دستور پاکستان میں پندرہویں ترمیم کا بل جسے شریعت بل کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سینٹ میں جا چکا ہے اور حکومتی حلقے اس بات کا اعتماد کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں کہ یہ بل سینٹ میں بھی مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے دستور کا حصہ بن جائے گا۔ جبکہ بعض اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت کو سینٹ میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے اور وہ قومی اسمبلی میں بعض ایسی جماعتوں کا ووٹ حاصل نہیں کر سکی جن سے حکومت حمایت کی توقع کر رہی تھی اس لیے سینٹ میں یہ بل پاس نہیں ہو سکے گا اور دستوری طور پر ملک کی صورتحال اسی طرح جوں کی توں رہے گی جیسی اس بل کی قومی اسمبلی میں منظوری سے پہلے تھی۔
پندرہویں دستوری ترمیم کا مسودہ جب پیش کیا گیا تو اس میں قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کی شق پر کم و بیش سبھی قابل ذکر حلقے متفق تھے اور چند انتہا پسند سیکولر گروہوں کے سوا کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔ البتہ بل میں شامل چند دیگر باتیں متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی تھیں جن میں (۱) اس بل کے مقاصد کے حوالہ سے دستور میں آئندہ ترمیم کا طریق کار تبدیل کر کے اس کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی شرط ختم کرنا (۲) اور حکومت کو ایسے احکام کا اختیار دینا جو کسی بھی قانون یا عدالتی فیصلے کے علی الرغم مؤثر ہوں۔ ان شقوں پر مختلف دینی و سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا حتیٰ کہ خود حکمران پارٹی کے ارکان اسمبلی میں بھی بغاوت کے آثار نظر آنے لگے اس لیے بل کے مسودہ میں ردوبدل کر کے آئینی ترامیم کے طریق کار میں تبدیلی کی شق واپس لے لی گئی اور دوسری شقوں کے بعض الفاظ بھی بدل دیے گئے جس سے اختلاف کی شدت کم ہوگئی اور حکومت اسے قومی اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی۔
جہاں تک قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کا تعلق ہے ہم اس کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ یہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا ناگزیر تقاضہ اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی اولین ضرورت ہے اور ہمیں ان لوگوں کے موقف سے اتفاق نہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ دستور میں قراردادِ مقاصد اور دیگر اسلامی دفعات کی موجودگی میں اس نئی آئینی ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ قرارداد مقاصد کے حوالہ سے لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کے بعض فیصلوں کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جب قرارداد مقاصد کی امتیازی اور بالاتر حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تو عدالتی عمل کے ذریعے قوانین کی اسلامائزیشن میں ڈیڈلاک کی صورت پیدا ہوگئی تھی اور کوئی ایسا راستہ باقی نہیں رہ گیا تھا کہ ملک میں رائج کسی غیر اسلامی قانون کے خاتمہ کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جا سکے۔ اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ نہ دیتی تو بلاشبہ اس مقصد کے لیے قرارداد مقاصد ہی کافی تھی اور کسی نئی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن حاکم علی کیس میں سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد قوانین کی اسلامائزیشن کے حوالہ سے قرارداد مقاصد کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی اور ایک نئے آئینی اقدام کی ضرورت پیدا ہو گئی جو اعلیٰ عدالتوں کو قرآن و سنت کے منافی قوانین ختم کرنے کے لیے دستوری بنیاد فراہم کر سکے۔ اس لیے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کے لیے ایک نئی دستوری ترمیم کی ضرورت موجود تھی جسے پندرہویں آئینی ترمیم نے بظاہر پورا کر دیا ہے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہشمند ہر شخص کو سیاسی اور گروہی ترجیحات سے بالاتر ہو کر اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔
تاہم نفاذ اسلام کے عملی اقدامات کے حوالہ سے مسودہ میں ردوبدل اور بعض اہم ترامیم کے باوجود ابہام کی فضا بدستور موجود ہے اور یہ ابہام آئندہ چل کر حکومت اور مذہبی حلقوں کے درمیان خلفشار کا باعث بن سکتا ہے۔ مثلاً اس بل کے تحت حکومت نے نفاذ شریعت کے اقدامات، نماز قائم کرنے، زکوٰۃ کا نظام قائم کرنے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام اور اسلامی اصولوں کے مطابق سماجی انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان امور کے تعین اور نفاذ کا وہ اختیار بھی حاصل کر لیا ہے جو کسی بھی قانون یا عدالتی فیصلے کے باوجود مؤثر ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی کام کو اسلامی قرار دینے اور اس کے نفاذ کا طریق کار طے کرنے میں فائنل اتھارٹی خود حکومت ہوگی اور پوری قوم کو اس حوالہ سے حکومت کا ہر فیصلہ بہرحال قبول کرنا ہوگا۔
اگر قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے پندرہویں آئینی ترمیمی بل کی متعلقہ دفعات کی تشریح وہی ہے جو ہم نے سمجھی ہے اور مذکورہ بالا سطور میں بیان کی ہے تو یہ صورتحال اسلامائزیشن کے حوالہ سے سنجیدہ دینی و علمی حلقوں کے لیے کسی صورت بھی قبول قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کیونکہ موجودہ سیاسی و انتظامی ڈھانچے اور مروجہ ریاستی نظام کے فریم ورک میں کسی بھی حکومت کو اتنا بڑا اختیار دینے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ برسراقتدار گروہ اپنی ترجیحات، تحفظات اور مفادات کے حوالہ سے جس امر کو چاہے گا اسلام قرار دے کر ملک میں نافذ کر دے گا اور اس کے طریقہ کار کے تعین میں وہ پوری طرح خودمختار ہوگا۔ جس کا نتیجہ اکبر بادشاہ کی طرز کے ایک نئے ’’دین الٰہی‘‘ کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے اور بالآخر اس کے خلاف حساس دینی حلقوں کو حضرت مجدد الف ثانی کی طرز پر ایک نئی دینی جدوجہد کے لیے صف آرا ہونا پڑے گا۔ اس لیے اس امر کی شدید اور فوری ضرورت ہے کہ ملک کے دینی و علمی مراکز اور نفاذ اسلام کی علمبردار جماعتیں اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور پندرہویں آئینی ترمیم کے سینٹ آف پاکستان سے منظور ہونے سے پہلے ہی اس ابہام کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ بعد میں رونما ہونے والے اس بڑے خلفشار سے بچا جا سکے جس کا خدشہ ہم سطور بالا میں ظاہر کر چکے ہیں۔
اسلامی احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح کے بارے میں ملک کے دینی حلقوں اور بہت سے جدید تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان پہلے ہی ایک واضح فکری اور ذہنی خلیج موجود ہے جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے نزدیک دستور پاکستان کے تحت قائم ادارے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت اس خلیج کو پاٹنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ ان اداروں میں دونوں طبقوں کی قابل قدر نمائندگی موجود ہے اور یہ ادارے باہمی افہام و تفہیم اور فکری ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اچھے فورم ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ان اداروں کی افادیت کو برقرار رکھا جائے اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کا اہتمام کر کے اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ ہمارے خیال میں حکومتی گروہ کے لیے بھی یہ بات فائدے کی نہیں ہوگی کہ وہ اسلامی احکام و قوانین کی فائنل تعبیر و تشریح کی ذمہ داری خود قبول کرے کیونکہ اس صورت میں وہ بعض ایسے معاملات میں اپنی مشکلات اور مخالفت بڑھا لے گی جنہیں اداروں کے حوالہ سے طے کرنے کی صورت میں اسے بہت سی مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔
بہرحال ہم قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کے اہتمام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کے عملی نفاذ کے طریق کار کے بارے میں اپنے خدشات و تحفظات کو حکومت اور دینی حلقوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، امید ہے کہ ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے گا۔