۳ جون کو لاہور میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ اور ۵ جون کو ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے اجلاسوں میں شرکت ہوئی اور مختلف دینی راہنماؤں اور احباب کے ساتھ پیش آمدہ امور پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ اہم عنوانات کم و بیش ملک بھر کے دینی حلقوں میں مشترکہ طور پر درپیش ہیں اور آراء و خیالات میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، البتہ اجتماعی جدوجہد کے لیے علماء کرام اور دینی کارکن ہر جگہ کسی متحرک قیادت کے سامنے آنے کے منتظر ہیں بلکہ بعض حلقوں میں اس سلسلہ میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے کہ عوامی سطح پر قیادتوں کا مشترکہ موقف تو واضح ہے مگر جدوجہد کا رخ اور طریق کار سامنے آنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ان مسائل پر ان کالموں میں ہم پہلے بھی متعدد بار گزارشات پیش کر چکے ہیں، البتہ ایک بار پھر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی حرمت و تقدس کے تحفظ اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جبر و ظلم کی روک تھام کے حوالہ سے حکومت پاکستان کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس پر اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں آواز بلند کی جائے گی اور متعلقہ فورموں میں موقف پیش کیا جائے گا، مگر دو باتیں ہنوز تشنہ ہیں۔ ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ، فلسطین اور اس کے ساتھ کشمیر کے بارے میں عالمی سطح پر آواز بلند کرنے کا لائحہ عمل اور طریق کار کیا ہو گا کیونکہ آواز بلند کرنے کی بات تو ہم اس سے قبل بھی کرتے آ رہے ہیں لیکن اس سلسلہ میں کوئی عملی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی جس سے یہ ساری تگ و دو زبانی جمع خرچ دکھائی دیتی ہے۔
ناموس رسالتؐ کے قوانین کے بارے میں یورپی یونین کی قرارداد کا مسئلہ بھی اسی طرح توجہ طلبہ ہے، اس کے لیے یورپ یونین سے گفت و شنید کی بات تو ہوئی ہے مگر کوئی عملی پروگرام نظر نہیں آ رہا بلکہ اس سلسلہ میں یہ بات خصوصی طور پر غور طلب ہے کہ یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے سلسلہ میں ملت اسلامیہ اور پاکستان کے موقف کی ترجمانی کون کرے گا؟ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ اس معاملہ میں ہمارا سفارتی ماحول اور عملہ کافی نہیں ہے کیونکہ سفارتی ماحول اور عملہ میں نہ تو ان مسائل سے آگاہی پائی جاتی ہے اور نہ ہی کمٹمنٹ نظر آتی ہے، اس کے لیے دستور پاکستان، مسئلہ ختم نبوت اور قانونی و دینی ماہرین کے وفود کی صورت ہی قابل عمل ہو سکتی ہے۔
اوقاف قوانین کا تنازعہ بدستور حل طلب ہے، متنازعہ قوانین جن کے بارے میں دینی و قانونی حلقوں کا موقف واضح ہے کہ یہ مذہبی آزادی، دستوری تقاضوں، شرعی قوانین اور شہری حقوق سے متصادم ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر نافذ ہو چکے ہیں صرف عملدرآمد کا مرحلہ باقی ہے جس سے ملک بھر کی مساجد و مدارس اور اوقاف IMF اور FATF کی نگرانی میں چلے جائیں گے اور ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کی غلامی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔ مگر دینی و قانونی حلقوں کے احتجاج و اضطراب کو غیر رسمی مذاکرات اور غیر اعلانیہ وعدوں کی صورت میں مسلسل ٹرخایا جا رہا ہے جو سخت پریشان کن ہے، اس سلسلہ میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی بعض خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ان متنازعہ اوقاف قوانین پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے اور ان میں دینی حلقوں کی پیش کردہ ترمیم کو قبول کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، مگر نہ تو اس کا کوئی باضابطہ اعلان کسی مجاز اتھارٹی کی طرف سے سامنے آیا ہے اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ جن دینی حلقوں کے ساتھ مذاکرات اور ان کی پیش کردہ ترامیم قبول کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ کون سے حلقے ہیں؟ ہمارے ہاں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ مذاکرات کی میز پر دوسری طرف بھی اپنی مرضی کے لوگ بٹھا کر مذاکرات کا مرحلہ نمٹا دیا جاتا ہے اور غالباً اب بھی یہی ہونے جا رہا ہے، اس لیے یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں دینی حلقوں کی نمائندگی کا حق صرف ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کو ہے اور اس متفقہ فورم کو اعتماد میں لیے بغیر اوقاف قوانین کے بارے میں کیا جانے والا کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں ہو گا۔
تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے جس کی صدارت کی ذمہ داری راقم الحروف کے سپرد ہے، رمضان المبارک سے قبل اعلان کیا تھا کہ ہم رمضان کے بعد قومی سطح پر مشترکہ مشاورت کا اہتمام کر کے اس سلسلہ میں اجتماعی موقف اور جدوجہد کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے، ہم اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں البتہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ۲۷ جون کو لاہور میں مساجد و مدارس اور اوقاف کے معاملہ میں قومی مشاورتی کانفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں، ہم نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ملی مجلس شرعی کے پروگرام کو سردست مؤخر کر دیا ہے اور اب ہم اس قومی مشاورت کے بعد اس کے فیصلوں کی روشنی میں نیا لائحہ عمل طے کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس کے ساتھ افغان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈوں کا جو تقاضہ کیا ہے وہ بھی ایک اہم مسئلہ کی صورت اختیار کر گیا ہے اور سنجیدہ دینی و سیاسی قیادتوں کی طرف سے اس کی دوٹوک مخالفت کی جا رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کسی بھی عالمی طاقت کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کرنا قومی خودمختاری کے منافی اور ملکی سالمیت کے لیے چیلنج ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ ہمارا سابقہ تجربہ ہے کہ ہم نے نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان میں کاروائی کے لیے صرف راہداری فراہم کی تھی جس کے تلخ اور سنگین نتائج اب تک ہم بھگت رہے ہیں، اس تجربہ کے بعد ملک کا کون محب وطن شخص امریکہ کو فوجی اڈے دینے کی بات آرام سے نہیں سن سکتا ۔ بہرحال یہ مسئلہ بھی سنگینی میں دوسرے مسائل سے کم نہیں ہے اور قوم اس حوالہ سے واضح اور دوٹوک انکار سننا چاہتی ہے۔
ان مسائل پر عوام کے جذبات و احساسات واضح ہیں اور بے چینی و اضطراب بڑھتا جا رہا ہے جبکہ اس سلسلہ میں قومی سطح پر مشترکہ قیادت کا خلا بہرحال موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی ۲۷ جون کی مجوزہ قومی مشاورت کانفرنس میں ان اہم امور پر تحریک تحفظ ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفٰیؐ طرز کی ہمہ گیر عوامی جدوجہد کا کوئی پروگرام ضرور طے پا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس لیے کہ قومی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کی روک تھام مذہبی و سیاسی حقوق کی بحالی اور دستور کی بالادستی و عملداری کے لیے یہ بہرحال ناگزیر ہے۔