آج ہمارا یوم آزادی ہے، ۱۴ اگست کو ہمیں برطانوی استعمار کی غلامی سے آزادی ملی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی خودمختار نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس لیے یہ دوہری خوشی کا دن ہے چنانچہ اس روز پاکستانی عوام ملک بھر میں بلکہ دنیا میں جہاں بھی وہ آباد ہیں، آزادی اور نئے وطن کی خوشی میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے ماضی قدیم کی ایک تحریک آزادی کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے اور جس کی قیادت حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے فرمائی تھی۔
بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں جو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس فلسطین سے مصر آ گئے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی حکومت و بادشاہت کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ یہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے، انہیں باقاعدہ منڈی سے خریدا گیا تھا مگر وہ غلامی اور قید و بند کے مراحل سے گزر کر مصر کی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کے خاندان کی حکومت کئی نسلوں تک چلتی رہی۔
یہ اللہ تعالٰی کا تکوینی نظام ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کو ہمیشہ اقتدار پر نہیں رہنے دیتا اور توازن تبدیل کرتا رہتا ہے، جسے قرآن کریم نے ’’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ بنی اسرائیل کی کئی نسلوں تک مصر پر بادشاہت کے بعد حالات نے پلٹا کھایا، آل فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور بنی اسرائیل غلام ہو گئے۔ ان کی یہ غلامی اور مظلومیت کئی نسلوں تک جاری رہی۔ فطری بات ہے کہ نئے حکمرانوں نے جن سے حکومت چھینی ہو ان کے جبر و تشدد کا نشانہ سب سے زیادہ وہی بنتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایک عرصہ تک یہی کچھ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالٰی نے ان کی ہدایت اور آزادی کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، ان دونوں بھائیوں کو جب نبوت و رسالت دے کر اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل اور آل فرعون کی طرف بھیجا تو توحید و بندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کی دعوت و پیغام کا حصہ تھا کہ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘۔ اس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو آزادی کے ساتھ ان کے وطن جانے دے اور غلامی کے عذاب سے نجات دے۔ گویا اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد بھی دو نبیوں کے اہداف میں شامل تھی اور اس کے لیے انہیں فرعون کے ساتھ طویل کشمکش سے گزرنا پڑا۔
پھر اللہ تعالٰی نے فرعون کو لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرق کیا اور بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا کے آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ اپنا وطن فلسطین آزاد کرانے کے لیے وہاں پر قابض قوم کے خلاف جہاد کرو۔ بنی اسرائیل نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس پر اللہ تعالٰی نے فلسطین میں بنی اسرائیل کا داخلہ چالیس سال تک حرام قرار دے دیا۔ اس دوران حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ انتقال فرما گئے اور ان کی جگہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قیادت سنبھالی، ان کی قیادت میں جہاد کر کے بنی اسرائیل نے فلسطین آزاد کرایا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوئی جو کئی نسلوں تک قائم رہی۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ صرف آزادی قوم کی اصل منزل نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں آزاد ریاست کا قیام اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی بھی اہل دین کی آزادی کے مقاصد میں شامل ہوتی ہے۔
اسی طرح ہمارے بزرگوں نے دینی جذبہ کے ساتھ جنوبی ایشیا کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت کے دو سو سالہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے آزادی کی جنگیں لڑیں۔ نواب سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطان شہیدؒ سے لے کر شہدائے بالاکوٹ تک، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ کی فرائضی تحریک، پنجاب میں رائے احمد خان کھرلؒ کی جدوجہد، سرحد میں فقیر ایپیؒ اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ کی تحریکات، ۱۸۵۷ء کا معرکہ آزادی اور حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال اسی تناظر اور تسلسل کی تحریکات ہیں۔ جن کے بعد تحریک خلافت اور دیگر پر اَمن سیاسی تحریکات کا دور شروع ہوا اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکات کے تسلسل نے انگریزوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان انگریزوں کے براہ راست تسلط سے آزاد ہوا اور وطن عزیز پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا یوم آزادی ہم ایک بار پھر کل چودہ اگست کو منا رہے ہیں۔
ہماری غلامی کا آغاز تجارت کے عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرونفوذ کے فروغ کے ذریعے ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے پورے جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کا تسلط قائم ہونے تک جا پہنچا۔ آج پھر تجارت کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مغرب و مشرق دونوں طرف سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں بلکہ ہماری روزمرہ زندگی ان کی پراڈکٹس اور سروسز کے سہارے چل رہی ہے، اور عالمی معاہدات اور اداروں کے ذریعے بیرونی تسلط کا ایک نیا دور مسلط ہوتا نظر آ رہا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ جس طرح آزادی کے حصول کے لیے دو سو سال محنت کی گئی تھی اور حضرات علماء کرام نے اس کی قیادت و راہنمائی کی تھی، اسی طرح آزادی کے تحفظ، غیر ملکی مداخلت کی روک تھام اور قومی خودمختاری کی بحالی کی ہمہ گیر منظم جدوجہد کا مرحلہ پھر ہمارے سامنے آگیا ہے جو قومی تقاضہ ہونے کے ساتھ ملی و دینی فریضہ بھی ہے اور اس میں علماء کرام، صوفیاء عظام اور دینی راہنماؤں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔