توہینِ رسالت کے خلاف بیداری کا مظاہرہ کیا جائے

   
۱۶ مارچ ۲۰۰۸ء

ڈنمارک کے اخبارات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی بات چل رہی ہے اور اس پر عالم اسلام کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے کہ ہالینڈ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے قرآن مجید کے حوالے سے فلم کا مسئلہ کھڑا کر کے ’’یک نہ شد دو شد‘‘ والا معاملہ کر دیا ہے۔ اور عالم اسلام کے حکمرانوں کا رویہ وہی روایتی سا ہے کہ رسمی احتجاج کر کے وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ اپنے تعلق کا ثبوت فراہم کر دیا ہے اور اس حوالہ سے انہوں نے اپنے اپنے ملکوں کے عام مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کر دی ہے۔ او آئی سی نے ڈاکار (سینیگال) میں ہونے والے اپنے سربراہی اجلاس میں اس مسئلہ پر محض رسمی احتجاج پر اکتفا کر لیا ہے جبکہ دنیائے اسلام کی رائے عامہ کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلم حکومتیں ڈنمارک اور ہالینڈ کی حکومتوں سے باضابطہ بات کریں اور اس سلسلہ میں دوٹوک لائحہ عمل طے کیا جائے جس کا بنیادی ہدف مغرب پر سرکاری سطح پر یہ واضح کر دینا ہو کہ اسے عالم اسلام کے ساتھ اپنے تعلقات کو باقی رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کی حرمت و تقدس کے احترام کے ساتھ ساتھ اسلامی عقیدہ و ثقافت کے جداگانہ وجود اور امتیاز کو تسلیم کرنا ہوگا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مغرب عالم اسلام کے ساتھ مختلف حوالوں سے مکالمہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس مبینہ مکالمہ اور مباحثہ کی بنیاد دو تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان بقائے باہمی کے لیے مفاہمت کے تصور پر نہیں بلکہ اسلامی عقیدہ و ثقافت کی سرے سے نفی کرتے ہوئے مسلمانوں کو مغرب کے طرز عمل اور ثقافت کو قبول کرنے پر بہرحال آمادہ اور مجبور کرنے کے طرز عمل پر ہے۔ اور مغرب کی تمام تر علمی و فکری صلاحیتیں اور ابلاغی بلکہ عسکری وسائل بھی اسی ایک نکتہ پر صرف ہو رہے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی بے لچک وابستگی کو ختم کرنے اور مغرب کے فلسفہ و ثقافت کو قبول کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے اور کمٹمنٹ کا تعلق قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کے ساتھ نہ صرف یہ کہ بدستور قائم ہے بلکہ بحمد اللہ تعالیٰ مسلم معاشرے میں قرآن و سنت کی تعلیمات سے وابستگی کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور نئی نسل کے قرآن و سنت کی طرف رجوع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو مغرب کے لیے پریشان کن بات ہے اور مغرب اس فضا میں اپنے ثقافتی ایجنڈے کی پیشرفت میں رکاوٹ کو کم ہونے کی بجائے بڑھتا دیکھ کر جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک محفل میں اس بات کا ذکر ہو رہا تھا کہ مغرب عالم اسلام میں اپنے ثقافتی ایجنڈے کی راہ میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو رکاوٹ سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ مسلم معاشرہ میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی موجودگی اور فروغ کا باعث دینی مدارس ہیں، اس لیے وہ دینی مدارس کو بند کرنے یا مغرب کے زیر اثر مسلم ممالک کے ’’اجتماعی دھارے‘‘ میں تحلیل کر دینے کے لیے کوشاں ہے۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ یہ مغرب کا مغالطہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں دینی تعلیمات اس وجہ سے موجود ہیں کہ دینی مدارس کا نظام موجود ہے اور اسے ختم کر کے شاید مسلم عوام کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے بیگانہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات دینی مدارس کی وجہ سے نہیں بلکہ دینی مدارس اس لیے قائم ہیں کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات دے رہے ہیں۔ قرآن و سنت نے تو بہرحال موجود رہنا ہے اور قیامت تک رہنا ہے، ان کے ساتھ جو بھی منسلک ہوگا اسے بھی تحفظ اور بقا مل جائے گی۔ اس لیے بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ دینی مدارس قرآن و سنت کی حفاظت کر رہے ہیں، یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہوگا کہ دینی مدارس کا وجود اور تحفظ و بقا قرآن و سنت کا مرہون منت ہے۔

بہرحال بنیادی مسئلہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی موجودگی اور ان کے ساتھ عام مسلمان کی بے لچک وابستگی کا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی کسی بات پر عمل کرے یا نہ کرے مگر وہ قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی، دونوں میں سے کسی کی توہین برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی کسی سے یہ بات سننے کا روادار ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بات یا آنحضرتؐ کا کوئی ارشاد گرامی نعوذ باللہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی حصے میں چلے جائیں اور مسلمانوں کے عقیدہ و جذبات کو پرکھ لیں کوئی بھی مسلمان آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو بےعملی بلکہ بدعملی کے باوجود قرآن کریم کی توہین اور حضورؐ کی شان اقدس میں گستاخی برداشت کرنے کے لیے تیار ہو یا ان میں سے کسی کے ارشاد کے بارے میں یہ بات سننے کا روادار ہو کہ وہ درست نہیں۔مغرب مسلمانوں کی رسول اور کتاب کے ساتھ اس وابستگی کو کمزور کرنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے اور آزادیٔ اظہار رائے، برداشت، رواداری اور تحمل کے نام پر مسلمانوں کو اس سطح پر لے آنا چاہتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی کسی بات کا مذاق اڑانے اور آنحضرتؐ کے کسی بھی حوالہ سے گستاخانہ تذکرہ پر احتجاج نہ کریں بلکہ اسے برداشت کرتے ہوئے آزادیٔ رائے کے مغربی تصور و فکر کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں، مگر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ مغرب نے اسے آزادیٔ اظہارِ رائے کا عنوان دے رکھا ہے مگر یہ اس کی سراسر دھاندلی ہے اس لیے کہ اختلاف اور تنقید میں اور توہین و استہزا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

ہماری تاریخ گواہ ہے کہ مستشرقین نے اسلامی تعلیمات پر، قرآن کریم کے ارشادات پر اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات پر ہر دور میں اعتراضات کیے ہیں، اختلاف کیا ہے اور ایسے سینکڑوں مواقع آئے ہیں کہ مسلمانوں نے ان کی باتوں پر جذباتی ہونے کی بجائے دلیل اور منطق کے ساتھ ان کا جواب دیا ہے لیکن توہین، استخفاف اور استہزا کو کبھی برداشت نہیں کیا۔ جس دور میں سلمان رشدی کی شیطانی کتاب کا تذکرہ اور اس پر احتجاج عام تھا، برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک جلسہ کے دوران کسی نوجوان نے یہ سوال اٹھایا کہ علماء کرام سلمان رشدی کی شیطانی کتاب پر جذباتیت کا اظہار کرنے کی بجائے اس کا جواب کیوں نہیں لکھتے۔ میں نے اسی مجلس میں اس پر عرض کیا کہ جواب ہمیشہ دلیل کا دیا جاتا ہے جبکہ گالی کا جواب دلیل نہیں بلکہ ہمیشہ تھپڑ ہوا کرتا ہے۔ آپ کسی شخص کے سامنے اس کے باپ کی کسی بات سے اختلاف کریں اور احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنا موقف بیان کریں تو وہ بھی آپ کی بات کا جواب دلیل سے دے گا اور آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اگر آپ اس کے سامنے اس کے باپ کی توہین کریں گے، اس کا تمسخر اڑائیں گے اور استہزا کریں گے تو وہ آپ کے طرزعمل کے جواب میں استدلال اور منطق کا سہارا نہیں لے گا بلکہ غیرت و حمیت کا ہر ممکن مظاہرہ کر کے اس بے ہودگی کا آپ کو جواب دے گا۔

مگر مغرب اس معروضی حقیقت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے لیے یہ حق حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے جس لہجے میں چاہے بات کرے، اسلام کی تعلیمات کا جس انداز میں چاہے مذاق اڑائے، قرآن کریم کی جیسے جی چاہے توہین کرے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جس طرح چاہے تمسخر اڑائے، مسلمان اسے خاموشی کے ساتھ برداشت کریں بلکہ اسے داد دیں کہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے کا علمبردار ہے۔ چنانچہ اسی نام نہاد آزادیٔ رائے کا ہدف اللہ تعالیٰ کا دین اور اس کے رسول و نبی بھی بن رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے دنیا کے ہر ملک میں یہ قانون موجود ہے کہ کسی بھی شخصیت کی ’’حیثیت عرفی‘‘ مجروح ہونے پر اسے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق حاصل ہے اور دنیا کا ہر قانون فرد کی حیثیت عرفی کا تحفظ کرتا ہے۔ لیکن اگرچہ مغرب خود حضور نبی کریمؐ کو نسل انسانی کے مصلحین میں سرفہرست شمار کرتا ہے مگر اس ذات گرامی کی حیثیت عرفی کے تحفظ کے لیے مغرب کوئی اصول یا قانون متعارف کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بہرحال اس فضا اور پس منظر میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں غیرت و حمیت سے مسلمان ڈنمارک اور ہالینڈ کے حوالہ سے احتجاج کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ ہم نے بھی گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے مختلف مکاتب فکر کے دینی راہنماؤں کو مل جل کر اس سلسلہ میں اجتماعی احتجاج کا پروگرام منظم کرنے کی دعوت دی تھی جس پر دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجتماع گزشتہ روز جامعہ محمدیہ اہل حدیث گوجرانوالہ میں منعقد ہوا جس میں طے پایا کہ کل جماعتی مجلس تحفظ ناموس رسالت کا باقاعدہ قیام عمل میں لا کر منظم احتجاجی مہم چلائی جائے۔ بحمد اللہ تعالیٰ اس مجلس میں تمام مذہبی مکاتب فکر کے زعماء اور دینی جماعتوں کے راہنما شریک ہیں اور اس مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے ۱۱ مارچ کو نماز جمعۃ المبارک کے بعد جی ٹی روڈ پر ایک شاندار احتجاجی مظاہرے کے ذریعے اپنے مشترکہ جذبات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ ادھر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علماء کرام بھی متحرک ہوگئے ہیں اور پاکستان شریعت کونسل اور جمعیۃ اہل سنت کے زیر اہتمام ۱۷ مارچ سوموار کو نماز ظہر کے بعد جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر میں ایک احتجاجی کنونشن منعقد ہو رہا ہے۔دوسرے شہروں کے علماء کرام اور راہنماؤں سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں بیداری کا مظاہرہ کریں اور مسلمانوں کو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت اور غیرت و حمیت کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں۔ یہ ہمارے دین و ایمان کی علامت ہے اور اس کا تقاضا بھی ہے جس کا بروقت اور پرجوش اظہار کر کے ہم مغرب کی اس ثقافتی یلغار اور تہذیبی دھاندلی کا راستہ روک سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter