روزنامہ جنگ لاہور ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کے مطابق فرانس کے وزیر داخلہ نکلس سرکوزی نے مسلم راہنماؤں کو انتباہ کیا ہے کہ وہ فرانس میں اسلامی اقدار کے فروغ کی کوشش نہ کریں ورنہ ایسے شدت پسندوں کو فرانس سے نکال دیا جائے گا۔ فرانس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے اور دنیا میں مغربی جمہوریت کے سفر کا آغاز انقلاب فرانس سے ہوا تھا لیکن دنیا بھر میں جمہوریت کا سبق پڑھانے والے یورپی لیڈر اسلامی اقدار کے بارے میں اس قدر حساس ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے ملکوں میں اسلامی اقدار کا فروغ کسی صورت میں گوارا نہیں۔
دوسری طرف اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے سعودی عرب، مراکش اور دوسرے عرب ممالک میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے نام سے مغربی تہذیب و اقدار کے فروغ کے لیے بیس ملین ڈالر سے زیادہ رقم مختص کرنے کا اعلان کیا ہے جو نجی گروپوں میں تقسیم کی جائے گی اور انہیں آمادہ کیا جائے گا کہ وہ اسلامی اور علاقائی ثقافتوں سے بغاوت کرکے اپنے معاشروں میں مغربی تہذیب اور اقدار کے فروغ کی راہ ہموار کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک مسلم معاشروں میں اپنی تہذیب اور فلسفہ کو مسلط کرنے کے لیے فوج کشی، میڈیا کے ذریعہ کردار کشی، رقوم کی تقسیم اور ضمیروں کی خرید و فروخت سمیت جو حربے بھی استعمال کریں وہ سب جمہوریت پسندی کے لیبل میں چھپ جاتے ہیں، اور مسلمان کسی معاشرہ میں پرامن اور روایتی ذرائع سے اپنی اقدار کا تعارف کرائیں اور اسلامی تہذیب کی طرف لوگوں کو راغب کرنا چاہیں تو وہ شدت پسندی کہلاتی ہے۔ مغرب کی یہی منافقت اور اس کا دہرا معیار ہے جس نے عالم اسلام کے سامنے مغرب کی نام نہاد جمہوریت پسندی کو بے نقاب کرکے اس کا اصل چہرہ سامنے کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کب کھلیں گی اور وہ مغرب کی اس منافقت کے فریب سے عالم اسلام کو نکالنے کے لیے اپنا کردار کب ادا کریں گے ؟