عید الفطر کے بعد مجھے تین چار روز کے لیے زلزلہ زدہ علاقے میں جانے کا موقع ملا، پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا قاری جمیل الرحمن اختر ہمراہ تھے، ہم نے راولاکوٹ، ہاڑی گہل، تھب، ارجہ، جگلڑی، ملوٹ، دھیرکوٹ، جھالہ، باغ، مظفر آباد ، گڑھی حبیب اللہ، بالا کوٹ اور مانسہرہ میں زلزلہ کی تباہ کاری کے مناظر دیکھے، متاثرین سے ملاقاتیں کیں، کچھ سامان اور نقدی ہمارے پاس تھی جو زیادہ مستحقین میں تقسیم کی، امدادی گروپوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا، جاں بحق ہونے والے متعدد حضرات کے ورثاء سے تعزیت کی اور متاثرین کی دوبارہ آباد کاری کی ضروریات پر مختلف حضرات سے تبادلہ خیالات کیا۔
پاکستان کے عوام اور مخیر حضرات نے جس ایثار اور ہمدردی کے ساتھ زلزلہ سے متاثر ہونے والے بھائیوں کی مدد کی اور جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے وہ بہت حوصلہ افزا اور خوش آئند ہے، اور بیرونی دنیا جس طرح امدادی کاموں کی طرف متوجہ ہو رہی ہے وہ بھی قابل اطمینان ہے۔ البتہ دو باتوں کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس ہوتی ہے:
- ایک یہ کہ مختلف دینی ادارے جو مسلسل امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں وہ اگر اپنی سرگرمیوں میں باہمی ربط و مشاورت کا کوئی نظام قائم کر لیں تو وہ زیادہ بہتر طور پر اپنے کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور بدنظمی سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
- دوسری بات یہ ہے کہ زلزلہ میں دینی مدارس اور مساجد کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، ان میں سے بعض تو بالکل زمین بوس ہوگئے ہیں، بعض کی عمارتیں بظاہر کھڑی ہیں لیکن استعمال کے قابل نہیں رہیں اور بعض کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سابق ضلع قاضی حضرت مولانا قاضی بشیر احمد صاحب نے ضلع باغ کے ایسے مدارس اور مساجد کی ابتدائی فہرست مرتب کی ہے جس کے مطابق صرف اس ضلع میں زلزلہ سے تباہی کا شکار ہونے والے مدارس اور مساجد کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔ امدادی سرگرمیوں کے حوالہ سے عالمی میڈیا اور بین الاقوامی اداروں کا رجحان صاف طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان کے منصوبوں میں مدارس اور مساجد کی بحالی کا پروگرام نہیں ہے بلکہ خود ہمارے ملک کی مقتدر ترین شخصیت نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بیرونی اداروں کو متاثرہ علاقوں میں اسکول اور کالج جلدی سے قائم کرنے چاہئیں ورنہ مذہبی لوگ مدرسے تعمیر کرنا شروع کر دیں گے، اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مساجد و مدارس کی بحالی اور دوبارہ تعمیر کے لیے عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ خود اپنے ملک کی حکومت سے کسی تعاون کی توقع رکھنا بھی عبث ہوگا۔
اس پس منظر میں دینی جذبہ اور ذوق رکھنے والے اصحاب خیر کا اس طرف متوجہ ہونا زیادہ ضروری ہوگیا ہے اور اس پہلو سے اہل دین کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے- اس سلسلہ میں اگرچہ ’’الرشید ٹرسٹ ‘‘اور ’’وفاق المدارس العربیہ ‘‘ نے ایک مربوط پروگرام کا اعلان کیا ہے لیکن ضروریات کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ،اس لیے اصحاب خیر سے گزارش ہے کہ وہ مذکورہ بالا دو معتمد اداروں کے ذریعے یا خود اپنے طور پر زلزلہ سے متاثر ہونے والی مساجد اور مدارس کی تعمیر نو کی طرف خصوصی توجہ دیں تاکہ ان میں نماز اور تعلیم وغیرہ کے معمولات جلد سے جلد بحال ہو سکیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں زلزلہ کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کے اصحاب خیر کی توجہات کا رُخ اپنی طرف کر لیا تھا اور چونکہ ملک بھر کے اصحاب خیر رمضان المبارک میں زیادہ تر دینی مدارس سے تعاون کرتے ہیں جس سے مدارس کا سالانہ بجٹ تشکیل پاتا ہے اس لیے اس سال بہت سے دینی مدارس کا بجٹ متاثر ہوا ہے اور اگر ان کی طرف خصوصی توجہ نہ دی گئی تو متعدد مدارس کے لیے اپنی معمول کی تعلیمی سرگرمیوں کو پورا سال جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا- لہٰذا اصحاب خیر کو اس سال دوہری ذمہ داری کے احساس کے ساتھ توجہ دینا ہوگی تاکہ زلزلہ سے متاثر ہونے والے خاندانوں اور افراد کے ساتھ ساتھ متاثرہ مساجد و مدارس کی بحالی اور ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے دینی مدارس اور اداروں کے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے کی صورت بھی قائم رہے۔ امید ہے کہ اصحاب خیر ان دونوں امور پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے پہلے سے زیادہ ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کریں گے اور بارگاہ ایزدی میں بے پایاں اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، آمین یا رب العالمین۔