کرونا وائرس کے اثرات اور چند احساسات

   
۲۱ مارچ ۲۰۲۰ء

کرونا وائرس پھیلتا جا رہا ہے اور اس کے اثرات ہر طرف ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اس سے قبل اس سلسلہ میں کچھ تاثرات کا اظہار گزشتہ کالم میں کر چکا ہوں، آج کچھ مزید احساسات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ایک بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں بتا رہے ہیں کہ کائنات میں صرف وہ کچھ نہیں جو تم دیکھ رہے ہو اور محسوس کر رہے ہو بلکہ اس کے علاوہ بلکہ اس سے کہیں زیادہ وہ کچھ بھی تمہارے اردگرد موجود و متحرک ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا اور محسوس نہیں ہوتا۔ دنیائے غیب کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو اپنا کام کر رہا ہے اور تم اس کے درمیان میں رہتے ہوئے بھی اس کو محسوس نہیں کر پاتے، البتہ اس کا کوئی حصہ اپنا کام کر گزرتا ہے تو تمہیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ماحول میں یہ بھی موجود ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں ’’یومنون بالغیب‘‘ فرما کر اسی طرف ارشاد کیا ہے مگر کیا کوئی سمجھنے کے لیے تیار ہے؟

پوری دنیا میں آج بھی دونوں ذہن پائے جاتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ خودکار ہے اس کے پیچھے کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں ہے، اس لیے ہم اس سے نمٹنے یا اس کے ساتھ گزارہ کرنے کے لیے خود ہی طریق کار طے کریں گے اور ہمیں کہیں اور سے راہنمائی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس کائنات کے نظر آنے والے یا نظر نہ آنے والے ہر نظام اور نیٹ ورک کے پیچھے ایک بالاتر قوت موجود ہے جس کی منشا سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اس لیے ہمیں اسباب کے ساتھ ساتھ اسباب کو کنٹرول کرنے والی قوت کی طرف بھی متوجہ ہونا ہے اور اس کی رضامندی کے حصول کے ذرائع اختیار کرنے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی حالیہ مثال یہ ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں چین کے بعد اٹلی کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں اب تک تین ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور کم و بیش مکمل لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے، مگر پاپائے روم پوپ فرانسس اس سب کچھ کے باوجود مختلف چرچوں میں گئے ہیں اور وہاں دعا کا اہتمام کیا ہے۔

ہمارے ہاں بھی دونوں ذہن پائے جاتے ہیں، ایسے حضرات کی کمی نہیں ہے جو اس فکر میں ہیں کہ لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی جائے حتٰی کہ مذہبی اجتماعات اور عبادات کے اجتماعی نظام کو بھی محدود تر کر دیا جائے، جبکہ یہ ذہن رکھنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہبی اجتماعات پر کسی قسم کی حد بندی نہیں ہونی چاہیے، البتہ توازن و اعتدال کا راستہ دکھانے والے بھی غافل نہیں ہیں اور اپنا فریضہ سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ بعض شہروں میں مساجد کو بند کرنے اور نمازوں کے اجتماعات پر پابندی کی کچھ خبریں منظر عام پر آئیں تو دینی حلقوں میں تشویش پیدا ہونا فطری بات تھی۔ چنانچہ ردعمل میں ادھر سے بھی بعض اطراف سے سخت باتیں سامنے آئیں، اس پر تشویش ہوئی اور ہم کچھ دوستوں نے مشورہ کیا کہ مساجد کی بندش اور نماز کے اجتماعات پر پابندی تو بہرحال کسی صورت قابل قبول نہیں ہے مگر احتیاط کی تدابیر سے مکمل صرف نظر کر دینا بھی عقل و دانش اور دین و شریعت کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم سے مشورہ کے بعد ہم نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے دورانیہ کو کم کرنے کا اعلان کر دیا کہ مختصر اردو بیان اور عربی خطبہ کے ساتھ نماز پڑھائی جائے گی اور دیگر احتیاطی تقاضوں کا بھی پوری طرح لحاظ رکھا جائے گا۔

ایک بات اور بھی محسوس ہوئی کہ ہم اس وبائی مرض اور آفت سے نمٹنے کے لیے بار بار جنگ اور مقابلہ کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں جس سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ واقعتاً کسی دشمن کی طرف سے ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے جس کا ہم نے ہر حال میں مقابلہ کرنا ہے اور اس جنگ کو جیت کر دکھانا ہے۔ یہ طرز کم از کم ہمیں اچھا نہیں لگ رہا، اس کی بجائے خدا خوفی، دعا، استغفار، عاجزی اور بارگاہ ایزدی میں نیاز مندی کے احساسات کو ابھارنے کی ضرورت ہے کہ اس ذات عالی کے سوا ہمارے پاس اس مصیبت اور ابتلا سے نکلنے کے لیے کوئی سہارا موجود نہیں ہے۔

ایک اور احساس بھی ان دنوں دل و دماغ کو کچوکے دے رہا ہے کہ بچاؤ کی تدابیر میں ہم قومی زندگی کے باقی شعبوں میں تو احتیاط کے ساتھ کام کو جاری رکھنے کی صورتیں اختیار کر رہے ہیں جبکہ تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور اس کے تعطل کے دورانیہ میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ پہلی بار تعلیمی نظام کے تعطل کے دائرے میں دینی مدارس کو بھی شامل ہونا پڑا ہے۔ اس سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں تعلیم ہی شاید سب سے کم اہمیت کا شعبہ ہے جس کے مکمل طور پر معطل ہونے اور معطل رہنے پر کسی تشویش کا اظہار دیکھنے میں نہیں آرہا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائیں اور اپنی محنت کا رخ صحیح سمت رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter