پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بندش اس وقت قومی حلقوں میں زیر بحث ہے اور ملکی و بین الاقوامی پریس میں اس حوالہ سے خدشات و توقعات کے اظہار اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان ایک غریب ملک کی حیثیت سے اپنے معاشی توازن کو قائم رکھنے کے لیے بیرونی امداد حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اور خلیج کے حالیہ بحران نے پاکستان کی معیشت میں عدم توازن کے جن نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ان کے پیش نظر بیرونی امداد کی ضرورت و اہمیت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کو عسکری، فنی اور اقتصادی امداد کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور امریکہ ایک عالمی استعماری قوت کی حیثیت سے پاکستان کی اس مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کی امداد کی بحالی کو ایسی شرائط کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے جن کو پورا کرنے کی صورت میں اس کے پاس ہمیشہ کے لیے امریکہ کا دست نگر اور طفیلی بنے رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ نے پاکستان کی امداد کو جن شرائط کا پابند بنایا تھا ان میں سے چند اہم شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ:
- پاکستان ایٹم بم نہ بنانے کی یقین دہانی کرائے اور ایٹمی تنصیبات کو معائنہ کے لیے کھول دے۔
- پاکستان میں انسانی حقوق کے مغربی تصورات کے منافی کوئی قانون نافذ نہ کیا جائے، یعنی اسلامی حدود کے نفاذ کی طرف پیشرفت نہ کی جائے۔
- قادیانیوں کے خلاف جو آئینی اور قانونی اقدامات اب تک کیے گئے ہیں ان کی واپسی کا یقین دلایا جائے۔
افغانستان میں روسی جارحیت سے پیدا شدہ حالات کے باعث امریکہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ان شرائط سے صرف نظر کرتا رہا لیکن اب اس کی یہ مجبوری باقی نہیں رہی۔ جس کی وجہ سے امریکی سینٹروں نے دوبارہ یہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے اور امریکی انتظامیہ پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سینٹ کی طے شدہ مذکورہ بالا شرائط کے بغیر پاکستان کی امداد بحال نہ کی جائے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے قومی انتخابات کے نتائج کا شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا ہے جو ان سطور کی اشاعت تک سامنے آچکے ہوں گے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی حکومت آئے جو ان شرائط کی پاسداری اس کی توقعات کے مطابق کر سکے، اور اس مقصد کے لیے بعض سیاسی حلقے مختلف ذرائع سے امریکہ کو یقین دہانی کرانے اور اسے اعتماد میں لینے کی کوششوں میں مصروف بھی دکھائی دیتے ہیں۔
یہ اونٹ خدا جانے کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن اس صورتحال سے قطع نظر یہ بات اصولی طور پر طے شدہ ہے کہ امریکی سینٹ کی طرف سے پاکستان کی امداد کے لیے عائد کردہ یہ شرائط کسی بھی آزاد، باوقار اور خودمختار ملک کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔ اور ان شرائط کو قبول کرنے کا مطلب قومی آزادی اور خودمختاری کو اقتصادی امداد کے عوض گروی رکھنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ پر یہ واضح کر دیا جائے کہ پاکستانی قوم ایسی کسی امداد پر دلچسپی نہیں رکھتی جس کے لیے اسے اپنے اسلامی تشخص اور قومی خودمختاری سے دستبردار ہونا پڑے۔ پاکستان کے قومی سیاسی حلقوں اور ان سے زیادہ دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان امریکی شرائط کے خلاف کلمہ حق بلند کریں، اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی تسلط کے خلاف رائے عامہ کو منظم کیا جائے اور پوری قوم کو متحد و منظم کر کے امریکی عزائم کے خلاف سدِ سکندری بنا دیا جائے۔ یہ ذمہ داری سب سے زیادہ ملک کے دینی حلقوں پر عائد ہوتی ہے اور انہیں متحد و منظم ہو کر قومی و دینی مہم کی قیادت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔