روزنامہ امت کراچی ۵ نومبر ۲۰۰۸ء کی خبر کے مطابق لاہور میں امریکی قونصلیٹ کے پرنسپل آفیسر جناب برائن ڈرہنٹ نے رحیم یار خان میں مسلم لیگی راہنما چوہدری جعفر اقبال سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ بھارت کی نسبت پاکستان کو عوامی فلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے منصوبوں کے لیے کئی گنا زیادہ امداد دیتی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستانی امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستانی عوام کی تعمیر و ترقی اور فلاحی منصوبوں کے لیے ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کی امداد دیتا ہے جبکہ بھارت کو اس مد میں صرف دس ملین ڈالر دیے جاتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی امریکہ کی بعض مقتدر شخصیات کا یہ شکوہ مختلف مواقع پر سامنے آچکا ہے کہ ہم پاکستانیوں پر اتنی رقم خرچ کرتے ہیں اس کے باوجود پاکستانی عوام ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جب سے یورپ اور امریکہ نے آسمانی تعلیمات اور مذہبی اخلاقیات سے انحراف کر کے مادہ پرستی کو اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے انہیں ہر معاملہ کو روپے پیسے کے پیمانے میں تولنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اور تاجرانہ ماحول کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اگر اس ماحول کے کسی بیمار شخص سے بیمار پرسی کے طور پر اس کا حال پوچھا جائے تو وہ جواب اسی زبان میں دیتا ہے کہ ’’بیس پیسے فرق ہے یا تیس پیسے بیماری باقی رہ گئی ہے‘‘۔ اسی لیے مغرب کی خالص مادہ پرستی اور تاجرانہ ذہنیت کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ اتنی رقوم خرچ کرنے کے باوجود عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان میں انہیں پذیرائی کیوں حاصل نہیں ہو رہی اور عوام ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں، ورنہ اگر تاجرانہ اور مفاد پرستانہ ذہن سے ہٹ کر امریکی راہنما معروضی حالات اور زمینی حقائق کے حوالہ سے سمجھنا چاہیں تو یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ امریکی راہنماؤں کو یہ زمینی حقیقت باور کر لینی چاہیے کہ:
- پاکستانی عوام صرف ڈالر اور پاؤنڈ کے طلبگار نہیں ہیں بلکہ وہ ایک عقیدہ رکھتے ہیں اور ایک زندہ مذہب کے پیروکار ہیں،
- وہ خود کو ایک آزاد اور خود مختار وطن کے باشندے سمجھتے ہیں اور آزادی اور خود مختاری کے تقاضوں سے با خبر بھی ہیں،
- وہ اپنے عقیدہ اور ثقافت کے حوالہ سے دنیا بھر میں ایک وسیع برادری رکھتے ہیں اور اس کی خوشی اور غمی میں شریک بھی ہوتے ہیں،
- وہ قومی وقار اور عزت نفس کا ادراک رکھتے ہیں اور اس کے مجروح ہونے پر انہیں ذہنی اذیت اور دلی دکھ ہوتا ہے۔
اس لیے جب وہ کھلی آنکھوں سے یہ دیکھتے ہیں کہ:
- ان کے عقیدہ و دین کو مغرب کی طرف سے طعن و تشنیع اور تحقیر و استہزا کا مسلسل نشانہ بنا یا جا رہا ہے،
- دنیا بھر میں عقیدہ و دین کی بات کرنے والے مسلمانوں کو آزادی بلکہ زندگی کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے،
- پاکستان کی سالمیت، وحدت، قومی خودمختاری اور اس کی سرحدات کا تقدس امریکی اور مغربی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے،
- امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی کر کے عربوں اور فلسطینیوں کے جائز اور مسلم حقوق پامال کر رہے ہیں اور بیت المقدس پر یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،
- عراق اور افغانستان میں امریکی اتحادیوں کی لشکر کشی نے لاکھوں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرکے چنگیز خان کی یاد تازہ کر دی ہے،
- جبکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی اتحادیوں کے مسلح حملوں نے تمام بین الاقوامی اصولوں اور اخلاقیات کو پامال کر دیا ہے۔
تو انہیں امریکہ بہادر کی طرف سے مسلمان حکومتوں کو دیے جانے والے یہ چند سکے اپنے عقیدہ، آزادی، خودمختاری اور عزت نفس کی قیمت دکھائی دیتے ہیں، جس سے ان کی نفرت میں کمی ہونے کی بجائے مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔ امریکی راہنماؤں کو یہ بات بہت پہلے اس وقت سمجھ لینی چاہیے تھی کہ پاکستان کے ایک سابق صدر فیلڈ مارشل صدر ایوب خان مرحوم نے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ (آقا نہیں دوست) کے نام سے اپنی سوانح عمری اور یادداشتیں قلمبند کر کے امریکہ کو پاکستانی عوام کی طرف سے یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ پاکستانی عوام امریکہ کو ایک دوست کے طور پر قبول کر سکتے ہیں لیکن اسے آقا کا درجہ دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ مگر امریکی حکمران اس واضح حقیقت سے مسلسل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور پاکستانی عوام کو ڈالر ( اور اب میزائل حملوں) کے ذریعے سے دوست بنانے کے چکر میں ہیں، اس لیے انہیں اب بھی امریکہ سے پاکستانی عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی۔ اس صورتحال میں امریکی راہنماؤں کو کسی ماہر نفسیاتی معالج سے اپنا معائنہ کرانے کے سوا اور کیا مشورہ دیا جا سکتا ہے؟