئے۔ نیز وفاق کے ناظمِ اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ دینی مدارس کے وفاقوں کے مشترکہ فورم ’’اتحادِ مدارسِ دینیہ‘‘ کی قیادت کے حالیہ مذاکرات کی رپورٹ پیش کی اور دینی مدارس کے بارے میں حکومت کے رجحانات پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال خاص طور پر قومی خودمختاری کے تحفظ، ملکی سرحدات کے تقدس، مبینہ دہشت گردی اور قبائل میں جاری فوجی آپریشن کے بارے میں پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس کی متفقہ قرارداد کا خیرمقدم کیا گیا اور اسے پوری قوم کی آواز قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس قرارداد کی روشی میں ملک کی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلسِ عاملہ نے پاکستان کے علاقوں میں نیٹو افواج کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے متاثر ہونے والوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا، شہداء کے لیے دعائے مغفرت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ
- بیرونی حملوں کی روک تھام کے لیے جرأت مندانہ موقف اختیار کیا جائے،
- سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن فوری طور پر روک کر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جائے،
- سوات اور دیگر علاقوں میں عوام کے دیرینہ مطالبہ کو منظور کرتے ہوئے نظامِ شریعت کا نفاذ عمل میں لایا جائے بلکہ ملک بھر میں شرعی قوانین کے عملی نفاذ کے اقدامات کیے جائیں۔
مجلس عاملہ نے کہا ہے کہ مبینہ دہشت گردی اور خودکش حملوں کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ یہ ردعمل ہے اور جب تک اس کے مقامی و بین الاقوامی اسباب کا سدباب نہیں کیا جاتا ان کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔
مجلس عاملہ نے ان اطلاعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ کو خفیہ اداروں کی بے جا مداخلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کوائف معلوم کرنے کے بہانے دینی مدارس کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ حالانکہ حکومت اور دینی مدارس کی تنظیموں کے درمیان یہ بات طے ہو چکی ہے کہ حکومت مدارس کے بارے میں معلومات کے لیے وفاقوں سے رجوع کرے گی اور براہِ راست مدارس کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے مدارس سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس یا دیگر اداروں کی طرف سے معلومات اور کوائف کے بارے میں رابطہ کی صورت میں معمول کے کوائف مہیا کر دیں اور تفصیلی معلومات کے لیے ان سے کہیں کہ وہ وفاق کے دفتر سے رجوع کریں۔ مجلس عاملہ نے ملحقہ مدارس کے منتظمین سے کہا ہے کہ وہ دینی مدارس کے ماحول میں غیرتعلیمی سرگرمیوں اور خاص طور پر مدارس کے لیے نقصان کا باعث بننے والی سرگرمیوں کی اجازت نہ دیں اور انہیں پوری طرح کنٹرول کریں اس لیے کہ دینی مدارس کا تحفظ اور تعلیمی تسلسل کا جاری رکھنا مدارس کے منتظمین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
اجلاس میں طے پایا کہ وفاق المدارس کے دستور پر نظرثانی کے لیے اب تک ہونے والے کام کا جائزہ لے کر اسے حتمی شکل دینے کے لیے (۱) مولانا انوار الحق حقانی (۲) مولانا مفتی کفایت اللہ (۳) مولانا عطاء اللہ شہاب (۴) اور راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی پر مشتمل ’’دستور کمیٹی‘‘ تشکیل دی جائے جو اگلے ہجری سال کے آغاز سے قبل اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
اجلاس میں طے پایا کہ تخصصات کے نصابوں کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں نصابوں کو پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مروجہ معیار اور طریق کار سے ہم آہنگ کرنے کا جائزہ لیا جائے اور اسے بھی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے۔ نیز تخصصات کے نصابوں کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں (۱) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (۲) مولانا منظور احمد منگل (۳) راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی (۴) مولانا سعید یوسف خان (۵) اور مولانا محمد ولی خان المظفر کو بھی شامل کیا جائے۔
اجلاس میں وفاق المدارس کی مستقل ’’نصاب کمیٹی‘‘ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے سربراہ صدر وفاق حضرت مولانا سلیم اللہ خان اور سیکرٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ہوں گے جبکہ مولانا ظفر احمد قاسم، مولانا محمد یوسف خان، مولانا مفتی حامد حسن، مولانا رشید اشرف، مولانا مفتی عطاء الرحمان، مولانا منظور احمد مینگل، مولانا مفتی غلام قادر، مولانا محمد زاہد، مولانا حسین احمد، مولانا خلیل الرحمان، مولانا محمد ادریس، مولانا صلاح الدین، مولانا محمد عابد، مولانا مفتی محمد، مولانا مفتی ابولبابہ، مولانا غلام رسول عباسی اور دیگر حضرات اس میں شامل ہیں۔ جبکہ بیرون ملک جامعات اور تعلیمی اداروں کے ساتھ وفاق کی اسناد کے معادلہ کے امور کے لیے حضرت مولانا ڈاکٹر عبدا لرزاق اسکندر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی جس کے ارکان میں مولانا مفتی محمد نعیم بھی شامل ہیں۔
اجلاس میں طے پایا کہ وفاق المدارس کے ضمنی امتحان میں گزشتہ امتحان میں ناکام ہونے والے طلبہ (راسب) کو بھی دوبارہ شرکت کا موقع دیا جائے گا جس کے لیے اس سال ہونے والے ضمنی امتحانات کو مؤخر کر دیا گیا ہے جو نئے شیڈول کے مطابق ۲۹ نومبر سے ہوں گے اور تین دن جاری رہیں گے۔ جبکہ ۲۵ نومبر تک داخلہ بھجوانے والے طلبہ اس امتحان میں شریک ہو سکیں گے۔ نیز یہ بھی طے پایا کہ آئندہ وفاق المدارس کے ضمنی امتحانات شوال المکرم کے دوسرے عشرے میں ہوا کریں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عالمیہ سال اول (مشکوٰۃ شریف کا سال) کا سالانہ امتحان بھی وفاق کے تحت لیا جائے گا۔
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اجلاس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وفاقوں کے قائدین کے مذاکرات کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء سے حکومتی تعلیمی ادارے متوسطہ کی جگہ مڈل اور ثانویہ عامہ کی جگہ میٹرک کی اسناد کا مطالبہ نہیں کریں گے، اور وفاقوں کے فضلاء کی اعلیٰ تعلیم مثلاً ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ جبکہ طالبات کی اسناد کے بارے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مذاکرات جاری رہیں گے۔
اجلاس میں طے پایا کہ بنات کے لیے وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ کا منظور کردہ آٹھ سالہ نصاب اگلے سال سے باضابطہ شروع کر دیا جائے گا جبکہ موجودہ چار سالہ نصاب کے تحت اب تک داخلہ لینے والی طالبات کو یہ نصاب مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا مگر اس میں آئندہ طالبات کا داخلہ نہیں ہوگا۔ اور اگلے سال سے آٹھ سالہ مکمل نصاب اور تین سالہ الدراسۃ الدینیۃ کے نصاب کو ہی باضابطہ طور پر ترتیب کے ساتھ چلایا جائے گا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ نے ملکی صورتحال کے بارے میں پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس کے موقع پر ملک کے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ بیان کی مکمل تائید کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اکابر علماء کرام کے اس متفقہ اعلامیہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے علماء کرام کے مشترکہ اعلامیہ اور پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کی روشنی میں اصلاحِ احوال کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔