صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں علمائے کرام اور مشائخ عظام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بہت سی فکر انگیز باتیں کی ہیں جن پر ہر پاکستانی کو غور کرنا چاہیے، کیونکہ صدر محترم کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ان کی بہت سے آرا سے ہمیں بھی اختلاف ہے، لیکن اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جن امور کی انہوں نے نشاندہی کی ہے اور جن مسائل کا پاکستان کے حوالے سے انہوں نے اپنے خطاب میں تذکرہ کیا ہے، وہ اس وقت ہمارے لیے چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں ہر باشعور شہری فکرمند اور پریشان ہے۔
جو علمائے کرام اور مشائخ عظام اس اجتماع میں شریک ہوئے، ان کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قوم کے کسی حصے کی نمائندگی نہیں کرتے، کیونکہ وہ سب محترم بزرگ ہیں اور اپنا اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں، لیکن اس اجتماع میں شرکت کے لیے علمائے کرام اور مشائخ عظام کا جس طریقے سے انتخاب کیا گیا ہے، وہ روایتی طور پر وہی تھا جس کی طرف گزشتہ روز ہمیں ایک ذمہ دار صحافی دوست نے توجہ دلائی۔ ایک ضلع میں اسلام آباد کے مذکورہ کنونشن کے لیے علماء کا انتخاب ہو رہا تھا اور ضلعی انتظامیہ کی تیار کردہ فہرست کو ’’آخری شکل‘‘ دی جا رہی تھی تو بعض نام اس خدشے کی بنیاد پر کاٹ دیے گئے کہ یہ شاید وہاں کسی بات پر بول پڑیں، اس لیے ان کا وہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فہرست اچھی طرح چھان بین کر مرتب کی گئی تھی کہ صرف وہی حضرات اس اجتماع میں شریک ہوں جو خاموشی کے ساتھ خطاب سنیں اور پھر کوئی تبصرہ کیے بغیر وہاں سے واپس آجائیں۔ اس سے ہمیں وہ تاریخی واقعہ یاد آگیا کہ حضرت عمر بن العزیزؒ جب خلیفہ بنے تو حضرت حسن بصریؒ کو خط لکھا کہ وہ انہیں ایسے چند علمائے کرام کے نام دیں جن کو وہ اپنے قریب بلا سکیں اور بوقت ضرورت ان سے مشورہ لیتے رہیں۔ حضرت حسن بصریؒ نے جواب میں لکھا کہ ’’جو علماء ہیں وہ تمہارے پاس آئیں گے نہیں، اور جو تمہارے پاس آجائیں گے ان کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لیے میں کوئی نام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘‘
اس کنونشن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ قومی پالیسیوں پر علمائے کرام کو اعتماد میں لینے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن اعتماد میں لینے کا یہ طریقہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ صرف ایسے لوگوں کو بلایا جائے کہ جو خاموشی کے ساتھ خطاب سنیں اور پھر کوئی بحث و مباحثہ اور سوال و جواب کیے بغیر اسی خاموشی کے ساتھ واپس گھروں کو سدھار جائیں۔ حالانکہ کسی کو اعتماد لینے کا جو عمومی مفہوم ہے، وہ یہ ہے کہ جن کو کسی مسئلے میں اعتماد میں لینا مقصود ہے، انہیں اپنے موقف اور پروگرام سے آگاہ کیا جائے اور پھر ان سے رائے بھی طلب کی جائے اور ان کی تجاویز و آرا کو موقف اور پروگرام کا حصہ بنایا جائے۔ لیکن یہاں تو چھان پھٹک کر بلایا ہی صرف ایسے بزرگوں کو گیا تھا جن سے کسی مسئلے پر بول پڑنے کا کوئی خدشہ نہ ہو، اس لیے ہمیں اس کنونشن کی اس کے علاوہ اور کوئی افادیت نظر نہیں آئی کہ روایتی انداز میں دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ صدر محترم کی پالیسیوں کو علماء و مشائخ کی حمایت حاصل ہے اور وہ اسلام کی جو تعبیر و تشریح کر رہے ہیں، اس میں علماء و مشائخ کا ایک حلقہ بھی ان کے ساتھ ہے۔ اب تو جارج واکر بش کی طرف سے اس سرٹیفکیٹ کے اجرا کے بعد اس تکلف کی ضرورت بھی باقی ہی نہیں رہی جس میں صدر بش نے کہا ہے کہ پاکستان اب اسلام کی صحیح تعبیر و تشریح کی طرف آ رہا ہے۔
صدر پرویز مشرف کے مذکورہ خطاب کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کی ضرورت ہے اور ان پر قومی حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے، مگر ان میں سے ایک اہم پہلو پر کچھ عرض کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا کہ حاکم وقت اور کمانڈر کی ہر حالت میں اطاعت اسلامی نقطۂ نظر سے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے اس تاریخی کردار کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے عین حالت جنگ میں کمانڈر کے منصب سے معزولی کے حکم پر سر تسلیم خم کر کے لشکر کی کمان حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے سپرد کر دی تھی اور پھر انہی کی کمان میں ایک سپاہی کے طور پر جنگ میں حصہ لیا تھا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کا یہ عمل ڈسپلن کی پابندی کے حوالے سے ایک تاریخی اور مثالی کردار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ان کی عظمت کردار کی علامت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت کبھی قابل عمل نہیں رہی اور ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ اگر کسی سینئر کو نظرانداز کر کے اس کی جگہ جونیئر فوجی افسر کو کمانڈر بنا دیا جائے تو سینئر افسر اس کی کمان میں کام کرنے کی بجائے اختیاری ریٹائرمنٹ لے کر گھر چلا جاتا ہے، جس کا مظاہرہ ہماری فوجی کمان میں کئی بار ہو چکا ہے، مگر اس سے قطع نظر ہم ایک اور پہلو سے اس مسئلے کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ کیا حضرت خالد بن ولیدؓ کے اس عمل سے یہ استدلال کرنا درست ہے کہ حاکم اور کمانڈر کی ہر حالت میں اطاعت ضروری ہے اور وہ جو حکم بھی دے، اس سے کسی صورت میں بھی اختلاف یا حکم عدولی کی گنجائش نہیں ہے؟ س سلسلہ میں ہم عہد نبویؐ کے دو واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جنہیں امام بخاریؒ نے ’’صحیح بخاری‘‘ میں روایت کیا ہے۔
- ایک واقعہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کی قیادت میں ایک لشکر جہاد کے لیے روانہ کیا اور تلقین کی کہ امیر لشکر کی ہر حالت میں اطاعت کی جائے۔ دوران سفر کسی مقام پر امیر لشکر کسی بات پر غصے میں آگئے اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کرکے لائیں۔ لشکر کے سپاہیوں نے لکڑیوں کا ایک ڈھیر جمع کر لیا۔ امیر صاحب نے حکم دیا کہ اس ڈھیر کو آگ لگائی جائے، جو لگا دی گئی اور جب آگ اچھی طرح بھڑک اٹھی تو کمانڈر نے حکم دیا کہ سارا لشکر اس آگ میں کود جائے۔ سپاہی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اس پر کمانڈر نے یاد دلایا کہ تمہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کی تھی کہ امیر کی ہر حالت میں اطاعت کی جائے، اس لیے میرا حکم مانو اور آگ میں چھلانگ لگا دو۔ لشکر نے امیر کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس آگ سے بچنے کے لیے تو ہم نے جناب نبی اکرمؐ کا کلمہ پڑھا ہے، اس لیے ہم آگ میں نہیں کو دیں گے۔ تھوڑی دیر بعد امیر لشکر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بھی سرد پڑ گئی۔
مدینہ منورہ واپسی پر یہ مقدمہ جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں پیش ہوا تو بخاری شریف کی روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ اگر امیر کا حکم مان کر آگ میں چھلانگ لگا دیتے تو قیامت تک آگ میں ہی رہتے۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ امیر کی اطاعت ’’معروف‘‘ باتوں میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر کسی غلط بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔
- دوسرا واقعہ بھی امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے جو حضرت خالد بن ولیدؒ کے بارے میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو ایک لشکر کا کمانڈر بنا کر کفار کے ایک قبیلے کے ساتھ جنگ کے لیے بھیجا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حکم کے مطابق اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دی، انہوں نے جواب میں ایسا جملہ کہا جس سے یہ مطلب نکلتا تھا کہ ہم اپنے دین سے دستبردار ہوگئے ہیں، لیکن کلمہ طیبہ نہ پڑھ سکے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شاید وہ کلمہ طیبہ کے الفاظ صحیح طور پر نہیں جانتے تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کے اس اعلان کو قبول کرنے کی بجائے ان پر حملہ کر دیا اور شکست دے دی۔ جنگ میں ان میں سے کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ قیدی ہوئے جنہیں حضرت خالد بن ولیدؓ نے لشکریوں میں تقسیم فرما دیا۔ راستے میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے قیدی کو قتل کر دیں۔ لشکر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی موجود تھے۔ انہیں یہ اشکال تھا کہ جب اسلام کی دعوت کے جواب میں اس قبیلے کے افراد نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم اپنے مذہب سے دستبردار ہوگئے ہیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کی بات قبول کرنے کی بجائے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی، اس لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے امیر لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور ہم میں سے کوئی بھی اپنے قیدی کو قتل نہیں کرے گا، بلکہ ہم یہ مقدمہ جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں پیش کریں گے اور ان کے حکم پر عمل کریں گے۔
مدینہ منورہ پہنچ کر یہ معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، نبی کریمؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلوا کر جواب طلبی کی اور جب واضح ہوگیا کہ واقعہ اس طرح ہوا ہے جس طرح بیان کیا گیا تو یہ کہہ کر حضرت خالد بن ولیدؓ کے اس عمل سے جناب نبی اکرمؐ نے لاتعلقی اعلان فرمایا کہ ’’اے اللہ! خالد نے جو کیا، میں اس سے بری ہوں۔‘‘
یہ دونوں واقعات دور نبویؐ کے ہیں اور بخاری شریف میں ہیں، جن میں جناب نبی اکرمؐ نے امیر کے غلط حکم کو انکار کرنے والوں کو سزا دینے یا تنبیہ کرنے کی بجائے غلط حکم دینے والے امیروں کو ڈانٹا، ان کے عمل سے براءت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ امیر کی اطاعت ضروری ہے، لیکن معروف باتوں میں۔ اگر وہ کوئی غلط حکم دے، جس کا غلط ہونا شرعی نقطہ سے واضح ہو تو اس کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ’’ڈسپلن‘‘ کی نفی کر رہے ہیں۔ جہاں نظم و نسق کا معاملہ ہو اور ڈسپلن کا تقاضا ہو، وہاں امیر اور کمانڈر کی اطاعت واجب ہے، حتٰی کہ ڈسپلن اور نظم و نسق کے معاملات میں فقہائے کرام نے امیر کے غلط حکم کی اطاعت کو بھی واجب اور ضروری قرار دیا ہے، لیکن جہاں شریعت کے کسی واضح حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور اس حکم پر عمل کرنے والا شرعاً گنہگار ٹھہرتا ہو، وہاں اطاعت ضروری نہیں بلکہ حاکم کو اس غلطی پر خبردار کرنا ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی موجود ہے کہ ’’لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘ خالق کی نافرمانی میں مخلوق میں سے کسی کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔