ایک معاصر روزنامہ نے ۴ اپریل ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ مکہ مکرمہ پر ایٹم بم گرانے کا مطالبہ کرنے والے امریکی صحافی رچ لوری پر فالج کا شدید حملہ ہوا ہے اور اس کی حالت خطرے میں بتائی جاتی ہے۔ اوہایو میڈیکل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے رچ لوری کی اچانک بیماری کی اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ خبر کے مطابق مذکورہ امریکی صحافی نے چند روز پیشتر ’’انٹرنیشنل ریویو‘‘ نامی رسالے میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں تمام مسلمانوں کو نیویارک اور واشنگٹن پر ہونے والے حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کعبہ پر ایٹم بم چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
رچ لوری کے بارے میں یہ خبر کہاں تک صداقت پر مبنی ہے اس کے بارے میں چند روز تک صورتحال سامنے آجائے گی لیکن بیت اللہ کی عظمت اور اس کی حفاظت کے لیے خصوصی خدائی نظام کے حوالہ سے ایسا ہونا بعید از قیاس بات نہیں ہے کیونکہ کعبہ شعائر اللہ میں سے ہے اور شعائر اللہ کی بے حرمتی پر غیبی قوتوں کا متحرک ہونا نظام فطرت کا ایک ناگزیر حصہ ہے جس کا مظاہرہ تاریخ اس سے قبل بھی متعدد بار دیکھ چکی ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے سال بھی اس نوعیت کا ایک تاریخی واقعہ رونما ہو چکا ہے کہ بیت اللہ پر حملہ کرنے کی کوشش ہوئی لیکن حملہ آوروں کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حملہ کی قیادت کرنے والا ایک مسیحی حکمران تھا جس کو ابرہہ کہا جاتا ہے اور حبشہ کی طرف سے یمن کا حکمران تھا۔ تفسیر و تاریخ کی روایات کے مطابق ایک مذہبی مسیحی حکمران کے طور پر شمالی عرب میں مکہ مکرمہ کے بیت اللہ کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت ابرہہ کو کھٹکتی تھی اور اسے یہ کعبہ اپنے مذہب کے فروغ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آتا تھا۔ چنانچہ اس نے عربوں کی توجہ کو تقسیم کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے صنعاء میں اسی طرح کا ایک کعبہ تعمیر کرایا اور عربوں کو دعوت دی کہ وہ مکہ مکرمہ کے بیت اللہ کا رخ کرنے کی بجائے صنعاء کے کعبہ کی طرف آئیں اور اس کا طواف کریں۔ اس پر مکہ مکرمہ کے کسی قریشی کو غصہ آیا اور اس نے صنعاء جا کر ابرہہ کے بنائے ہوئے اس کعبہ میں گندگی ڈال دی۔ ابرہہ اس پر سخت غضبناک ہوا اور اس نے شاہ حبشہ سے مدد لے کر ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کا پروگرام بنا لیا تاکہ وہ انتقام کے طور پر (نعوذ باللہ) بیت اللہ کو گرا سکے۔
راستہ میں بنو خثعم کے ساتھ اس کی محاذ آرائی ہوئی اور کچھ قبائل نے مزاحمت کی مگر ابرہہ کی قوت و لشکر کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ طائف کے قریب پہنچنے پر وہاں کے ایک سردار ابو رغال نے ابرہہ سے اس بات کی ضمانت چاہی کہ وہ طائف کے بت خانہ کو نقصان نہ پہنچائے توہ مزاحمت نہیں کریں گے۔ یہ پیشکش ابرہہ نے اس شرط پر منظور کی کہ اگر طائف والے مکہ مکرمہ تک پہنچنے میں اس کی رہبری کریں تو وہ ان کے بت خانہ سے تعرض نہیں کرے گا، جس پر ابو رغال نے مکہ مکرمہ تک ابرہہ کے لشکر کی رہبری کی ذمہ داری قبول کر لی۔
طائف سے یہ لشکر آگے بڑھا تو مکہ مکرمہ والوں کو خبر ہوئی، اس وقت مکہ مکرمہ کے سردار جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا محترم جناب عبد المطلب تھے جن کی رہنمائی میں مکہ والوں نے مشاورت کر کے مکہ مکرمہ خالی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اردگرد پہاڑوں میں بکھر گئے۔ ابرہہ اپنے لشکر سمیت وادی محسر تک پہنچا اور بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آخری تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔
اس دوران ابرہہ کے بعض لشکریوں نے مکہ مکرمہ والوں کچھ لوگوں کی بکریاں اور جانور پکڑ لیے۔ جناب عبد المطلب نے ابرہہ تک رسائی حاصل کی اور اس سے ملاقات کر کے استدعا کی کہ ہمارے جو جانور تمہارے لشکریوں نے پکڑ لیے ہیں وہ واپس کر دیے جائیں۔ ابرہہ نے حیرت سے پوچھا کہ میں تمہارے کعبہ کو گرانے اور مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے ارادے سے آیا ہوں، اس بات کی تمہیں کوئی فکر نہیں ہے اور چند بکریوں کی تمہیں فکر ہے جو میرے لشکریوں نے پکڑ لی ہیں؟ جناب عبد المطلب نے اس کے جواب میں وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو بیت اللہ کی غیبی حفاظت کا عنوان بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ بکریاں ہماری ہیں اس لیے واپس لینے آیا ہوں، بیت اللہ کا مالک اس کی خود حفاظت کر لے گا۔
ابرہہ نے وہ بکریاں واپس دلوا دیں اور انتہائی تعجب و حیرت کے ساتھ جناب عبد المطلب کو رخصت کیا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ کعبہ کے اردگرد رہنے والے اسے چھوڑ کر ادھر ادھر چلے گئے ہیں تو اس کی حفاظت آخر کس طرح ہو گی۔ مگر اسے یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا اور تفسیر و تاریخ کی روایات کے مطابق سمندر کی طرف سے سبز اور زرد رنگ کے پرندوں کے جھنڈ نمودار ہوئے جو اپنی ننھی منی چونچوں میں سنگریزے اور کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے اور انہوں نے ابرہہ کے لشکر کے اوپر پہنچتے ہی ان کنکریوں سے ایسی ’’بمباری‘‘ کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں سمیت زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ پرندے کی چونچ سے گرتے ہی وہ کنکر ہاتھی پر سوار لشکری کے سر پر پڑتا اور اس کی کھوپڑی اور جسم سے گزرتے ہوئے ہاتھی کے پیٹ سے نکل کر زمین میں دھنس جاتا اور اس کے ساتھ ہی وہ سوار اور ہاتھی دونوں زمین پر ڈھیر ہو جاتے۔
قرآن کریم میں اس واقعہ کے حوالہ سے ایک مستقل سورت ’’الفیل‘‘ کے نام سے موجود ہے جس میں ابرہہ کے لشکر پر کنکریوں کی بارش کرنے والے پرندوں کا ’’ابابیل‘‘ کے نام سے تذکرہ کیا گیا ہے اور اس ’’بمباری‘‘ کے بعد ابرہہ کے لشکر کی حالت کو یوں تعبیر کیا گیا ہے جیسے چبایا ہوا بھوسہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی نے اپنے گھر کی اس طرح حفاظت فرمائی جبکہ ابرہہ کا بنایا ہوا یہ کعبہ فتح مکہ کے بعد جناب نبی اکرمؐ کے حکم پر حضرت جریر بن عبد اللہؓ کی قیادت میں ایک دستہ نے وہاں جا کر گرا دیا اور اسے آگ لگا دی، جس کی رپورٹ حضرت جریرؓ نے واپسی پر جناب نبی اکرمؐ کو ان الفاظ میں دی کہ یا رسول اللہؐ! میں اس یمنی کعبہ کو اس حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں جیسے کسی خارش زدہ اونٹ پر تارکول کا لیپ کر دیا گیا ہو۔ اس کعبہ کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی چند سال قبل یمن گئے تھے، ان کے سفر کا مقصد قرآن کریم کے اس نسخہ کی زیارت کرنا تھا جو حضرت علیؓ سے منسوب ہے اور جرمن ماہرین کی ٹیم نے تفصیلی معائنہ و تجزیہ کے بعد اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ نسخہ حضرت علیؓ ہی کا تحریر فرمودہ ہے۔ مولانا چنیوٹی پنجاب اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے صنعاء گئے اور اس نسخہ کی زیارت کی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کے مندرجات بعینہ وہی ہیں جو دنیا میں اس وقت کروڑوں کی تعداد میں چھپنے والے ’’مصحف عثمانی‘‘ کے ہیں اور اپنے مندرجات و مشمولات کے لحاظ سے حضرت عثمانؓ کے لکھوائے ہوئے قرآن کریم اور حضرت علیؓ کے تحریر فرمودہ قرآن کریم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مولانا چنیوٹی بتاتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے ابرہہ کے اس مصنوعی کعبہ کا کھنڈر بھی دیکھا جس کی کیفیت آج بھی اسی طرح ہے جیسے حضرت جریر بن عبد اللہؓ نے فرمایا تھا کہ اس کی دیواریں جل کر اس طرح سیاہ ہو گئی ہیں جیسے خارش زدہ اونٹ کے جسم پر تارکول مل دیا گیا ہو۔