چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― سکھ مت

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سکھ مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا تھا، اس کا پس منظر کیا ہے، اور اب کیاصورتحال ہے؟ آج اس پر بات کریں گے۔ سکھ مذہب پنجاب کا مذہب ہے، ان کی تاریخ زیادہ سے زیادہ پانچ سو سال کی ہے، اکبر بادشاہ کے زمانے میں ان کا آغاز ہوا۔

پہلے ایک بات سمجھنی ضروری ہے کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک پہلے ہندو تھے۔ ”گرو“ مذہبی پیشوا کو کہتے ہیں جبکہ ”نانک“ ان کا نام تھا۔ مغلوں سے پہلے دہلی پر ابراہیم لودھی کی حکومت تھی، پھر بابر نے پانی پت کی لڑائی میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا تھا اور مغل سلطنت کا آغاز ہوا تھا۔ ابراہیم لودھی کے زمانہ میں ضلع شیخوپورہ میں تلونڈی گاؤں ہوتا تھا، اب یہ خود ضلع ہے اور اس کا نام بابا نانک کے نام پر ننکانہ صاحب رکھا گیا ہے۔ وہاں ایک ہندو گھرانے میں بابا نانک نے جنم لیا۔ جب جوان ہوئے، صوفی مزاج آدمی تھے، انہیں ہندو مذہب کی دو باتوں سے نفرت ہو گئی تھی:

  1. ایک بت پرستی سے کہ بابا نانک توحید کے قائل تھے،
  2. اور دوسرا ذات پات کے فرق سے۔

ان کا رجوع صوفیاء کرام حضرت بابا فریدؒ اور حضرت میاں میرؒ کی طرف ہو گیا۔ یہ زمانہ صوفیاء کرام کے عروج کا زمانہ تھا۔ بابا نانک صوفیاء کرام سے بہت متاثر ہوئے۔ ایک عرصہ بابا نانک نے صوفیاء کرام کے ساتھ گزارا، اسلام سے بالخصوص توحید اور مساوات سے متاثر ہوئے اور اس حد تک متاثر ہوئے کہ بابا نانک نے حج کیا، مدینہ منورہ حاضری دی، اور بغداد میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی قبر پر چلہ بھی کاٹا، لیکن بعد میں بات گڈمڈ ہو گئی۔

ہندوؤں میں ذات پات کا فرق ہے، برہمن کا دائرہ اور ہے، شودر کا دائرہ اور ہے، کھشتری کا دائرہ اور ہے، ویش کا دائرہ اور ہے۔ چار ذاتیں ہیں، چاروں کے آداب الگ ہیں، سب برابر نہیں سمجھے جاتے۔ گھٹیا ذات والے کو بہت حقیر سمجھا جاتا ہے، برابر بیٹھ نہیں سکتا، جس برتن میں کھانا کھا لے اس برتن کو پلید سمجھا جاتا ہے۔ ذات پات کا فرق ہندوؤں میں اب بھی ہے۔ بابا گرو نانک کو بت پرستی کے علاوہ اس ذات پات کے فرق سے نفرت ہوئی اور اس نفرت میں پیچھے ہٹتے ہٹتے ان کا رجوع صوفیاء کرام کی طرف ہو گیا۔

ہمارے تصوف و سلوک کی بنیاد تو قرآن و سنت ہے لیکن کسی بھی سوسائٹی میں جا کر اثر و نفوذ کے لیے وہاں گھل مل کر سوسائٹی کی کچھ باتیں ہم نے اختیار کی ہیں تاکہ سوسائٹی کو متاثر کر سکیں۔ ہندوستان میں جب ہمارے صوفیاء کرام آئے تو بعض نے ہندو سوسائٹی کے ماحول میں خود کو پیش کرنے کے لیے جوگیوں وغیرہ کے طریقے اختیار کیے، جس کی وجہ سے ہم پر یہ الزام بھی ہوتا ہے کہ تصوف تم نے ہندوؤں سے لیا ہے۔ ایسا نہیں، بلکہ تصوف ہم اپنے ساتھ لائے تھے، تصوف کی بنیاد حضرت علیؓ اور حسن بصریؒ ہیں۔ اب چونکہ خانقاہی نظام اس درجے کا موجود نہیں ہے اس لیے سمجھ نہیں آ رہا۔ خانقاہی نظام کیا تھا؟ اس میں تین باتیں ہوا کرتی تھیں:

  1. ہر وقت اللہ کا ذکر
  2. ہر وقت لنگر
  3. اور جو بھی آئے اس سے پیار و محبت سے بات کی جائے، کسی کی نفی اور کسی سے نفرت نہ کی جائے۔

برصغیر کی خانقاہوں کی یہ تین بنیادیں رہی ہیں۔ اسی ماحول کی وجہ سے ہمارے صوفیاء کرام لاکھوں لوگوں کو مسلمان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ کسی سے تعرض نہیں کیا، کسی سے مقابلہ نہیں کیا، جو بھی آیا اسے کھلایا پلایا، اسے اللہ اللہ کی تلقین کی، اللہ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ جب وہ کچھ مانوس ہوا تو آہستہ آہستہ اس کو کلمہ پر لے آئے۔ بابا گرو نانک نے بھی صوفیاء کرام سے متاثر ہو کر ان کے پاس آنا جانا اور ان سے استفادہ شروع کیا۔ بالخصوص حضرت بابا فریدؒ اور حضرت میاں میرؒ سے انہیں بہت عقیدت تھی۔ اور صوفیاء کرام سے بابا نانک اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے حج بھی کیا اور بغداد میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی قبر پر چلہ بھی کاٹا، سکون کی تلاش میں۔

بابا گرو نانک ہندو مذہب سے نکلے مگر اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔ قرآن مجید کی، حضورؐ کی اور اسلام کی باتوں کی تعریف کرتے ہیں لیکن کلمہ نہیں پڑھا، اسلام قبول نہیں کیا۔ کچھ ہندو تصوف، کچھ مسلم تصوف، کچھ توحید، کچھ رسمیں اور کچھ ذکر اذکار، ان سے ایک درمیانہ سا ملغوبہ بنا دیا۔ انہوں نے پیری مریدی شروع کر دی، ابتدا میں اس کی خانقاہی صورت تھی، بڑے صوفیاء کے پاس یہ جاتے، لوگ ان کے پاس آتے۔ انہوں نے گرنتھ کتاب لکھی جسے گروگرنتھ کہا جاتا ہے۔ یہ سکھوں کی مذہبی کتاب ہے، اس میں سنسکرت بھی ہے، پنجابی بھی ہے، قرآن کریم کی آیات بھی ہیں، جناب نبی کریمؐ کی احادیث بھی ہیں، بزرگوں کے اقوال بھی ہیں، اور بابا فریدکی کافیاں بھی ہیں۔

سکھ توحید پر بڑے پکے ہیں، بت پرستی اور شرک سے سخت نفرت ہے، ذات پات سے شدید نفرت ہے، ذکر اذکار اور گرنتھ پڑھنے کا ماحول ہے۔ میں نے امرتسر گولڈن ٹیمپل اور برمنگھم (برطانیہ) میں ان کے بہت بڑے گردوارہ کے علاوہ اور بھی گردوارے دیکھے ہیں۔ ان کی عبادت کا ماحول آپ کو بتا دیتا ہوں۔ برمنگھم گردوارہ میں ہر وقت لنگر چلتا رہتا ہے اور ان کے بقول اوسطاً یومیہ پانچ ہزار آدمی وہاں کھانا کھاتے ہیں۔ جو بھی جائے، مسلمان ہو، عیسائی ہو۔ ایک دن مولانا سلمان ندوی، مولانا محمد عیسٰی منصوری اور میں گردوارہ دیکھنے گئے، انہوں نے اجازت دے دی۔ ہم نے کہا ہم آپ کا گردوارہ وزٹ کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے یومیہ معمولات معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے تشریف لائیں لیکن دو شرطیں ہیں:

  1. ایک تو یہ کہ آپ کو گردوارے کی حدود میں ننگے پاؤں آنا پڑے گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔
  2. دوسری شرط یہ ہے کہ جب آپ بڑے ہال میں داخل ہوں گے تو گروگرنتھ کو سجدہ کریں گے، ماتھا ٹیکیں گے۔ ہم نے کہا ہم یہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا اس کے بغیر ہال کے اندر جانا منع ہے۔ ہم نے کہا یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی کو ماتھا ٹیکیں۔

بڑے ہال کے چاروں طرف دروازے تھے، درمیان میں تپائی اور چوکی سی رکھی ہوئی تھی جس پر گروگرنتھ بہت بڑے سائز کی کتاب پڑی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک گرو بیٹھا ہوتا ہے جو گرنتھ پڑھتا رہتا ہے۔ چوبیس گھنٹے اس کو پڑھنا جاری رہتا ہے۔ دو دو گھنٹے ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے گرنتھ پڑھنے کی۔ بتایا گیا کہ پانچ سال سے ایک گھنٹے کا وقفہ بھی نہیں پڑا۔ جو بھی جس دروازے سے داخل ہو وہ پہلے گرنتھ کو ماتھا ٹیکتا ہے۔ ہم نے جب ماتھا ٹیکنے سے انکار کر دیا تو وہ کچھ پریشان بھی ہوئے کہ مہمان ہیں ان کو خالی واپس بھیجیں گے، اور ہماری ضد پر ناراض بھی ہوئے۔ ہر گردوارے کے ساتھ ان کی ایک کمیٹی ہوتی ہے جو پنج پیارے کہلاتے ہیں۔ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہو تو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمیں انہوں نے کہا کہ پنج پیاروں سے پوچھنا پڑے گا۔ ہم نے کہا پوچھ لیں۔ چنانچہ پنج پیاروں کی میٹنگ ہوئی، ایک گھنٹہ میٹنگ ہوتی رہی۔ اب یہ بھی ان کے لیے مشکل تھا کہ ہمیں واپس کریں کہ ان کے خیال میں ہم محترم مہمان تھے، اور یہ بھی قبول نہیں تھا کہ ہمیں سجدے کے بغیر اندر جانے کی اجازت دیں۔ بہرحال ایک گھنٹے کی میٹنگ کے بعد بالآخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور کہا، اچھا آپ نے ماتھا نہیں ٹیکنا تو نہ ٹیکیں۔

انہوں نے تقریباً خانقاہی نظام کی نقل کی ہوئی ہے۔ ذکر اذکار، اللہ اللہ کرنا، تسبیح پڑھنا، گرنتھ کی تلاوت، اور لنگر جو ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ ہمارے صوفیاء کرام کے پرانے خانقاہی نظام میں بھی یہی باتیں ہوتی تھیں، مسلسل ذکر اذکار اور مسلسل لنگر کہ جو بھی آئے کھانا کھائے۔

سکھوں کی کچھ علامتیں بھی ہیں۔ پنج ککے یعنی کاف سے شروع ہونے والی پانچ چیزیں:

  1. کڑا ہاتھ میں ضرور پہنتے ہیں۔
  2. کیس، یعنی ان کے ہاں مذہبی طور پر جسم کا کوئی بال کاٹنا جائز نہیں ہے، بڑے بڑے بال ہو جاتے ہیں جنہیں سنبھالنا پڑتا ہے، ان کا جوڑا بناتے ہیں، داڑھی سمیٹی ہوتی ہے-
  3. کنگھا لازمی ان کے پاس ہوتا ہے۔
  4. کچھا ضرور پہنتے ہیں۔
  5. کرپان رکھتے ہیں، جو خنجر سے بڑی اور تلوار سے چھوٹی ہوتی ہے۔

سکھ داڑھی رکھتے ہیں اور پگڑی ضرور باندھتے ہیں، انہوں نے پگڑی کے لیے بڑی لڑائی لڑی ہے کہ یہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ برطانیہ میں بھی انہوں نے اپنا حق منوایا ہے، امریکہ میں بھی منوایا ہے۔ یہ ان کی چند علامات ہیں۔

صوفیاء کرام سے اب بھی بہت محبت کرتے ہیں، آپ کسی سکھ کے سامنے بابا فریدؒ کا نام لے لیں تو وہ آپ کا معتقد ہو جائے گا۔ میں ذاتی واقعہ عرض کرتا ہوں، لندن میں ایک جگہ میں نے بیگ خریدنا تھا، ایک سکھ کی دکان پر چلا گیا کہ پنجابی سمجھ لیتے ہیں۔ میں نے ایک اچھا سا بیگ پسند کیا۔ باتوں باتوں میں بابا فریدؒ کی ایک کافی میں نے پڑھ دی۔ دکان کا مالک کہنے لگا اب آپ سے پیسے کیوں لینے ہیں، آپ تو بابا فریدؒ کے ماننے والے ہیں، چنانچہ اس نے مجھ سے پیسے نہیں لیے۔

امرتسر کا معنی ہے آب حیات۔ امرتسر میں جو گولڈن ٹیمپل ہے، اس میں جانے کے لیے اس کے گرد احاطہ کیے ہوئے پانی کے چشمے میں پاؤں دھو کر ننگے پاؤں جانا پڑتا ہے۔ اس پانی کی ان کے ہاں وہی حیثیت ہے جو ہمارے ہاں زمزم کی ہے۔ گولڈن ٹیمپل کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے انہوں نے حضرت میاں میرؒ سے درخواست کی۔ حضرت میاں میرؒ ہمارے اکابر صوفیاء میں سے ہیں، لاہور میں ان کا مزار ہے۔ ہر سال میلہ لگتا ہے۔ میاں میرؒ یہاں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیدل امرتسر گئے تھے اور گولڈن ٹیمپل کا سنگ بنیاد رکھا۔

یہ تو سکھوں کا مذہبی پہلو تھا کہ ہندوؤں سے الگ ہو گئے لیکن مسلمانوں میں شامل نہیں ہوئے، اور سکھ مت ایک نیا مذہب بن گیا جو پانچ سو سال سے چل رہا ہے۔

ابراہیم لودھی نے بابا گرو نانک کو گرفتار کر لیا تھا، چار پانچ مہینے گرفتار رہے۔ بابر نے جب سلطنت حاصل کی تو انہیں رہا کر دیا اور عزت و اکرام سے پیش آیا۔ جب بابا گرو نانک فوت ہوئے تو ان کے بعد ان کے جو جانشین بنے وہ گرو کہلاتے تھے۔ سات پشتوں تک سکھوں کے تعلقات مغلوں کے ساتھ ٹھیک رہے۔ اس وقت تک یہ کچھ ترقی کر گئے تھے، کچھ منظم ہوگئے تھے، لاکھوں لوگ ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ ان کے آٹھویں گرو رائے تیغ بہادر نے مغلوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ یہ اورنگزیب عالمگیر کا زمانہ تھا۔ اس کشمکش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اورنگزیب نے جب حکومت حاصل کی تو باپ شاہجہان کو دہلی کے قلعے میں بند کر دیا تھا۔

اورنگزیب کی اپنے بھائیوں داراشکوہ اور شجاع کے ساتھ جنگیں ہوئی تھیں۔ باپ کی طرف سے داراشکوہ ہی نامزد تھا، وہ بھی صوفی طرز کا آدمی تھا، حضرت سلیم چشتیؒ کا مرید تھا اور ہندو جوگیوں کے ساتھ مل کر ملا جلا تصوف رکھتا تھا۔ جبکہ اورنگزیب بڑا موحد، دیندار اور کٹرسنی تھا۔ دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اورنگزیب تو حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحریک کا آدمی تھا، اس تحریک نے جو لوگ تیار کیے ان میں سے ایک تھا، اورنگزیب نے اسی مشن کے مطابق کام کیا تھا۔ اورنگزیب کی داراشکوہ اور شجاع سے دہلی کے اقتدار کے لیے لڑائی ہوئی، اس جنگ میں سکھوں نے داراشکوہ کا ساتھ دیا۔ سکھ پوری جماعت کی حیثیت سے داراشکوہ کے ساتھ تھے، بڑی شدید جنگ ہوئی تھی۔ اورنگزیب نے داراشکوہ اور شجاع کو شکست دے کر قتل کر دیا تھا اور دہلی کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اس کشمکش میں چونکہ سکھ اورنگزیب کے خلاف تھے اس لیے ظاہر بات ہے اورنگزیب نے ان کو برداشت نہیں کرنا تھا۔ ان کے آٹھویں گرو رائے تیغ بہادر کو اورنگزیب نے گرفتار کر کے قتل کر دیا تھا۔ پھر نویں گرو کے بعد انہوں نے کسی شخص کو گرو نہیں بنایا، بلکہ کہا کہ گرنتھ ہمارا گرو ہے، اسے کون قتل کرے گا؟ گرنتھ کو گرو بنالیا اور اب تک گرنتھ ہی ان کا گرو ہے، اس لیے اسے گروگرنتھ کہتے ہیں۔ اورنگزیب نے چونکہ ان کو خاصا پریشان کیا تھا اس لیے اورنگزیب کو رنگا کہتے ہیں۔

ایک لطیفہ یہ ہوا کہ لندن میں ساؤتھال کے علاقے میں میرا جانا رہتا تھا۔ وہاں سکھ اکثریت ہے، ان سے میل ملاقات بھی رہتی تھی۔ وہاں ایک پروفیسر تھے، ایک دن میں نے ان سے کہا سردار جی! آپ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جو کچھ ہمارے ساتھ کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جنرل بخت خان نے دہلی پر قبضہ کر لیا تھا، وہاں سے انگریزوں کو نکال دیا تھا۔ پنجاب سے سکھوں کی پندرہ ہزار تازہ دم فوج گئی، انہوں نے قبضہ چھڑوا کر انگریزوں کو بحال کیا تھا، یہ تاریخی واقعہ ہے۔ اور پھر ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں میں مشرقی پاکستان میں جو سلوک ہمارے ساتھ کیا ہمیں قیامت تک نہیں بھولے گا، یہ زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے۔ انہوں نے جواب میں کہا، ٹھیک ہے یہ ہم نے کیا، لیکن جو ہمارے ساتھ رنگے (اورنگزیب) نے کیا تھا وہ بھی ہمیں قیامت تک نہیں بھولے گا۔ ان کی بات بھی ٹھیک تھی، اورنگزیب نے ان کے ساتھ اچھا خاصا کیا تھا وہاں سے کشمکش شروع ہوئی۔

ان کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ جب اورنگزیب کے بعد مغلوں کی حکومت کمزور ہوئی اور مسلسل زوال کا شکار ہوئی تو سکھ پنجاب کے علاقے میں خاصے پھیل چکے تھے۔ انہوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ جس طرح ہندوستان کے باقی لوگ خودمختار ہونے لگے، یہ بھی خودمختار ہونے لگے۔ سیاست میں مقابلے پر تو یہ گرو تیغ بہادر کے زمانے میں ہی آگئے تھے، اورنگزیب کے بعد ان کو موقع ملا تو انہوں نے سکھ ریاست کا آغاز کیا۔ مذہب کا آغاز ننکانہ صاحب سے، اور سکھ ریاست کا آغاز گوجرانوالہ سے ہوا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ شیرانوالہ باغ میں مہان سنگھ، جو کہ رنجیت سنگھ کا باپ تھا، کی مڑھی بھی ہے۔ ہمارے ہاں تو مردے کو دفن کیا جاتا ہے، ہندوؤں کے ہاں روایت چلی آ رہی ہے کہ مردے کو جلایا جاتا ہے، جلا کر اس کی راکھ کو کسی مٹی کے برتن میں محفوظ کیا جاتا ہے، اس کو کہیں دفن کیا جاتا ہے وہ مڑھی کہلاتی ہے۔ اس زمانے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہوتے تھے جو مسل کہلاتے تھے، رنجیت سنگھ ایک مسل کا حکمران تھا، ایسے ہی سمجھ لیں جیسے پہلے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے نواب ہوتے تھے۔

جب انگریز برصغیر سے گیا تو یہاں اس طرح کی پانچ سو ریاستیں تھیں۔ رنجیت سنگھ کی بارہ دری شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ہے۔ گوجرانوالہ ان کا دارالحکومت رہا ہے، پھر ایمن آباد شہر دارالحکومت رہا ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ سکھوں نے حکومت قائم کرنا شروع کی۔ پھر لاہور ان کے قبضے میں آیا، آگے ملتان تک گئے، انبالہ لدھیانہ تک، شمال کی طرف ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، مردان، بنوں، گلگت، بلتستان، پشاور، کشمیر اس پورے علاقے پر سکھوں نے قبضہ کیا۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت عروج پر تھی تو ملتان سے لے کر کابل تک حکومت تھی۔ ۱۸۵۷ء سے دس سال پہلے تک یہ علاقہ سکھوں کا ملک رہا ہے۔ ۱۸۴۵ء یا ۱۸۴۶ء میں انگریزوں نے ان کو شکست دی اور ان علاقوں پر قبضہ کیا۔ مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کے تعلقات کا ایک وہ دور تھا جب مغلوں سے علاقے چھین کر انہوں نے اپنی ریاست بنائی، مغل کمزور پڑ گئے تھے، انہوں نے یہ سارے علاقے مغلوں سے ہی چھینے تھے۔

اس کے بعد ہمارا اور سکھوں کا جو بڑا معرکہ ہوا وہ ہے بالاکوٹ کا معرکہ۔ اس میں انگریز پیچھے بیٹھ کر ان کو سپورٹ کر رہا تھا اور تماشا دیکھ رہا تھا۔ ہوا یوں کہ جب شاہ عالم ثانی کے زمانے میں دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا اعلان ہوا تو شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس ملک کو دارالحرب قرار دے دیا۔ آزادی کی جنگ کی فرضیت کا حکم دے دیا تو شاہ اسماعیل شہیدؒ جو آپؒ کے شاگرد اور بھتیجے تھے، سید احمد شہیدؒ ان کے شاگرد تھے، انہوں نے ٹونک ریاست کی فوج میں شامل ہو کر ٹریننگ حاصل کی۔ یہ ۱۹۳۰ء سے پہلے کا زمانہ تھا۔ اس دور کا منظر یہ تھا کہ پنجاب سکھوں کی آزاد ریاست تھی جبکہ سندھ، راجھستان اور افغانستان مسلمانوں کی آزاد ریاست تھی۔ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے پہلے بیس کیمپ بنائیں گے، اس کے لیے پشاور کا انتخاب کیا، اس لیے کہ پیچھے افغانستان کی آزاد ریاست ہے، بیس کیمپ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ خودمختار علاقہ ہو اور اس کے ساتھ کسی آزاد ملک کی سرحد ہو، یعنی پشت پر قوت بھی ہو، ویسے ہی درمیان میں بیٹھ جانا حماقت ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے حکمت عملی یہ اختیار کی، اور ابتدا کی اصلاح معاشرہ کے نام سے۔

شاہ اسماعیل شہید کی تحریک کے ابتدائی ایک دو سال میں جہاد کا لفظ نہیں ملے گا۔ پنجاب کی کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ سکھوں کے مسلسل اقتدار کی وجہ سے دیہات کی مسجدیں ویران ہو گئی تھیں۔ بادشاہی مسجد گھوڑوں کا اصطبل تھی۔ تو انہوں اذان اور نماز بحال کرنے، مسجدیں آباد کرنے، اصلاح رسوم اور اصلاح معاشرہ کے عنوان سے سلسلہ شروع کیا۔ پورے علاقے کا دورہ کیا اور جماعت بنائی۔ پھر پورا قافلہ حج پر گیا۔ اس کے بعد دہلی سے راجھستان اور سندھ وغیرہ سے ہو کر پشاور پہنچے۔ سندھ میں تالپوروں کی حکومت تھی، ابھی انگریزوں نے قبضہ نہیں کیا تھا اور حضرت شاہ محمد راشد قادری، جن سے سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ منسوب ہے، کے زمانے میں ان کے ہاں پیر جوگوٹھ کی خانقاہ میں مہمان رہے، شاہ محمد راشدؒ کے مریدین بھی اس وقت سے جہاد سے جڑے، حروں کا سارا گروہ اور پیرپگارا سب وہی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بگاڑ آتا گیا۔ میں نے پیر جوگوٹھ میں وہ علاقہ دیکھا ہے جہاں ان کا ٹھکانہ ہوتا تھا، اور مجھے بتایا گیا کہ جب ہجرت اور جہاد کی نیت سے وہ آگے نکل رہے تھے تو ان کے خاندان بھی ساتھ تھے۔ پیر صاحب آف پگارا شاہ محمد راشدؒ نے ان سے کہا کہ آپ خاندان ساتھ نہ لے جائیں، یہاں چھوڑ جائیں ہم حفاظت کریں گے۔ وہ محلہ میں نے دیکھا جہاں وہ خاندان چھوڑ کر آگے نکلے تھے۔ پشاور میں ۱۸۳۰ء میں ان کی جنگ ہوئی، انہوں نے پشاور فتح کیا، پنجتار کا علاقہ صوابی کے ساتھ ان کا سالہا سال تک مرکز رہا ہے۔ میں نے وہ تربیتی مرکز بھی دیکھا ہے۔ ۱۸۳۰ء میں ان کی حکومت قائم ہوئی، انہوں نے یہ علاقہ سکھوں سے چھینا تھا۔ مگر ان کی حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکی، ان کو نظر آگیا تھا کہ یہاں ہمارا چلنا مشکل ہے، تو پھر متبادل پناہ گاہ اور بیس کیمپ کی تلاش میں تھے۔

مظفر آباد کشمیر کے علاقے کے لوگوں نے ان سے رابطہ قائم کیا کہ آپ ہمارے پاس آجائیں، یہاں مرکز بنائیں گے۔ چنانچہ یہ پورا قافلہ اوپر کے راستے سے، کیونکہ شیر سنگھ رنجیت سنگھ کا بیٹا ان کے تعاقب میں تھا، مظفر آباد جاتے ہوئے بالاکوٹ تک پہنچے، وہاں ان کا ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو مقابلہ ہوا جس میں انہیں شکست ہوئی اور وہاں شہید ہوئے۔ پلاننگ ان کی یہ تھی کہ علاقے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بنائیں گے۔

”مکاتیب سید احمد شہیدؒ“ مولانا سید نفیس الحسینیؒ نے بڑی محنت کر کے چھپوائے ہیں، اس وقت کے معاصرین سے ان کی خط و کتابت اس میں مذکور ہے، اس سے ساری بات واضح ہو جاتی ہے۔ اس پر اگر آپ پڑھنا چاہیں تو غلام رسول مہر مرحوم کی ”سرگذشت مجاہدین“ اور مولانا علی میاں ؒ کی ”تاریخ دعوت و عزیمت“ میں آپ کو تفصیلات ملیں گی۔ پھر ۱۸۵۷ء کا معرکہ پورے ملک میں ہوا۔ دہلی وغیرہ میں جنرل بخت خان اور شاملی کے محاذ پر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ؒوغیرہ سبھی بزرگ، کوئی انبالہ میں، کوئی میرٹھ میں، کوئی دہلی میں، مختلف بغاوتیں ہوئیں۔ دہلی پر جنرل بخت خان نے قبضہ کر لیا۔ پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، سکھوں کے ساتھ ان کے معاہدات ہو گئے، اس معاہدہ کے تحت انگریزوں نے سکھوں کی مدد کی تھی اور دہلی پر انگریزوں نے قبضہ واپس لے لیا۔

۱۸۵۷ء تک کی داستان یہ تھی، جس سے پہلے ہماری ہندو، سکھ، مسلم کی آپس میں لڑائیاں چلتی رہی ہیں۔ احمد شاہ ابدالیؒ کی پانی پت میں لڑائی ہندوؤں سے ہوئی تھی۔ سکھ ہندو اور مسلمان آپس میں متحارب طاقتیں تھیں۔ ۱۸۵۷ء کے بعد صورتحال بالکل بدل گئی، پورے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ ہندو، سکھ اور مسلمان سبھی محکوم ہو گئے۔ اس سے آزادی کی تحریک کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

آزادی کی مسلح تحریکوں اور سیاسی تحریکوں میں سکھ بھی شامل تھے۔ پاکستان بننے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پاکستان کے قیام کے موقع پر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ مشرقی پنجاب میں سکھوں کی اکثریت تھی، مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اس زمانے میں بہت سے دانشوروں نے کوشش کی کہ پنجاب تقسیم نہ ہو، سکھ اور مسلمان اکٹھے رہیں، لیکن سکھوں نے انکار کر دیا۔ اگر سکھ پاکستان کی تحریک کا ساتھ دیتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب دو صوبے الگ بن جاتے، خون ریزی نہ ہوتی، اور کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ ماسٹر تارا سنگھ ان کے بڑے لیڈر تھے، پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔ ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے باہر تلوار لہرا کر کہا تھا کہ ہم اس تلوار کے ساتھ پاکستان کو روکیں گے، پھر وہ تلوار جو چلی اور مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا، الامان الحفیظ۔

اس کے بعد سکھ ہندوستان کا حصہ چلے آرہے ہیں لیکن مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک دور میں خالصتان کی تحریک شروع کی اور مطالبہ کر دیا کہ انہیں الگ کر دیا جائے۔ ”خالصہ“ ان کی اصطلاح ہے، بہادر آدمی اور جنگجو خالصہ کہلاتے ہیں، اور سنگھ بھی شیر کو کہتے ہیں۔ ایک اور بات دلچسپی کی یہ ہے کہ سکھوں نے ایک دور میں قادیانیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بابا گرو نانک کو پیغمبروں کی فہرست میں لکھا ہے۔ لندن میں قادیانی بھی خاصے ہیں اور سکھ تو بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے وہاں تحریک یہ چلائی تھی کہ خالصتان کو الگ کیا جائے۔ اس کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان سے بین الاقوامی مطالبہ کیا گیا کہ ننکانہ صاحب اور قادیان کو اوپن سٹی قرار دیا جائے۔ اوپن سٹی کا معنی اندرونی خودمختاری کہ ان کی اپنی حکومت ہو۔ اس کے لیے بڑی کمپین ہوئی لیکن ان کو جلدی سمجھ آ گیا کہ قادیانیوں کو ساتھ ملانا فائدہ مند نہیں ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سکھ اپنی آزاد ریاست چاہتے ہیں، ضیاء الحق مرحوم نے ان کو سپورٹ بھی کیا تھا۔ اگر ضیاء الحق مرحوم زندہ ہوتے تو وہ تحریک کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہوتی لیکن ان کی تحریک ناکام رہی۔ کشمیر والے تو لڑ رہے ہیں، سکھ لڑ نہیں رہے لیکن ان کی خواہش ہے کہ ہم آزاد ہوں۔

سکھوں کی زیادہ تر آبادی مشرقی پنجاب میں ہے، برطانیہ میں بھی سکھوں کی بہت بڑی آبادی ہے۔ مشرقی پنجاب کے بعد ان کا سب سے بڑا مرکز کینیڈا ہے۔ وہاں کی سیاست میں بھی ان کا عمل دخل ہے اور ابھی دو سال پہلے کینیڈا نے پنجابی کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے۔ سکھ بولتے پنجابی ہیں، لکھتے گرمکھی میں ہیں۔

ایک واقعہ سناتا ہوں، جس زمانے میں طالبان کی حکومت تھی، مجھے ایک وفد کے ساتھ کابل جانے کا اتفاق ہوا۔ کابل میں سکھ خاصے آباد تھے، وہاں بازار میں سکھوں کی کپڑے کی چند دکانیں نظر آئیں، میں ایک دکان میں داخل ہوا اور پنجابی میں کہا سردار جی کیا حال ہے؟ وہ بڑے خوش ہوئے، چائے وغیرہ منگوائی۔ ہماری گفتگو چل پڑی۔ زبان کا انس بڑا انس ہوتا ہے اور میں ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہوں۔ میں نے باتوں باتوں میں ان سے سوال کیا سردار جی! یہ مولویوں کی (طالبان کی) حکومت آئی ہے تو آپ نے کیا محسوس کیا، کیا فرق پڑا ہے؟ اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا، گیانی جی! (مولوی کو گیانی جی کہتے ہیں) جب سے مولوی آئے ہیں ہم آرام کی نیند سوتے ہیں۔ میں نے پوچھا، کیا مطلب؟ کہنے لگا پہلے بہت افراتفری تھی، کوئی امن نہیں تھا، ہم تین باپ بیٹے ہیں، آٹھ آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دیتے تھے، ایک جاگتا تھا دو سوتے تھے۔ اب مولوی پہرا دیتے ہیں اور ہم سوتے ہیں۔ میں نے اس پر ایک کالم میں پوری تفصیل لکھی تھی۔

آج میں نے سکھوں کا کچھ اجمالی تعارف کروایا ہے کہ یہ ہماری معاصر قوم ہے اور پڑوسی قوم ہے۔ ہمارے ساتھ ان کے جھگڑے بھی ہیں، کئی معاملات میں صلح بھی ہے، لیکن یہ ایک مذہب چل رہا ہے جو کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود ہے۔

2016ء سے
Flag Counter