جامعہ حفصہ کی طالبات کی جدوجہد ۔ چند سوالات

   
۸ اپریل ۲۰۰۷ء

جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات کے مطالبات اور جدوجہد کے حوالے سے معاملات جس رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں اس سے کئی سنجیدہ سوالات نے جنم لیا ہے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات اسلام آباد میں ایک مسجد کے گرائے جانے اور متعدد دیگر مساجد کو غیر قانونی قرار دے کر ان کے گرانے کا نوٹس جاری ہونے پر بطور احتجاج شروع ہوئی تھی جس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے ایک سرکاری لائبریری پر احتجاجاً قبضہ کر لیا تھا۔ طالبات اور ان کے سرپرست مولانا عبد العزیز اور مولانا غازی عبد الرشید کا، جو مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے سابق خطیب حضرت مولانا محمد عبداللہ شہیدؒ کے فرزند و جانشین ہیں، مطالبہ یہ تھا کہ گرائی جانے والی مسجد یا مساجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور دیگر مساجد کو گرانے کا نوٹس واپس لیا جائے۔ جامعہ حفصہ مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے ساتھ ملحق ہے اور اس میں ہزاروں طالبات نہ صرف دینی تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ مستقل طور پر ہاسٹل میں قیام پذیر ہیں اور اس سے قبل ایک موقع پر اسلام آباد پولیس کے ساتھ کھلے روڈ پر ان طالبات کی محاذ آرائی ہو چکی ہے جس میں پولیس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اس لیے طالبات کے اس احتجاج نے اوپر کی سطح تک ہلچل پیدا کر دی اور اعلیٰ حلقوں میں یہ سوچا گیا کہ طالبات کے خلاف قوت استعمال کرنے اور سختی کا ماحول قائم کرنے کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے اور مذاکرات کے ذریعے سے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

جہاں تک مساجد کے گرائے جانے کا تعلق ہے، اس پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان اور دیگر اکابر کی مساعی سے یہ حل نکل آیا کہ وفاقی حکومت نے گرائی جانے والی مسجد کی دوبارہ تعمیر کا اعلان کر کے وفاقی وزیر مذہبی امور کے ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھوا دیا اور دیگر مساجد کے بارے میں اسلام آباد کے سرکردہ علمائے کرام کے ساتھ ایک مشترکہ کمیٹی قائم کر کے ان کے بارے میں فیصلہ اس کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ لیکن طالبات اور ان کے سرپرستوں نے اس کو قبول کرنے کے بجائے ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ دیگر بعض اور مطالبات بھی شامل کر کے اعلان کر دیا کہ جب تک یہ سارے مطالبات منظور نہیں ہو جاتے ان کا احتجاج جاری رہے گا، حالانکہ ان کی مدد کے لیے اسلام آباد آنے والے اکابر علمائے کرام مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا حسن جان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر حضرات نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ لائبریری کا قبضہ چھوڑ کر تصادم کا ماحول ختم کر دیں اور ان مطالبات کو، جو جائز مطالبات ہیں، حکومت سے منوانے کے لیے پر اَمن جدوجہد کا کوئی اور راستہ تلاش کیا جائے۔

راقم الحروف نے بھی اس موقع پر مختلف احباب کے استفسار پر عرض کیا کہ ہم طالبات کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے معروف اور پر اَمن ذرائع اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں حکومت کے خلاف اس سطح کی محاذ آرائی کو شرعاً اور اخلاقاً درست نہیں سمجھتے، جسے سیاسی زبان میں بغاوت یا شرعی اصطلاح میں خروج سے تعبیر کیا جا سکے، کیونکہ اس خروج کے لیے فقہائے کرام نے جو شرائط اور طریق کار بیان کیا ہے، وہ موجود نہیں ہے اور اس کے بغیر قانون کو ہاتھ میں لینے اور تصادم کی طرز کی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ مگر جامعہ حفصہ کی طالبات اور ان کے سرپرستوں نے ان گزارشات پر توجہ دینے کے بجائے محاذ آرائی کا تسلسل قائم رکھنے کو ترجیح دی ہے اور تادم تحریر صورتحال یہ ہے کہ سرکاری لائبریری پر طالبات کا قبضہ برقرار ہے، ہزاروں طالبات ڈنڈوں سے مسلح ہو کر نہ صرف جامعہ کے اندر موجود ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً سڑکوں پر بھی آ رہی ہیں اور متعدد مواقع پر سرکاری فورسز کے ساتھ تصادم کی نوبت آچکی ہے۔ اس دوران میں ایک واقعہ یہ ہوا ہے کہ طالبات نے مبینہ طور پر فحاشی کے ایک اڈے سے چند خواتین کو پکڑا اور اپنے ساتھ لے گئیں جس سے ان کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں سمجھا بجھا کر بدکاری کے عمل سے روکا جائے۔ بعد میں ان خواتین کو اگرچہ چھوڑ دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا معاشرہ میں فحاشی یا دیگر منکرات کو روکنے کے لیے اس قسم کی کارروائی کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

جہاں تک سوسائٹی میں معروفات کے فروغ اور منکرات کے سدِباب کے لیے، جن میں بدکاری اور فحاشی سرفہرست ہیں، عوامی دباؤ یا جدوجہد کا تعلق ہے، یہ ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے اور قرآن و سنت میں سینکڑوں مقامات پر نہ صرف اس کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ اس سے گریز کو دینی تقاضوں سے انحراف قرار دیا گیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے اور سوسائٹی کے ہر فرد کی انفرادی ذمہ داریوں میں بھی ایک اہم دینی ذمہ داری شمار ہوتی ہے، حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جس معاشرہ میں نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے کی عمومی روایت ختم ہوجائے وہ معاشرہ خدا کے عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی پوری سوسائٹی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس لیے جہاں تک اصولی طور پر لوگوں کو برائی سے روکنے کا تعلق ہے اس کی اہمیت و ضرورت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس ماحول میں جبکہ ریاست اور حکومت کے کم و بیش تمام ذرائع منکرات کے فروغ کے لیے بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں اور سرکاری سطح پر معروفات کی حوصلہ شکنی اور منکرات کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا ماحول بنتا جا رہا ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل میں احتجاج اور شدت کا عنصر شامل ہونے کو بھی بے جواز نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس سب کے باوجود حکومت وقت کے ساتھ تصادم اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا جواز موجود نہیں ہے اور اس پہلو سے بہرحال بچنے کی ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ طالبات کا یہ غصہ بے جواز نہیں ہے اور یہ ردعمل ہے حکومتی اداروں کی طرف سے اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ سے مسلسل گریز اور منکرات و فواحش کی سرپرستی کا، جس پر غصہ آنا ایمان کی علامت ہے، اس لیے:

  • جہاں ہم اپنی عزیز بچیوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ تصادم کے راستے سے بچیں اور اپنے بزرگوں کا مشورہ تسلیم کرتے ہوئے اپنی اس جائز جدوجہد کے مستقبل کے معاملات ان کے سپرد کر دیں کہ اس میں خیر کا پہلو یہی ہے،
  • وہاں حکومتی حلقوں سے یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کریں کہ یہ سب کچھ ان کی غلط پالیسیوں، اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ سے ان کے مسلسل انحراف اور منکرات و فواحش کی ان کی طرف سے حوصلہ افزائی کا فطری ردعمل ہے جسے ختم کیے بغیر وہ اس کے رد عمل پر قابو پانے کی کسی کوشش میں بہرحال کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
   
2016ء سے
Flag Counter