اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینی بچوں نے غلیل اور پتھر کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا تو بہت سے لوگوں کو یہ عجیب سی بات لگی۔ ایک طرف گولے اگلتے ہوئے ٹینک تھے، آگ برساتی ہوئی توپیں تھیں، اور تجربہ کار جنگجو نوجوان تھے۔ جبکہ دوسری طرف نہتے معصوم بچے ہاتھوں میں غلیلیں اور پتھر پکڑے ان کے سامنے سینہ تانے کھڑے تھے۔ اور تاریخ نے ایک بار پھر قوتِ ایمانی اور اسلحہ و ہتھیار کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا تھا۔
میری نگاہوں کے سامنے ہزاروں سال پہلے کا ایک منظر گھومنے لگا۔ یہی فلسطین کی سرزمین تھی، دو فوجیں آمنے سامنے تھیں، ایک کی کمان جالوت کر رہا تھا جو وقت کا بہت بڑا جابر اور سفاک حکمران تھا، اور دوسری فوج کی کمان اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے طالوت کے ہاتھ میں تھی۔ جالوت کے پرچم تلے ۸۰ ہزار کا لشکر جرار تھا اور طالوت کی کمان میں صرف ۳۱۳ افراد تھے۔ جالوت طاقت کے نشے میں میدانِ جنگ میں اترا اور آگے بڑھ کر اپنے مد مقابل کسی کو سامنے آنے کا چیلنج کر دیا۔ وہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبا ہوا تھا، مضبوط لوہے کی موٹی چادروں نے اسے چاروں طرف سے ڈھانپ رکھا تھا، آنکھوں کے سامنے دو سوراخوں کے سوا جسم کی اور کوئی جگہ خالی نہیں تھی اور دونوں ہاتھوں میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ اس کے سامنے ایک نوجوان جس کا نام داؤد تھا اور جو بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام کے نام سے نبوت اور سلطنت کا تاجدار بنا، داؤد نوجوان کے جسم پر سادہ لباس تھا اور ہاتھ میں ایک کوپیا اور چھوٹے چھوٹے پتھر تھے۔ کوپیا ایک ڈوری کو کہتے ہیں جسے پتھر کے گرد لپیٹ کر اسے گھما کر نشانے پر پھینکتے ہیں تو وہ چھوٹا سا پتھر آج کی گولی کا کام کرتا ہے۔
دونوں آمنے سامنے کھڑے ہیں، ایک مکمل طور پر بکتر بند لباس میں ملبوس اور ہتھیار بند ہے، اور دوسرے سادہ کپڑوں میں ایک ڈوری اور چند پتھر ہاتھوں میں تھامے ہوئے اپنے حریف کی آنکھوں میں آنکھے ڈالے ہوئے ہں۔ تاریخ دم بخود ہے اور وقت نے سانس روک رکھی ہے مگر یہ مقابلہ چند لمحوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بکتربند کی نظر نے تلوار کا وار کیا جسے پھرتیلے نوجوان داؤد نے اپنی پھرتی سے ضائع کر دیا، پھر داؤد نے ڈوری گھما کر جالوت کی آنکھ کا جو نشانہ لیا تو پلک جھپکتے ہی چھوٹا سا پتھر اس کی آنکھ سے گزر کر دماغ میں گھس گیا اور اپنے تمام تر جاہ و جلال، قوت و اقتدار اور ساز و سامان کے باوجود جالوت کو اس نوجوان پر دوسرے وار کی مہلت نہ مل سکی۔
تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی تھی اور بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے مقابلہ میں پتھر بدست معصوم بچے کھڑے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عقل والوں کی عقل ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور دانشوروں کی دانش خوف کے مارے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی ہے۔ یہاں سے جنون کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جہاں عقل اور دانش کی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں وہاں سے جنون قوموں کی لگام تھام لیتا ہے۔ مجھ سے برطانیہ میں بعض دوستوں نے پوچھا کہ ان فلسطینیوں کا کیا ہو گا؟ کیا یہ اس طرح اسرائیل کو شکست دے سکیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ قومیں جب آزادی کی جنگ لڑتی ہیں تو انہیں اس طرح کے دو چار سخت مقامات سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور جو قومیں ان مقامات سے گزرنے کا حوصلہ کر لیتی ہیں وہ آزادی کی حقدار بھی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس لیے ؎ ’’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا‘‘۔
چنانچہ جب گرد بیٹھ رہی ہے اور پیڑیں ٹھنڈی ہو رہی ہیں تو ٹینک اور غلیل کی جنگ کے نتائج بھی رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں۔ آئیے آپ بھی اب تک کے ان نقد نتائج پر ایک نظر ڈال لیجئے:
- اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات کے درمیان ہونے والے مذاکرات ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر واپس چلے گئے ہیں، ان پر وہ دستخط نہیں ہو سکے جن کے لیے امریکہ کی طرف سے یاسر عرفات پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر امریکی وزیر خارجہ مسز میڈیلین البرائٹ نے مذاکرات والے ہال کے دروازے حکماً بند کرا کے یاسر عرفات پر واک آوٹ کا راستہ بھی روک دیا تھا۔ مذاکرات کی تیز رفتاری اور میڈیلین البرائٹ کی چستی اور چابکدستی سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ امریکہ بہادر دو چار روز میں یاسر عرفات سے اس معاہدہ پر دستخط کروا ہی لے گا، جس سے ’’مستقل امن‘‘ کے نام پر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر مشروط بالادستی کی راہ ہموار ہو جائے گی، مگر فلسطینی بچوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر یاسر عرفات کے ہاتھ سے دستخط کرنے والا قلم بھی چھین لیا۔
- ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر پکڑ کر اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے آنے والے معصوم فلسطینی بچوں نے عرب حکمرانوں اور مسلم حکمرانوں کی سوئی ہوئی غیرت کو جگایا۔ چنانچہ انہوں نے دوحہ میں جمع ہونے کا پروگرام بنا لیا۔ مسلم سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا کے لیے قطر کو اسرائیل سے تعلقات ختم کرنا پڑے۔ مسلم سربراہ کانفرنس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے لیے تمام مسلم ممالک پر زور دیا، جس کے تحت مصر اور اردن نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں اور دیگر ممالک بھی ان تعلقات پر نظرثانی کر رہے ہیں۔
- سب سے بڑھ کر سعودی حکومت کے لہجے میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ ولی عہد شہزادہ عبد اللہ جس لب و لہجہ میں بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلہ پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں اس سے شہید شاہ فیصلؒ کی یاد پھر سے تازہ ہونے لگی ہے۔ ابھی گزشتہ روز شہزادہ عبد اللہ نے ریاض میں عرب دانشوروں کے گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم بیت المقدس سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوں گے خواہ اس کے لیے ہمارے بچے بھی ذبح ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے علاقہ میں امن کی خاطر اسرائیل کے بارے میں نرم رویہ اختیار کر لیا تھا مگر اس کا مطلب غلط سمجھا گیا ہے۔ اسرائیل نے انسانیت اور اخلاقیات کی تمام حدود پامال کر دی ہیں اور وہ اپنے رویہ میں کوئی لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے سخت لب و لہجہ میں امریکہ اور یورپی ممالک سے دریافت کیا ہے کہ وہ آخر کب تک اسرائیل کی حمایت کو جاری رکھ سکیں گے؟ شہزادہ عبد اللہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ یہ جنگ سو سال تک جاری رہے تب بھی عرب بیت المقدس سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
- اس کے ساتھ ہی صورتحال میں تبدیلی کے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیجئے کہ مسجد نبویؐ کے ہر دلعزیز امام الشیخ علی عبد الرحمان الحذیفی اپنے منصب پر بحال ہو گئے ہیں۔ انہیں دو سال قبل مسجد نبویؐ میں خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران امریکی پالیسیوں، یہودی تسلط، اسرائیلی مظالم اور مسلم حکمرانوں کے طرز عمل پر تنقید کی وجہ سے اس منصب سے الگ کر دیا گیا تھا۔ مگر وہ دوبارہ اپنے منصب پر واپس آ گئے ہیں اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ بحالی کے بعد عشاء کی نماز پڑھانے کے لیے مسج دنبویؐ میں آئے تو لوگ انہیں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر مبارکباد دینے لگے اور بہت سے افراد فطرِ محبت سے زار و قطار رونے لگ گئے۔
یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ ان فلسطینی بچوں کے خون کی صدائے بازگشت ہی تو ہے جنہوں نے اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر پھینک کر اپنے معصوم سینوں پر گولیاں کھائیں اور اپنے معصوم اور مقدس خون کی قربانی دے کر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ میں آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر زیرلب بڑبڑانے والے دانشوروں سے گزارش کروں گا کہ وہ آنکھوں سے ہاتھ ہٹائیں، آنکھیں کھولیں، ٹینک کے مقابلہ میں غلیل کی جیت کے اس خوشنما منظر کا کھلی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کریں اور ان معصوم فلسطینی بچوں کو سلامِ عقیدت پیش کریں جنہوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی مسلسل حکمتِ عملی کے حالیہ ’’راؤنڈ‘‘ کو ناکام بنا کر رکھ دیا ہے۔