بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ مدرسہ حضرت ابی بن کعبؓ کے نام پر ہے، ان کا کچھ تعارف کروانا چاہوں گا۔ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ امت کے سب سے بڑے قاری ہیں، ان کو امت کا سب سے بڑا قاری جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ حضورؐ نے چند بڑے قاریوں کا ذکر فرمایا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سالم مولیٰ حذیفہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کا بطور خاص ذکر کیا، اور فرمایا ’’اقرأھم اُبی‘‘ کہ میرے ساتھیوں میں سب سے بڑا قاری اُبی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دن نبی کریمؐ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو بلایا اور فرمایا ابی! حضرت جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آئے تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اُبی کو بلا کر انہیں قرآن سنائیں۔ حضورؐ سب کو قرآن مجید سناتے تھے، لیکن بطور خاص حضرت ابی ابن کعبؓ کے بارے میں فرمایا کہ انہیں قرآن سنائیں۔ حضرت ابی ابن کعبؓ تعجب سے پوچھتے ہیں ’’أسمانی اللہ تعالٰی‘‘ کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر کہا؟ آپؐ نے فرمایا ہاں! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام لے کر کہا ہے کہ اُبی کو قرآن سناؤ اور سورت بھی بتائی ہے کہ کون سی سورت سناؤں۔ سورۃ البینہ سنانے کا حکم فرمایا ہے۔ وہ کیسا منظر ہوگا، حضرت ابی ابن کعب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے کہنے پر انہیں سورۃ البینۃ سنا رہے ہیں۔ یہ امت کے سب سے بڑے قاری کے اعزازات میں سے ایک اعزاز ہے۔
میں حافظِ قرآن بچوں سے ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حفظِ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سعادت ہے۔ جب حفظ کر لیتے ہیں تو بچہ سمجھتا ہے کہ میں نے قرآن مجید یاد کر لیا ہے، لیکن میں اس میں تھوڑا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ آپ نے قرآن مجید حفظ کیا ہے، لیکن اگر میں کہوں کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی حفظ میں شریک ہیں، اس میں آپ اکیلے نہیں ہیں، تو غلط نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے تو آپ کے حفظ کرنے میں ماں باپ کا حصہ ہے، والدین نے آپ کو حفظ کروایا ہے تو آپ نے حفظ کیا ہے، اگر وہ آپ کو حفظ نہ کرواتے تو آپ حفظ نہ کر سکتے۔ دوسرے نمبر پر آپ کے حفظ میں آپ کے ساتھ آپ کے استاد شریک ہیں جنہوں نے آپ کو پڑھایا ہے، اگر آپ کو کوئی استاد نہ ملتا تب بھی آپ کے لیے حفظ ممکن نہیں تھا۔ تیسرے نمبر پر مدرسہ کے منتظمین ہیں جنہوں نے حفظ کا انتظام کیا، جگہ بنائی، نظم بنایا۔ اگر یہ سسٹم اور نیٹ ورک نہ ہوتا تب بھی آپ کے لیے حفظ کرنا مشکل تھا۔ چوتھے نمبر پر آپ کے حفظ میں معاونین کا حصہ ہے جنہوں نے مدرسہ کے ساتھ تعاون کیا تو آپ کے لیے حفظ ممکن ہوا۔ اس لیے میں بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتا ہوں کہ حفظ میں آپ کا نمبر پانچواں ہے۔
یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی نعمت ملے تو اسے یاد رکھنا چاہیے۔ جس کی وجہ سے اچھی نوکری یا اچھا بزنس مل جائے تو وہ یاد رہتا ہے، کسی کی وجہ سے کوٹھی، منصب یا کوئی بھی نعمت ملے تو وہ یاد رہتا ہے اور یاد رہنا بھی چاہیے۔ تو جن کی وجہ سے قرآن عظیم کی نعمت ملی ہے وہ بھی یاد رہنے چاہئیں۔ آپ کو ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ ہمارے حافظ بننے کے اعزاز میں یہ سب ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ جب یہ یاد ہوں گے تو آپ ان کے لیے دعا بھی کریں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں حافظ قرآن کو ملنے والے بہت سے اعزازات بیان ہوئے ہیں، ان میں سے ایک اعزاز کا ذکر کرتا ہوں۔ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ باقی لوگوں کو تو الاٹمنٹ عطا کریں گے کہ تمہارا وہ مکان ہے، کوٹھی ہے۔ جبکہ حافظِ قرآن کو کہیں گے کہ تم قرآن مجید پڑھتے جاؤ اور جنت کی منزلیں طے کرتے جاؤ، جہاں ’’من الجنۃ والناس‘‘ پر پہنچو گے وہاں تمہارا ٹھکانا ہوگا۔ یعنی یہ حافظ کی اپنی ہمت پر ہوگا کہ وہ کہاں تک جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نصیب میں فرمائیں۔
تیسری بات یہ کہ آپ نے قرآن مجید حفظ کیا ہے، لیکن یہ یاد کیا ہوا ساتھ لے کر جائیں گے تو آخرت میں پڑھ سکیں گے، اگر یہیں بھول گئے تو وہاں کیسے پڑھیں گے۔ آپ کو قرآن مجید یاد کرنے میں دو تین سال لگے ہوں گے، لیکن یاد رکھنے کے لیے پانچ سال یا دس، پندرہ سال بھی ناکافی ہیں بلکہ اس وقت تک یاد رکھنا ہے جب ہم بارڈر کراس کر کے اگلے جہان منتقل ہو رہے ہوں گے۔اور یاد کرنے کے لیے تو آپ نے محنت کی، سبق سنایا، سبقی سنائی، پارہ سنایا، منزل سنائی، دہرائی کی، لیکن یاد رکھنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ اس کے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا، اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔
یہ سیالکوٹ کا علاقہ پہلوانوں کا کہلاتا ہے۔ پہلوان بننے کے لیے اکھاڑا، ورزش، تیل لگانا اور کشتی کرنا لازمی امور ہیں۔ ڈیڑھ دو سال کی ورزش سے آدمی پہلوان بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس نے دو تین کُشتیاں جیت لیں تو اسے اعزاز اور ٹائٹل مل گیا رستمِ سیالکوٹ، رستم گوجرانوالہ وغیرہ۔ لیکن اب اسے پہلوان رہنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ پہلوان رہنے کے لیے اکھاڑے کو وقت دینا پڑے گا۔ اگر پہلوان اکھاڑے کو وقت نہیں دے گا تو وہ سب کچھ بن سکتا ہے لیکن پہلوان نہیں رہ سکتا۔ پہلوان رہنے کے لیے اکھاڑے کو وقت دینا پڑے گا یا گھر کے ایک کونے میں اکھاڑا بنانا پڑے گا۔
اسی طرح حافظ بننے کے لیے تو دو تین سال کی محنت کافی تھی، لیکن حافظ رہنے کے لیے قرآن مجید کے ساتھ اتنا تعلق ضروری ہے کہ روزانہ آدھ پون گھنٹہ قرآن مجید سننے سنانے کا اہتمام کریں۔ اگر قرآن مجید پڑھنے سننے کا معمول نہیں رہے گا، دوسرے لفظوں میں اگر پڑھنے سننے کی ورزش نہیں رہے گی تو حافظ نہیں رہیں گے۔
اس کے بعد ایک بات آپ سب حضرات سے کہنا چاہوں گا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہےجو بہت کچھ دیتا ہے، ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ قرآن مجید دنیا اور آخرت میں کیا کچھ دیتا ہے۔ آخرت میں تو حافظ قرآن کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا، اور بھی بہت سے اعزازات ہیں جو آخرت میں ملیں گے،لیکن قرآن مجید سے اس دنیا میں بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ قرآن مجید پڑھنے سننے سے نقد کیا فائدہ ہوتا ہے؟
پہلی بات یہ ہے کہ آج کل ہماری ایک عام شکایت ہوتی ہے جہاں کہیں بوڑھے بیٹھتے ہیں تو آپس میں یہ بات کہتے ہیں کہ اب پہلے زمانے والی بات نہیں رہی، پہلے والا پیار، برکت، محبت اور آپس کا اعتماد نہیں رہا۔ دنیا پروفیشنل ہو گئی ہے، آج تیس چالیس سال پہلے والا ماحول نہیں ہے، پہلے والی برکتیں نہیں رہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے برکتیں تھیں جو اَب نہیں ہیں۔ پہلے والی محبت اور بھروسہ، اعتماد نہیں رہا ۔تو سوچنا چاہیے کہ یہ برکتیں، رحمتیں آتی کہاں سے ہیں؟ برکتوں اور رحمتوں کا اپنا نیٹ ورک ہے۔ بجلی چاہیے تو واپڈا سے بات کریں گے، گیس چاہیے تو سوئی گیس والوں سے بات کریں گے، تو کیا برکتیں ویسے ہی پھر رہی ہیں کہ ہم پکڑ لیں گے؟ ان کا کوئی نیٹ ورک اور پروسیجر نہیں ہے؟ جب کہیں برکتیں حاصل ہوتی ہیں تو ہم یہ جملہ بولتے ہیں کہ رحمتوں کا فرشتہ آیا تھا، گویا رحمتوں اور برکتوں کا محکمہ فرشتے ہیں، فرشتے یہ چیزیں لے کر آتے ہیں، محبت ، اعتماد تقسیم کرتے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم نے اپنے گھروں کا ماحول فرشتوں کے آنے جانے کا رہنے دیا ہے کہ وہاں فرشتے آئیں؟ ہم نے اپنے شب و روز، اپنے اعمال، اپنا روٹین ورک اور گھر کا ماحول فرشتوں کے آنے جانے کا رکھا ہوا ہے تو فرشتے آئیں گے ورنہ نہیں آئیں گے۔ سادہ سی مثال ہے کہ اگر گھر صاف ستھرا ہے، صحن میں پھولوں کی کیاری لگی ہوئی ہے، تو وہاں بلبل، کوئل اور جگنو آئیں گے۔ اور اگر گھر صاف نہیں ہے، کوڑے کا ڈھیر لگا ہوا ہے تو وہاں کا کروچ، مکھیاں اور مچھر آئیں گے۔ ان دونوں کو کسی نے بھیجا نہیں ہے بلکہ ان کو ہم نے خود اپنے گھر بلایا ہے۔ گھر میں بلبل اور جگنو کا ماحول ہوگا تو وہ آئیں گے اور اگر گھر میں مینڈک کا ماحول ہوگا تو وہ آئے گا۔ یہ دیکھنا ہمارا کام ہے کہ ہمارے گھر کا ماحول فرشتوں کے آنے جانے کا ہے یا کسی اور مخلوق کے آنے جانے کا ہے؟ اگر ہم نے فرشتوں کے آنے کا ماحول نہیں بنایا تو دوسری مخلوقات آئیں گی، پھر ہم گلہ کرتے ہیں کہ پہلے والا ماحول نہیں رہا۔
فرشتے کس بات پر گھروں میں آتے ہیں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ارشادات ذکر کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کا ماحول اور معمول نہیں ہے تو وہ اجڑا ہوا گھر ہے۔ پرانے زمانے میں گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت کا معمول ہوتا تھا جو اَب ختم ہو چکا ہے۔ اگر کوئی گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو وہاں فرشتے آئیں گے ورنہ اجڑا ہوا گھر ہے ’’کالبیت الخرب‘‘ چاہے کتنی شاندار کوٹھی کیوں نہ ہو ۔
حضور نبی کریمؐ کا دوسرا ارشاد گرامی ہے ’’اجعلوا من صلاتکم فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورا‘‘ کہ اپنی نمازوں کا کچھ حصہ گھر کے لیے بھی رکھو یعنی گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو اور گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر گھر میں نماز کا ماحول ہو تو برکت ہوتی ہے، زندگی اور حیات ہوتی ہے، لیکن اگر گھر میں نماز کا ماحول نہ ہو تو وہ قبرستان ہوتا ہے۔ نماز، قرآن مجید کی تلاوت، ذکر الٰہی، درود شریف، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے اور نبی کریمؐ کے صحابہ کرامؓ کے تذکرے پر فرشتے آتے ہیں۔ اگر ہم فرشتوں کے آنے جانے کا نیٹ ورک بنائیں گے، کنکشن قائم کریں گے تو وہ آئیں گے۔ یہ ہماری نقد ضرورت ہے کہ گھر میں برکت چاہیے، رحمتیں، دلوں کا سکون، آپس کی محبت اور اعتماد ،پیار چاہیے تو یہ چیزیں قرآن مجید کی تلاوت سے ملیں گی۔ اس لیے ہمیں فرشتوں کے ساتھ دوستی قائم کرنا ہوگی، ہمیں اپنا ماحول اور معمولات ایسے بنانے ہوں گے کہ رحمت کے فرشتوں کے ساتھ ہمارا رابطہ دوبارہ بحال ہو جائے۔
قرآن مجید سے دوسرا نقد فائدہ کیا ملتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل کے حوالے سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں کہا ’’ولوا انھم اقاموا التورٰۃ والانجیل وما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم‘‘ کہ اگر وہ تورات اور انجیل کو نافذ کر لیتے، اپنے زندگی کا نظام تورات اور انجیل کے مطابق بنا لیتے تو آسمان بھی رزق برساتا اور زمین بھی رزق اگلتی۔ یہ برکتوں اور رزق کا کوڈ ہے۔ اپنے اپنے زمانے میں تورات اور انجیل تھیں، اب قرآن مجید ہے۔ اگر تورات اور انجیل اپنے زمانے میں برکتوں، رحمتوں، رزق اور معاشی بہتری کا کوڈ تھا تو آج قرآن مجید اس کا کوڈ ہے۔ اگر یہ نافذ ہوگا تو رزق، رحمتیں اور برکتیں ملیں گی۔ اس پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
بخاری شریف کی روایت ہے، حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ مسجد نبویؐ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، صحابہ کرامؓ کی مجلس لگی ہوئی تھی، میں بھی بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا، سلام عرض کر کے بیٹھ گیا اور کہا یا رسول اللہ! میں جس علاقے سے آیا ہوں اس علاقے میں چوریاں، ڈکیتیاں بہت ہوتی ہیں ، قتل بہت ہوتے ہیں، جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ تھوڑی دیر گزری کہ ایک اور شخص آیا اور سلام عرض کر کے کہنے لگا یا رسول اللہ! میں جس علاقے سے آیا ہوں وہاں خشک سالی بہت ہے، کافی عرصہ سے بارش نہیں ہوئی، غلّہ نہیں ہے، کنویں گہرے ہو گئے ہیں، پانی خشک ہو گیا ہے، لوگوں پر بھوک طاری ہے ، کھانے کو کچھ نہیں ملتا، فاقہ ہے، بہت برا حال ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آنے والوں سے تو کچھ نہیں کہا، البتہ حضرت عدیؓ کو مخاطب کر کے فرمایا، عدی! تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ حیرہ اس دور میں ایک شہر تھا جو اَب کوفہ کا کوئی محلہ ہوگا۔ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ! حیرہ دیکھا تو نہیں البتہ سنا ہے کہ بڑا مشہور شہر اور بڑا بارونق علاقہ ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا، عدی! اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں لمبی عمر دی تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے کہ حیرہ سے ایک خاتون چلے گی، اونٹ کے کجاوے میں بیٹھی ہوئی، سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی، تنہا مکہ آئے گی۔ اور مکہ سے چلے گی ،تنہا حیرہ جائے گی، آتے جاتے پورے راستے میں اسے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا ۔ حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات سن کر تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہوگا؟ اس دور میں یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم بھی راستہ میں ہیں، جب وہ عورت ہمارے علاقے سے گزرے گی تو ہمارے علاقے کے ڈاکو لٹیرے کہاں ہوں گے کہ وہ اطمینان سے سفر کر لے گی؟ لیکن سوال میرے ذہن میں گھومتا رہا، میں نے پوچھا نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بات ارشاد فرما دی کہ عدی! اگر تم نے کچھ اور عمر پائی تو تم ایک اور منظر دیکھو گے کہ کسرٰی کے خزانے فتح ہوں گے، مدینہ میں آئیں گے اور یہاں تقسیم ہوں گے۔ کسرٰی اس زمانے کی ایک سپر پاور کا حکمران تھا۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ یہ بات بھی بڑی تعجب کی تھی، میں نے پہلا سوال تو نہیں کیا، یہ سوال کر دیا کہ یا رسول اللہ! وہ ہرمز کا بیٹا کسرٰی، فارس کا بادشاہ، آپ اس کی بات کر رہے ہیں؟ حضورؐ نے بڑے اطمینان سے سر ہلایا، کہ ہاں وہی کسرٰی بن ہرمز۔ عدی کہتے ہیں کہ میرا دماغ گھوم رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا، لیکن ایمان تھا کہ حضورؐ فرما رہے ہیں تو ایسا ہو کر رہے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بات ارشاد فرما دی کہ عدی! اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور تھوڑی لمبی عمر دی تو تم ایک منظر اور دیکھو گے کہ تم لوگ ہاتھوں میں سونا چاندی اٹھا کر بازاروں اور منڈیوں میں جا کر آواز دو گے کہ یہ میری زکوٰۃ ہے، میرے محلے، میری برادری میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہا، کوئی زکوٰۃ کا مستحق میری آواز سن رہا ہو تو خدا کے لیے مجھ سے زکوٰۃ وصول کر لے اور مجھے فارغ کر دے۔
محدثین فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ باتیں ارشاد فرمائیں تو ان دونوں آنے والوں کو جواب دیا تھا اور ان کے مسائل کا حل بتایا تھا کہ جو سسٹم میں دے رہا ہوں اس کو نافذ کر کے دیکھو۔ اس درجے کا امن ہوگا کہ کوفہ سے عورت تنہا چلے گی اور مکہ تک اسے کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔ اور اس درجے کی خوشحالی ہوگی کہ تم ہاتھوں میں سونا چاندی اٹھا کر ڈھونڈتے پھرو گے، تمہیں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔
یہ واقعہ تو حضورؐ کے زمانے کا ہے۔ حضرت عدیؓ جب یہ روایت بیان کر رہے ہیں تو وہ حضرت عمرؓ کا زمانہ ہے۔ دس پندرہ سال کے بعد بیان کر رہے ہوں گے۔ کہتے ہیں ، حضورؐ نے جو تین باتیں ارشاد فرمائی تھیں ان میں سے دو باتیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، اور تیسری کے انتظار میں ہوں جیسے رات کو صبح کے سورج کا انتظار ہوتا ہے۔ حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے کوئی تمثیل نہیں بیان کی تھی بلکہ پیشگوئی فرمائی تھی۔ میں نے ایک خاتون کو حیرہ سے مکہ جاتے ہوئے اور مکہ سے واپس آتے ہوئے دیکھا ہے، وہ سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی تھی، کجاوہ سامان سے بھرا ہوا تھا، وہ بڑے امن اور اطمینان سے گئی اور امن کے ساتھ واپس گئی۔ پورے راستے میں کہیں بھی اس کو خدشہ نہیں ہوا کہ کوئی مجھے قتل کر دے گا، یا کوئی زیور لے لے گا، یا کوئی میری عزت لوٹ لے گا، میں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ حضرت عدیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کسرٰی کے خزانے بھی فتح ہوتے دیکھے ہیں، مدینہ میں آتے اور تقسیم ہوتے دیکھے ہیں، بلکہ فتح کرنے والوں اور اٹھا کر لانے والوں میں، میں خود بھی شامل تھا۔
تیسری بات بھی ذکر کر دوں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانے کا واقعہ کتاب الاموال میں امام ابو عبیدؒ نے لکھا ہے۔ سو سال بعد کی بات ہے ۱۰۱ھ میں آپؒ امیر المومنین تھے، دمشق میں بیٹھتے تھے۔ عراق کے گورنر عبد الحمید نے آپ کو خط لکھا کہ امیرالمؤمنین! میرے صوبے سے اس سال جو زکوٰۃ، عشر، خیرات وغیرہ وصول ہوئے، سال بھر کا بجٹ اور خرچے پورے کر کے کچھ رقم بچ گئی ہے، فاضل بجٹ ہے، اس کا کیا کرنا ہے؟ امیر المؤمنینؒ نے جواب لکھا کہ صوبے میں اعلان کرو کہ اگر کوئی مقروض اپنا قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس رقم سے اس کا قرض ادا کر دو۔ انہوں نے جواب لکھا کہ امیر المومنین! میں یہ کام کر چکا ہوں۔ امیر المومنین نے دوسرا خط لکھا کہ آپ کے صوبے میں جو لڑکیاں لڑکے جوان ہیں اور ان کے والدین ان کی شادی کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تو اس رقم سے ان کی شادیاں کروا دو۔ انہوں نے جواب لکھا کہ میں یہ بھی کر چکا ہوں۔ امیر المومنین نے تیسرا خط لکھا کہ جن خاوندوں نے ابھی تک اپنی بیویوں کو مہر نہیں دیے اور مہر ادا کرنے میں کوئی دقت ہے تو ان خاوندوں کے مہر ادا کر دو۔
میں درمیان میں ایک جملہ کہتا ہوں کہ ہم تو کبھی مہر ادا کرنے کے پوزیشن میں ہوئے ہی نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرتی ماحول یہ ہے کہ بیوی کو مہر نہیں دینا، بیٹی کو وراثت نہیں دینی اور بہن کو حصہ نہیں دینا۔ اس پر ایک روایت ذکر کر دوں۔ ترمذی کی روایت ہے جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا جس نے کسی وارث کو اس کا حصہ ادا نہیں کیا تو قیامت کے دن اس کے حساب میں کٹوتی کر کے پہلے حصہ دلوایا جائے گا، بعد میں حساب کتاب ہوگا۔ میں اس کا ترجمہ اپنی زبان میں یوں کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حصہ میں نے طے کیا ہے تو تم کون ہوتے ہو نہ دینے والے، خود دے دو ورنہ میں دلوا دوں گا۔
امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے گورنر کو چوتھا خط لکھا کہ جو زمینیں خالی پڑی ہیں ان کی پلاٹنگ کرواؤ اور انہیں آباد کرنے کے لیے کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے دے دو۔ یہ قرآن مجید کو نافذ کرنے کی برکت ہے۔
یہ قصہ میں نے ایک جلسے میں سنایا تو ایک نوجوان نے ایک دلچسپ سوال کیا کہ یہ صوبے کا بجٹ تھا یا اٹلانٹک سی تھا؟ صوبے کا بجٹ کتنا تھا کہ جس کے سال بھر کے خرچے بھی پورے ہو رہے ہیں، مقروضوں کے قرض بھی ادا ہو رہے ہیں، بیویوں کے مہر بھی ادا ہو رہے ہیں، لڑکیوں کی شادی بھی ہو رہی ہے اور کسانوں کو قرضے بھی مل رہے ہیں۔ میں نے کہا بیٹا! انہی امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کا ایک اور واقعہ سن لو تو تمھیں بات سمجھ آ جائے گی۔
کتاب الاموال میں واقعہ مذکور ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جو اپنے وقت کی آباد دنیا میں سے کم و بیش ایک تہائی کے حکمران تھے، کسی ایک صوبے کے گورنر نہیں تھے۔ ایک دن شام کو گھر گئے تو بیوی سے پوچھا فاطمہ! تمہارے پاس کوئی ایک دو درہم ہوں گے، ضرورت ہے۔ بیوی نے پوچھا کیا ضرورت پڑ گئی ہے تو فرمایا کہ راستے میں آتے ہوئے ایک ریڑھی پر انگور دیکھے ہیں۔ انگور بڑے اچھے ہیں کھانے کو جی چاہتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ فاطمہؒ نے جواب دیا کہ آپ کی جیب میں پیسے نہیں ہیں تو میری جیب میں کہاں سے آئیں گے۔ پھر ایک بیویوں والا جملہ بھی کہہ دیا کہ ’’آپ امیر المومنین ہیں، ایک درہم کے انگور منگوا کر نہیں کھا سکتے‘‘۔ آج کے دور اس کا ترجمہ یوں بنے گا کہ آپ کے پاس اتنا بھی صوابدیدی فنڈ نہیں ہے کہ ایک درہم کے انگور منگوا کر کھا لیں؟ اس کا جواب سنیے۔ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا فاطمہ! جس درہم کی تم بات کر رہی ہو، وہ درہم نہیں ہے، آگ کا انگارہ ہے۔
میں نے اس نوجوان سے کہا کہ بیٹا! ملک کا حکمران فرد یا حکمران طبقہ یا آج کی زبان میں اشرافیہ اگر سرکاری خزانے کے روپے کو آگ کا انگارہ سمجھیں گے تو پھر سارے کام ہوں گے، بجٹ بھی پورا ہوگا، مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہوں گے، لڑکیوں کی شادیاں بھی ہوں گی، عورتوں کے مہر بھی ادا ہوں گے اور کسانوں کو قرضے بھی ملیں گے۔
یہ میں نے قرآن مجید کی کچھ نقد برکات بیان کی ہیں کہ آخرت میں تو اس سے بہت کچھ ملے گا، دنیا میں بھی قرآن مجید کی برکت سے بہت کچھ ملتا ہے۔ اے کاش کہ ہم سمجھ جائیں، جو اس کو سمجھ گئے تھے انہوں نے اس سے بہت کچھ لے لیا تھا ،ہم سمجھ نہیں پا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا رخ اور ہمارا ٹریک ٹھیک کر دیں اور ہمیں بھی ان برکات سے مالامال فرما دیں۔ آمین۔