اس وقت مغرب اور عالم اسلام کے درمیان جاری کشمکش کے بارے میں بعض دانشور مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کشمکش اسلام اور مغرب کے درمیان نہیں ہے اور نہ ہی یہ ثقافت و تہذیب کی جنگ ہے بلکہ یہ امن کی خواہشمند دنیا اور تشدد و دہشتگردی کے خوگر افراد و طبقات کے درمیان معرکہ آرائی ہے جس میں امن پسند اقوام دہشت گردوں کو کچل کر عالمی امن کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس معرکہ آرائی میں مغرب کے اتحادی مسلم حکمرانوں کا موقف بھی یہی ہے اور وہ اسی دل فریب اور پرکشش عنوان کے ساتھ اپنے اپنے ملکوں میں جہادی قوتوں کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں دبانے بلکہ خود ان کے بقول جڑ سے اکھاڑنے میں مصروف ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بات ہمارے بعض ذمہ دار دینی راہنماؤں کی زبانوں پر آنے لگی ہے اور دینی قیادت میں شامل بعض اہم افراد نے بھی یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان بتدریج آگے بڑھنے والے یہ کشمکش تہذیبی اور ثقافتی جنگ نہیں ہے۔
بعض مسلم لیڈر یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو مغرب سے کچھ شکایات ہیں اور انہیں گلہ ہے کہ مغرب نے ان کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے، ان کی معیشت و سیاست کو اپنے مفادات کے جال میں جکڑ کر مسلم امہ کو یرغمال بنا لیا ہے، مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے والے یہودیوں کی پشت پناہی اور سرپرستی کر کے مغرب اس قضیہ میں مسلمانوں کے خلاف فریق بن گیا ہے، اور عالمی تنازعات میں مغرب نے مسلمانوں کے حوالہ سے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے مسلمان مغرب کے خلاف غیظ و غضب کا شکار ہیں، اور ردعمل میں بعض مسلمان انتہا پسندی پر اتر آئے ہیں اور ہتھیار بکف ہو کر تشدد کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ہمیں ان میں سے کسی بات سے انکار نہیں ہے، یہ فہرست پوری کی پوری درست ہے بلکہ ان امور کے حوالہ سے مسلمانوں کی شکایات کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور ہمارے نزدیک یہ فہرست ادھوری اور نامکمل ہے۔ جب تک اس میں عقیدہ و ثقافت کی کشمکش اور اس میں مغرب کے جارحانہ کردار کو شامل نہیں کیا جائے گا تب تک مغرب اور مسلمانوں کے درمیان اس تنازعہ اور کشمکش کا معروضی منظر مکمل نہیں ہوگا۔
مغرب پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس جنگ کو عقیدہ و ثقافت کا معرکہ سمجھتے ہوئے پیش رفت کر رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے عقیدہ و ثقافت سے محروم کر دیا جائے اور وہ اپنی مذہبی اقدار و روایات سے دست بردار ہو کر گلوبل ثقافت کے نام پر مغربی تہذیب و ثقافت کو قبول کر لیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اس کی بنیاد پر مسلم حکومتوں سے کیے جانے والے وہ مسلسل تقاضے ہیں جو اقوام متحدہ کے مختلف اداروں اور مغربی حکومتوں کی سالانہ رپورٹوں کی صورت میں ہر سال مسلم حکومتوں کے نوٹس میں لائے جاتے ہیں اور جن پر عملدرآمد کے لیے مسلم حکومتوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔اس کی چھوٹی سی مثال امریکی وزارت خارجہ کی وہ سالانہ رپورٹ ہے جو پاکستان کے بارے میں گزشتہ ہفتے جاری ہوئی ہے اور اس کے بعض حصوں کی نفی کی ضرورت کو حکومت پاکستان نے بھی محسوس کیا ہے۔ پاکستان میں حدود آرڈیننس، توہین رسالت کی سزا کے قانون، نکاح و حقوق و وراثت میں مرد اور عورت کی مساوات، اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے دستوری فیصلے کے بارے میں مغربی حکومتوں اور اداروں کے جو مطالبات سالانہ رپورٹوں کی صورت میں ریکارڈ پر ہیں وہ سب اسی دباؤ کا حصہ ہیں۔ اور ان سب معاملات کا تعلق عقیدہ و ثقافت سے ہے، قرآن و سنت کے صریح احکام سے ہے اور مسلمانوں کی مسلّمہ تہذیبی اقدار سے ہے۔
اس لیے یہ کہنا کہ مغرب اور مسلمانوں کی موجودہ کشمکش صرف سیاست و معیشت سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں عقیدہ و ثقافت کا کوئی دخل نہیں ہے، مغربی لیڈروں کی طرف سے فریب کاری کا مظاہرہ اور مسلم لیڈروں کی خودفریبی کا مظہر ہے جسے کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں سب سے واضح مثال ترکی کی ہے جس نے نہ صرف یورپی کلچر کو قبول کیا بلکہ اس کے لیے اسلامی پس منظر اور اقدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا لیکن یورپ اس سے مطمئن نہیں ہے اور ترکی معاشرہ میں اسلام کے رہے سہے نشانات بھی اسے برداشت نہیں ہیں۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک برطانوی وزیرخارجہ جیک سٹرا کے اس بیان میں دیکھی جا سکتی ہے جو انہوں نے ترکی پارلیمنٹ میں زیربحث اس مسودہ قانون کے بارے میں دیا ہے جس کے تحت ناجائز جنسی تعلقات کو قانوناً جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ روزنامہ جنگ لندن میں ۱۶ ستمبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق جیک سٹرا نے کہا ہے کہ ترکی میں ناجائز تعلقات کو جرم قرار دیے جانے کا فیصلہ ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی امید کے خلاف جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس متنازع تجویز پر ترکی کی پارلیمنٹ میں مباحثہ جاری ہے اور اگر اسے قانونی شکل دی گئی تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تجویز پر تبادلہ خیال کے لیے یہ وقت غلط ہے جبکہ ترکی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مسئلے سے نمٹنے اور سزائے موت ختم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اسے یورپی یونین میں شامل کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے جبکہ ترکی چالیس سال سے یورپی یونین میں شمولیت کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شادی کے علاوہ جنسی تعلقات کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے معاملے میں یورپی یونین کے عہدیداران مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں جس کے نتائج خراب ہو سکتے ہیں۔
جیک سٹرا کے اس بیان سے واضح ہے کہ مسلمانوں سے مغرب کے مطالبات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ جنسی تعلقات اور زنا کے بارے میں قرآن کریم کے صریح احکام سے دستبردار ہو کر مغرب کے ’’سیکس فری کلچر‘‘ کو قبول کریں اور اسے دستوری و قانونی تحفظ فراہم کریں۔ اب یہ بات اگر عقیدہ و ثقافت سے تعلق نہیں رکھتی تو اسے اور کس عنوان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر حدود آرڈیننس، توہین رسالت کی سزا، خاندانی نظام کے احکام، جنسی تعلقات اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے مسائل بھی عقیدہ و ثقافت کی کشمکش کے مسائل نہیں ہیں تو اور کون سے امور و مسائل ہیں جنہیں ثقافت و عقیدہ کے تنازعہ اور کشمکش کے معاملات شمار کیا جائے گا؟
برطانوی وزیرخارجہ جیک سٹرا نے ۱۱ ستمبر کو لندن سے شائع ہونے والے عربی روزنامہ الشرق الاوسط میں بھی اپنے مضمون میں یہ بات دہرائی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جدوجہد اسلام اور مغرب کے درمیان لڑائی نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اسی مضمون میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ لڑائی تہذیبی اقدار اور تشدد و بربادی کے درمیان ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں ترکی کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کا حامی ہے جس سے ثابت ہوگا کہ وہ اقدار جنہیں کچھ حلقے عیسائی یا یورپی سمجھتے درحقیقت آفاقی ہیں۔
برطانوی وزیرخارجہ نے اس ایک جملہ میں ساری بات کہہ دی ہے کہ مغرب اپنی تہذیب و ثقافت کو مسلمانوں سے زبردستی منوا کر اسے آفاقی اور عالمی تہذیب ثابت کرنا چاہتا ہے اور اسے پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بننے والے اور مزاحمت کرنے والے لوگ اس کے نزدیک تہذیبی اقدار سے محروم اور دہشت گرد ہیں۔ اس کے بعد بھی ہمارے بعض راہنماؤں اور دانشوروں کے نزدیک یہ جنگ تہذیبی نہیں ہے تو ان کی دماغی صحت کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔