برطانیہ میں دینی تعلیم کا بڑھتا ہوا رجحان

   
جولائی ۲۰۰۶ء

گزشتہ ماہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران مجھے دو ہفتے کے لیے برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا، کم و بیش ہر سال ان دنوں برطانیہ جاتا ہوں اور متعدد دینی مراکز اور تعلیمی مدارس کے پروگراموں میں شرکت ہوتی ہے، اس سال ابراہیم کمیونٹی کالج لندن، جامعۃ الہدیٰ شیفیلڈ، مدرسہ قاسم العلوم برمنگھم، مدینہ مسجد آکسفورڈ اور ابوبکر اسلامک سنٹر ساؤتھ آل لندن کے پروگراموں میں شرکت کے علاوہ بریڈ فورڈ، نوٹنگھم، برنلی، کراؤلی، رچڑیل اور ویکفیلڈ میں مختلف دینی اجتماعات میں حاضری ہوئی اور ورلڈ اسلامک فورم کی سالانہ فکری نشست میں بھی حاضری کا موقع ملا۔

برطانیہ میں دینی تعلیم کے لیے طلبہ اور طالبات کے باقاعدہ مدارس کا سلسلہ جس طرح فروغ پا رہا ہے اور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ درس نظامی کی تعلیم کا رجحان جس طرح روز افزوں ہے اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ اگرچہ مشکلات اور رکاوٹوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان سے تعلیمی سلسلہ کا دائرہ سکڑنے کی بجائے مزید پھیل رہا ہے اور کام کا حوصلہ بڑھ رہا ہے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے متعدد فضلاء سے ملاقاتیں ہوئیں جو مختلف مقامات میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں اور اس سال اس سلسلہ میں ایک مزید پیشرفت یہ دیکھنے میں آئی کہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے تعلیم یافتہ مولانا عزیز الحق ہزاروی آف اچھڑیاں نے جو رشتے میں ہمارے بھانجے لگتے ہیں، مانچسٹر کے قریب برنلی نامی شہر میں ایک بڑا چرچ خرید کر ’’کوئینز گیٹ اسلامک سنٹر‘‘ کے نام سے تعلیمی مرکز کا آغاز کر دیا ہے۔ برمنگھم کے قریب والسال میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے ایک اور فاضل مولانا محمد لقمان (آف میرپور آزاد کشمیر) ایک معیاری دینی ادارہ چلا رہے ہیں، میں ہر سال وہاں حاضر ہوتا ہوں لیکن اس سال وقت کی قلت کے باعث ان کے پاس نہ جا سکا۔

برطانیہ کی علمی شخصیات حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مفتی برکت اللہ اور مولانا محمد اکرم ندوی کے علاوہ بھارت سے تشریف لانے والے مولانا سید سلمان الحسینی الندوی استاذ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنو، بنگلہ دیش سے تشریف لانے والے وہاں کے رکن قومی اسمبلی مولانا فضل حق امینی، اور دار الارشاد میرپور ڈھاکہ کے مہتمم مولانا سید سلمان ندوی سے ملاقاتیں ہوئی اور مختلف دینی و علمی موضوعات پر ان سے گفتگو ہوئی۔

بہرحال مختلف حوالوں سے یہ سفر معلومات میں اضافہ اور برطانوی مسلمانوں کی دینی و سماجی سرگرمیوں سے مزید آگاہی کا ذریعہ بنا۔ برطانیہ کی ان دینی و تعلیمی سرگرمیوں کو پورے مغرب کے لیے راہنما کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور مغرب کے دیگر ممالک کے مسلمان ان تجربات سے استفادہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ دیار مغرب میں بیٹھ کر دینی و تعلیمی خدمات سرانجام دینے والے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی ان خدمات کو قبول فرمائیں اور نہ صرف مغرب بلکہ پوری دنیا کے لیے راہنمائی اور استفادہ کا باعث بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter