۲۴ ستمبر ۲۰۰۲ء کو قطر ایئرویز سے لندن پہنچا، ایئرپورٹ سے سیدھا مولانا عیسٰی منصوری کے ہاں حاضر ہونا پڑا کیونکہ انہوں نے سرکردہ علماء کرام کی ایک نشست کا شام کے کھانے پر اہتمام کر رکھا تھا۔ مولانا عیسٰی منصوری کا تعلق بھارت سے ہے، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے فاضل ہیں، ایک عرصہ تک تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروف عمل رہے ہیں۔ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ اور حضرت مولانا سعید احمد خانؒ جیسے بزرگوں کی صحبت و رفاقت میسر رہی ہے۔ کئی سال لندن کے تبلیغی مرکز کے امام رہے ہیں اور اب بھی تبلیغی جماعت کے بزرگوں کے ساتھ روابط و مشاورت کا گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ صاحب مطالعہ اور صاحب قلم و دانش بزرگ ہیں، ادراک و احساس کی دولت سے مالامال ہیں۔ درد دل سے بہرہ ور ہیں اور عالم اسلام کی مشکلات و مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں اور ارباب فکر و دانش کے ہاں سنجیدگی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔
کوئی دس برس قبل ہم دونوں نے مل کر ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے عنوان سے ایک علمی و فکری سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی جو میڈیا اور تعلیم کے میسر ذرائع سے علمائے کرام اور اہل دانش کو عالم اسلام کی مشکلات و مسائل اور جدید علمی و فکری چیلنج کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق مصروف کار ہے۔ مجالس، مذاکرہ، کتابچے، مقالات اور اخباری مضامین کی صورت میں اہم مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے، مشکلات و مسائل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، مسائل کے حل کے لیے تجاویز و آرا سامنے لائی جاتی ہیں اور متعلقہ ارباب علم و دانش تک نشاندہی اور ہلکی پھلکی بریفنگ کے انداز میں بات پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کام میں ہمارے ساتھ آکسفورڈ سے مولانا محمد اکرم ندوی، لندن سے مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری، مولانا عبد الحلیم لکھنوی، مولانا محمد مشفق الدین، حافظ حفظ الرحمان تاراپوری اور دیگر رفقاء شریک کار ہیں۔ جبکہ مشاورت اور راہنمائی کی سطح پر بھارت سے مولانا سید سلمان حسنی ندوی، پاکستان سے ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، جنوبی افریقہ سے پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی کا تعاون بھی ہمیں حاصل ہے۔ کچھ عرصہ میں اس کا چیئرمین رہا، اب اس کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری ہیں جبکہ سیکرٹری جنرل کے فرائض نوٹنگھم کے مولانا رضاء الحق سیاکھوی سرانجام دے رہے ہیں۔
ہر سال کچھ دنوں کے لیے لندن آتا ہوں تو حاضری کے بڑے مقاصد میں ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس بھی ہوتا ہے جس میں گزشتہ سال کی صورتحال اور کارکردگی پر ایک نظر ڈال کر اگلے سال کے لیے آپس میں کام کی تقسیم کر لی جاتی ہے۔ اس سال یہ سالانہ اجلاس ۲۷ اکتوبر کو ہو رہا ہے، جبکہ اس کے ساتھ ہی ۲۳ تا ۲۷ اکتوبر علماء کرام کے لیے روزانہ شام کی بریفنگ نشستوں کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں مجھے عالم اسلام کی موجودہ صورتحال اور اسلامی تحریکات کے حوالہ سے لیکچر کے انداز میں گزارشات پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چند ماہ قبل ندوۃ العلماء لکھنو سے مولانا سید سلمان حسنی ندوی کی تشریف آوری پر بھی اس نوعیت کی روزانہ پانچ نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں انہوں نے خطاب کیا اور علماء کرام کو ملت اسلامیہ کو درپیش جدید مسائل اور چیلنجز کی طرف توجہ دلائی۔ اس پروگرام کے بعد چند روز کے لیے امریکہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں جہاں سے امید ہے کہ رمضان المبارک کے پہلے یا دوسرے ہفتہ کے دوران گوجرانوالہ واپسی ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔
۲۸ ستمبر ۲۰۰۲ء کو لندن میں عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف عوامی مظاہرہ تھا۔ گزشتہ سال انہی دنوں میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف لندن میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا تھا جس میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا۔ مغربی ممالک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو عراق، فلسطین، کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں قائم عالمی اتحاد کے عزائم کو ان کے اصل پس منظر میں سمجھتے ہیں اور اسے سراسر ظلم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف آواز بھی بلند کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ برطانیہ میں عوامی سطح پر تین باتوں پر غصے کا سرعام اظہار ہو رہا ہے:
- ایک تو اسرائیل کی دہشت گردی اور امریکہ کی طرف سے اس کی مسلسل پشت پناہی کا منظر یہاں کے عوام کے ذہنوں میں دن بدن اجاگر ہوتا جا رہا ہے۔
- دوسرا وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ جنگ صرف اور صرف تیل کے چشموں پر قبضہ جمانے کے لیے ہے۔
- اور تیسرے نمبر پر افغان، کشمیری، عراقی اور فلسطینی عوام کی مظلومیت کا احساس بھی عالمی میڈیا کے یکطرفہ پروپیگنڈے کے باوجود اضافہ پذیر ہے۔
گزشتہ سال اس حوالے سے لندن اور گلاسگو میں ہونے والے عوامی مظاہروں میں شریک ہو کر میری اس رائے کو تقویت حاصل ہوئی کہ حالیہ عالمی کشمکش میں ہمیں مغربی ممالک و اقوام کو اقوام و ممالک کے طور پر اپنا حریف نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ جس طرح مسلم ممالک میں حکومتوں کے اہداف عوام کے جذبات سے مختلف ہیں، اسی طرح مغربی ممالک میں بھی حکومتوں اور بالادست قوتوں کے اہداف و عزائم کا عوام کے اہداف و احساسات سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ان دونوں میں فرق کو محسوس کرتے ہوئے ہمارے ارباب فکر و دانش مغرب کی رائے عامہ سے اس کی نفسیات اور ذہنی سطح کے مطابق براہ راست مخاطب ہو کر اس کے سامنے اپنا مقدمہ صحیح طور پر پیش کر سکیں تو میڈیا، رائے عامہ، بریفنگ اور لابنگ کے مغربی ہتھیاروں کو مغرب کی بالادست قوتوں کے اسلام دشمن عزائم کے خلاف استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ گزشتہ دس سال سے ارباب علم و دانش کو اسی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ایک محدود حلقہ کے سوا ہم اس ضرورت کا احساس عام کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ حالانکہ نہ صرف مسلمانوں کی مشکلات اور عالم اسلام کے مسائل کے حوالے سے بلکہ اسلام کی دعوت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے سلسلے میں بھی یہ صورتحال واضح ہے، مگر کام کا ایک وسیع میدان سامنے موجود ہونے کے باوجود مسلم ادارے اور تنظیمیں اس کے ناگزیر تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہیں یا ان کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔
چند سال قبل برطانیہ کے ایک معروف ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر میں، جو جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر محترم پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں کام کر رہا ہے، ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن جم مارشل نے کہا تھا کہ ہمارے سامنے اسلام کی مختلف تصویریں ہیں جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں:
- اسلام کا جو نقشہ ہمارے بڑوں نے ہمیں بتا رکھا ہے وہ اور ہے،
- جو اسلام ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ اس سے قطعی مختلف ہے،
- اور جس اسلام کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد رہنے والے مسلمانوں کی عملی زندگی میں کر رہے ہیں، وہ ان دونوں سے الگ ہے۔
جم مارشل کا کہنا تھا کہ یہ ’’کمیونیکیشن گیپ‘‘ ہے جسے دور کر دیا جائے تو یہاں کے لوگ اسلام کی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔
یوسف اسلام یہاں کے معروف نومسلم ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد لندن میں تعلیمی محاذ پر گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر مغربی ممالک میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کے لیے مسلم ممالک سے آنے والے علماء کرام اور دانشوروں کے بارے میں کہا کہ آپ لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ جن کے پاس علم ہے ان کے پاس زبان نہیں ہے، اور جو یہاں کی زبان اور اسلوب کے مطابق بات کہنے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کے پاس مطلوبہ علم نہیں ہے۔ اس لیے آپ پہلے اس مسئلہ کا حل نکالیں، اس کے بعد آپ یہاں کے معاشرے کو اپنی بات صحیح طور پر پہنچا سکیں گے۔
چند سال قبل ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا رضاء الحق سیاکھوی کے ہمراہ مجھے نوٹنگھم کے ایک بڑے پادری صاحب سے ملاقات کا موقع ملا اور ان سے بہت سے مسائل پر گفتگو ہوئی۔ جن میں انسانی معاشرہ میں بڑھتی ہوئی دلی بے چینی، فکری انتشار اور اس کے ساتھ بے حیائی، بدکاری، حرام خوری اور خدائی احکامات سے بغاوت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے رجحانات بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم دونوں کی تشویش و اضطراب کی نوعیت یکساں تھی لیکن جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ اس صورتحال کا آپ کے پاس کیا حل ہے تو انہوں نے کسی تکلف اور ذہنی تحفظ کے بغیر بے ساختہ کہہ دیا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے اور ہم تو اس کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی معاشرہ میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور عالم اسلام کی مشکلات و مسائل، دونوں حوالوں سے بات کہنے اور باضمیر لوگوں کو توجہ دلانے کی گنجائش موجود ہے اور بات سننے والوں کی کمی نہیں ہے۔ البتہ اس کے لیے یہاں کی زبان، اسلوب، نفسیات اور عوامی مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق بات کرنے کی ضرورت ہے جس کا ہمارے ہاں سرے سے فقدان ہے، اور اسی وجہ سے مغربی ممالک میں دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں کے ہر طرف دکھائی دینے باوجود غیر مسلم معاشرہ میں اس کے خاطر خواہ اثرات نظر نہیں آ رہے۔