جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی ضلع گوجرانوالہ میں ’’مطالعہ مذاہب‘‘ کے حوالہ سے تربیت کورسز کا تسلسل جاری ہے اور اس کا چوتھا سہ روزہ کورس ۱۳ تا ۱۵ مئی کو منعقد ہوا جس کا موضوع (۱) قادیانیت (۲) بہائیت (۳) اسماعیلیت اور (۴) ذکری مذاہب تھے۔ مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے ۷۰ کے لگ بھگ علمائے کرام اور طلبہ نے شرکت کی جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر غلام علی خان، پروفیسر ڈاکٹر محمد عبد اللہ خان، جامعہ عربیہ چنیوٹ سے مولانا مشتاق احمد اور چترال سے پروفیسر شمس النظر کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اللہ وسایا اور راقم الحروف نے مذکورہ بالا عنوانات پر گزارشات پیش کیں۔
یہ کورس دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے ہوتے ہیں چنانچہ دعوہ اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجبار شاکر نے اختتامی نشست کی صدارت کی جبکہ متحدہ علماء کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف ملک بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور اس نشست میں شرکائے کورس کو اسناد تقسیم کی گئیں۔ جامعہ اسلامیہ کامونکی کے سربراہ اور مطالعہ مذاہب کے ان کورسز کے داعی مولانا عبد الرؤف فاروقی نے اس موقع پر یہ خوشخبری بھی دی کہ انہوں نے ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے نام سے ایک علمی تحقیقی جریدہ کے لیے ڈیکلیریشن کی درخواست دے رکھی ہے جو منظوری کے آخری مراحل میں ہے اور ستمبر کے دوران منعقد ہونے والے اگلے تربیتی کورس سے قبل یہ جریدہ باقاعدہ اشاعت کا آغاز کر سکے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
راقم الحروف کو تحریک ختم نبوت کے مرحلہ وار جائزہ اور ذکری مذہب کے تعارف کے دو عنوانات پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی چنانچہ ایک نشست میں تحریک ختم نبوت کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا اور دوسری نشست میں ’’ذکری مذہب‘‘ کے ساتھ امریکہ کی ’’نیشن آف اسلام‘‘ کو شامل کر کے ان دو مذاہب کا مختصر تعارف کرایا۔
تحریک ختم نبوت کے بارے میں عرض کیا کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک دائرہ علمی اور فکری جدوجہد کا ہے اور دوسرا دائرہ رائے عامہ کو قادیانیت کے خلاف بیدار اور منظم کرنے کی تحریکی جدوجہد کا ہے۔ ان دونوں کا الگ تعارف ضروری ہے:
- مرزا غلام احمد قادیانی نے جب انیسویں صدی کے اواخر میں نبوت کا دعوٰی کیا اور نیم فلسفیانہ بحثیں کھڑی کر کے نوجوانوں بالخصوص دینی تعلیم سے ناواقف لوگوں کے ذہنوں کو شکوک و شبہات کا شکار بنانا شروع کیا تو عقائد اور ان کی تعبیر و تشریح کے حوالہ سے بہت سے سوالات نے جنم لیا۔ اور خاص طور پر یہ سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہوگیا کہ کوئی شخص توحید، قیامت، حضرت محمدؐ کی رسالت، اور قرآن کریم پر ایمان کا اظہار کرنے کے بعد پھر کیسے کافر ہو سکتا ہے اور ایسے شخص کو کافر قرار دینے کا کیا جواز ہے؟ اس پر امام المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے قلم اٹھایا اور اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’اکفار الملحدین‘‘ میں علمی طور پر اس بات کو واضح کیا کہ کافر، زندیق اور ملحد کسے کہتے ہیں اور کھلے کفار کے علاوہ زنادقہ اور ملحدین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کے خلاف کفر کا فتوٰی صادر کرنے کا اعزاز سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے حاصل کیا اور اس کے بعد تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے رفتہ رفتہ اس فتوٰی کی تائید کرتے ہوئے مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اور پھر ایک وقت آیا کہ پوری دنیائے اسلام اس فتوٰی پر متفق ہوگئی اور قادیانیوں کو دنیا بھر میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ قادیانیوں کی علمی و فکری فریب کاریوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اس دور میں جن اکابر علماء کرام نے خدمات سرانجام دیں ان میں حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کے علاوہ حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ (بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ)، حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، حضرت مولانا مرتضٰی حسن چاندپوریؒ اور حضرت مولانا کرم الدین دبیرؒ آف بھیں ضلع چکوال سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے سینکڑوں علماء کرام نے قادیانیت کے حوالہ سے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور قادیانی مکر و فریب کا تاروپود بکھیرتے ہوئے امت مسلمہ کو اس دام ہمرنگ زمین سے بچایا۔
جدید تعلیم یافتہ حضرات کو قادیانیت کے اصل چہرے سے روشناس کرانے میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال مرحوم کا کردار سب سے نمایاں ہے، انہوں نے سب سے پہلے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ غیر مسلم گروہ قرار دینے کی تجویز پیش کی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کی آئینی حیثیت کے بارے میں بالآخر اس تجویز پر متفق ہوگئے اور اسی کو مطالبہ قرار دے کر تحفظ ختم نبوت کی تحریک چلائی جو ۱۹۷۴ء میں دستوری طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر منتج ہوئی۔ علامہ محمد اقبالؒ کے ساتھ اس مسئلہ پر پنڈت جواہر لال نہرو کی خط و کتابت ہوئی جس میں پنڈت نہرو نے قادیانیوں کی وکالت کی اور علامہ اقبالؒ نے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کو دلائل کے ساتھ واضح کیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے علامہ اقبالؒ اور پنڈت جواہر لال نہرو کی اس تاریخی خط و کتابت کا مطالعہ ضروری ہے، اس سے قادیانیوں کی مذہبی حیثیت کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی اور سماجی پوزیشن بھی پوری طرح بے نقاب ہو جاتی ہے۔
- قادیانیت کے خلاف رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کی جدوجہد کا سہرا مجلس احرار اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے سر ہے جس نے ۱۹۳۴ء میں قادیان میں کانفرنس منعقد کر کے قادیانیت کے خلاف عوامی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر اس کے بعد ۱۹۷۴ء کو قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے تک اس تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس جدوجہد کی قیادت امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے کی اور انہوں نے مجلس احرار اسلام اور پھر مجلس تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم کو اس مسئلہ میں امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر کے اتحاد کا ذریعہ بنایا جس کے نتیجے میں ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی عوامی تحریکات بپا ہوئیں اور زبردست عوامی دباؤ کے تحت بالآخر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں کل جماعتی مجلس عمل کے سربراہ حضرت مولانا سید ابوالحسنات قادری تھے جبکہ ۱۹۷۴ء میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور ۱۹۸۴ء میں حضرت مولانا خواجہ خان محمد مدظلہ نے کل جماعتی مجلس عمل کی قیادت فرمائی۔
ذکری مذہب کا آغاز دسویں صدی ہجری میں بلوچستان کے مقام تربت میں ایک شخص ملا محمد اٹکی کے دعوائے مہدیت سے ہوا اور اس نے رفتہ رفتہ نبوت اور پھر خاتم الانبیاء کا دعوٰی کر دیا۔ یہ مذہب اس وقت سے چلا آرہا ہے اور فیروز سنز کے اردو انسائیکلو پیڈیا کے مطابق بلوچستان، کراچی اور اندرون سندھ میں اس فرقہ کے افراد خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے مذہب میں نماز منسوخ کر دی گئی ہے اور اس کی جگہ پر مخصوص اوقات میں ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ذکری کہلاتے ہیں۔ وہ اپنے خودساختہ نبی محمد مہدی کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں جو ’’لا الٰہ الا اللہ نور پاک محمد مہدی رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں رمضان المبارک کے روزے منسوخ کیے جا چکے ہیں اور اس کی جگہ یہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے روزے رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ بھی منسوخ ہے اس کی جگہ یہ اپنے مذہبی پیشواؤں کو آمدنی کا دسواں حصہ دیتے ہیں۔ بیت اللہ شریف کا حج بھی ملا محمد اٹکی نے منسوخ کر دیا تھا اس کی بجائے یہ رمضان المبارک کی ستائیس تاریخ کو کوہِ مراد تربت میں جمع ہو کر مخصوص قسم کی عبادات کرتے ہیں جو ان کا حج کہلاتا ہے۔ غسل جنابت کو بھی اس مذہب میں منسوخ کر دیا گیا ہے اور ’’چوگان‘‘ کے نام سے ایک مخصوص عبادت میں ان کے مرد اور عورتیں گھیرا بنا کر رقص کرتے ہیں اور اس طرح کی اور بہت سی رسمیں ان کی عبادات کا حصہ ہیں۔
ذکریوں کا عقیدہ ہے کہ محمد مہدی مذکور (نعوذ باللہ) پیغمبر آخر الزمان اور خاتم الانبیاء ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے۔ ان کے ایک رسالہ ’’معراج نامہ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج اس لیے کرایا گیا تھا کہ ایک موقع پر کسی سوال کے جواب میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ انبیاء کرام کا سردار میں ہوں تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عرش پر بلا کر بتایا کہ (نعوذ باللہ) انبیاء کا سردار یہ ہے جو میرے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے اور اس روایت کے مطابق یہ ملا محمد اٹکی تھا۔ ملا محمد اٹکی کے بارے میں ذکریوں کا کہنا ہے کہ وہ نوری مخلوق تھا جس کا ظہور ۹۷۷ھ میں ہوا اور ۱۰۲۹ھ میں وہ غائب ہوگیا جس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ’’نوری بود بعالم بالا رفت‘‘ (نوری تھا، عالم بالا کو واپس لوٹ گیا ہے)۔
ان کے ۲۷ رمضان کے دن کوہِ مراد کے حج کے بارے میں علماء کرام نے کئی بار احتجاج کیا ہے اور اسے مصنوی حج اور بیت اللہ شریف کی توہین قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک بار حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ بھی علماء کرام کا ایک قافلہ لے کر اس علاقہ میں احتجاج کے لیے گئے تھے اور بلوچستان کے علماء کرام اس سلسلہ میں مسلسل احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ قادیانیوں اور ذکریوں کے عقائد اور فلسفہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور جس طرح قادیانیوں کو ان عقائد کی وجہ سے دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے ذکریوں کے بارے میں بھی اسی نوعیت کا فیصلہ ضروری ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس سلسلہ میں متعدد بار آواز اٹھائی ہے لیکن اس عنوان پر مستقل اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔