جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان ۱۵ اکتوبر ہفتہ کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں قومی سطح کی ایک تقریب کا اہتمام کر رہی ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس پر جے ٹی آئی کی قیادت تبریک و تشکر کی مستحق ہے۔
مولانا مفتی محمودؒ کو ہم سے رخصت ہوئے چار عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ان کی نہ صرف یاد دلوں میں تازہ ہے بلکہ مسلسل دگرگوں حالات میں ان کے کردار اور فکر کی ضرورت کا احساس بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اور جب قوم مسائل کے سمندر میں کسی نئے طوفان سے دوچار ہوتی ہے تو میرے جیسے کارکنوں کی نگاہیں مولانا مفتی محمودؒ کی جھلک دیکھنے کے لیے بے چین ہو کر رہ جاتی ہیں۔ مجھے حضرت مفتی صاحبؒ کے ساتھ ایک کارکن اور رفیق کار کے طور پر کئی سال گزارنے کا موقع ملا ہے جو میری جماعتی اور تحریکی زندگی کا حاصل ہے، اس لیے ایسے مواقع پر اپنی بے چینی کو کوئی عنوان دینے کے لیے میسر الفاظ اور محاوروں کو کوتاہ پا کر ہاتھ بے ساختہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ مفتی صاحبؒ کے درجات جنت میں بلند سے بلند فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
حضرت مفتی صاحبؒ کی شخصیت اور کردار کے حوالے سے میرے متعدد مضامین وقتاً فوقتاً شائع ہوئے ہیں جن کا مجموعہ ان کے ایک شیدائی حافظ خرم شہزاد نے مرتب کر کے احباب کی خدمت میں پیش کر دیا ہے، جس کے حصول لیے موصوف سے فون ۰۳۳۳۸۲۱۴۹۸۱ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
حضرت مفتی صاحبؒ کی جدوجہد کا پہلا میدان تو علمی تھا کہ انہوں نے ایک محدث اور مفتی کے طور پر افراد، طبقات اور قوم کو درپیش مسائل میں مسلسل راہنمائی کی۔ وہ روایت اور درایت کا حسین امتزاج تھے اور احکامِ شریعت کی حالات کے تقاضوں کے مطابق شرعی اصولوں کے دائرے میں تطبیق و تشریح کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ وہ درس و تدریس میں عصری مسائل کی طرف طلبہ کو توجہ دلاتے تھے اور ان کے حل کے لیے راہنمائی کرتے تھے، اور مختلف قومی مسائل پر ان کی مجتہدانہ آرا نے اہلِ علم کے ہاں پذیرائی حاصل کی ہے۔
مفتی صاحبؒ کی محنت و کاوش کا دوسرا بڑا میدان قومی سیاست تھا جس میں وہ اپنے اکابر بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی روایات کے امین تھے۔ وہ ملک میں نفاذِ شریعتِ اسلامیہ کے صرف داعی نہیں تھے بلکہ احکامِ شرعیہ کی تعبیر و تشریح اور جدید ذہن کے اشکالات و سوالات کے تسلی بخش جواب میں بھی ملک کی سرفہرست شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ جدید فکر و فلسفہ نے اسلامی قوانین و احکام کے حوالہ سے شکوک و شبہات کا جو وسیع جال پھیلا رکھا ہے، مفتی صاحبؒ اس کے تاروپود کو مہارت کے ساتھ بکھیر دینے میں یدِ طولٰی رکھتے تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس نئے ملک کے لیے دستور سازی سب سے اہم مرحلہ تھا جس پر ہمیشہ کے لیے قومی زندگی اور ریاستی کردار کا دارومدار تھا۔ اس میدان میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے بعد جن شخصیات نے سب سے زیادہ متحرک اور اہم کردار ادا کیا ان میں مولانا مفتی محمودؒ کو سرخیل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بالخصوص ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل اور عقیدہ ختم نبوت کے دستوری تحفظ میں ان کا قائدانہ کردار قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
مفتی صاحبؒ کو اپنی متحرک تحریکی زندگی میں فکری اور نظریاتی فتنوں کا بھی مسلسل سامنا تھا جن میں انکارِ ختمِ نبوت، انکارِ حجیتِ حدیث، اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حجت و معیارِ حق ہونے کے حوالہ سے مباحث شامل تھے۔ انہوں نے اس محاذ پر بھی قوم اور علماء کرام کی بھرپور راہنمائی اور قیادت کی اور تعبیرِ دین کے روایتی و اجماعی تعامل کے دائروں کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔
وطنِ عزیز کی سالمیت و استحکام کا محاذ ان کی ترجیحات میں سرفہرست تھا اور عالمی و علاقائی خطرات سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنے میں ان کی سوچ اور محنت کا رخ ہمیشہ واضح رہا۔ افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے بعد سب سے پہلے انہوں نے ہی اسے بلوچستان کے ساحلوں تک سوویت یونین کی رسائی کی مہم قرار دے کر افغان مجاہدین کی مزاحمت کو پاکستان کے دفاع کی جنگ سے تعبیر کیا، اور جہادِ افغانستان کی نہ صرف کھل کر حمایت کی بلکہ عملی پشت پناہی میں بھی وہ تا دمِ آخر متحرک رہے۔ اس پس منظر میں سوویت یونین کی پسپائی کے بعد جب انہی مقاصد اور ایجنڈے کے لیے امریکی اتحاد اور مغربی استعمار کا مکروہ کھیل سامنے آیا ہے تو امارت ِاسلامی افغانستان کی جنگ اور تگ و دو اس خطے میں امریکی کیمپ کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کا راستہ روکنے کے لیے جو کردار ادا کر رہی ہے اس کی اسی سطح پر اور اسی لہجے میں حمایت و امداد کرنے کی ضرورت ہے جس طرح بلوچستان کے ساحلوں کو سوویت یونین کی رسائی سے محفوظ رکھنے کے لیے مولانا مفتی محمودؒ نے جہادِ افغانستان کی دوٹوک حمایت کی تھی۔
مولانا مفتی محمودؒ ایک عابد شب زندہ دار بھی تھے، بھرپور تحریکی دور میں عوامی جلسوں میں شرکت کے بعد نصف شب کے بعد کا کچھ وقت مصلّے پر گزارنے کے معمول کا میں خود گواہ ہوں۔ وہ صاحبِ نسبت بزرگ تھے اور سلوک و تصوف کے پیچیدہ مسائل پر ان کی گفتگو سن کر بہت سے اشکالات ذہن سے خود بخود غائب ہو جایا کرتے تھے۔
آج جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے نوجوان مولانا مفتی محمودؒ کی یاد میں ان کی دینی، علمی، سیاسی اور فکری تگ و تاز تک نئی نسل کو رسائی مہیا کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں تو بہت خوشی کی بات ہے، میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ان نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے اسی طرح وابستہ رکھے اور ان کی قومی و دینی جدوجہد کا تسلسل قائم رکھنے میں بھرپور کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔