طالبان کا وجود اور ان کے ساتھ مذاکرات

   
نومبر ۲۰۱۰ء

روزنامہ جنگ راولپنڈی میں ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لیتا تو اسے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ہوسٹن کی ایشیا سوسائٹی ٹیکس سنٹر میں خطاب کے دوران سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ عالمی برادری کو طالبان کے حوالے سے حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لینا چاہیے۔ پرویز مشرف نے کہا ان پر ڈبل گیم کا الزام لگتا رہا ہے حالانکہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حامی تھے، انہوں نے کہا کہ دنیا نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا جبکہ پاکستان کو انہیں تسلیم کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں طالبان کو تسلیم کر کے ان میں تبدیلی لانی چاہیے، انہوں نے کہا کہ وہ پہلے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے لیکن آج طالبان سے مذاکرات کے لیے اٹھایا جانے والا قدم کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں افغانستان اور طالبان کے حوالہ سے جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے اور انہوں نے طالبان کے وجود اور ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد ’’یو ٹرن‘‘ لے کر امریکی عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان کو جس طرح تختۂ مشق بنایا اس کے تلخ اثرات پوری قوم بھگت رہی ہے اور خدا جانے کب تک اسے یہ تلخ نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود جنرل (ر) مشرف نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں کیے جانے والے اپنے اس خطاب میں جس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کی فوری اور سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے۔

ہم شروع سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ افغان قوم اور ان کی دینی و قومی روایات کا پرچم اٹھانے والے طالبان کو طاقت کے زور سے ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ لشکر کشی اور طاقت کا وحشیانہ استعمال افراد اور گروہوں کے خلاف تو کامیاب ہو جایا کرتا ہے مگر قوموں کے خلاف کوئی لشکر کشی کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ طالبان صرف ایک گروہ نہیں بلکہ افغان قوم کے دینی و قومی جذبہ حریت کی علامت ہیں اور وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ افغان قوم آج بھی طالبان کی پشت پر ہے۔ اس لیے عالمی قوتوں کو چاہیے کہ وہ طالبان کے وجود کو تسلیم کریں اور افغانستان کی قومی خودمختاری کے ساتھ ساتھ افغان قوم کے اسلامی تشخص اور روایات و اقدار کا احترام کرتے ہوئے کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے بغیر انہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے دیں کہ اس مسئلہ کا اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter