بوڑھے سکھوں کا اظہارِ ندامت

   
مئی ۲۰۰۱ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۰ اپریل ۲۰۰۱ء کے مطابق ننکانہ صاحب اور حسن ابدال میں بیساکھی کے میلے کی تقریبات میں شرکت کے لیے مشرقی پنجاب سے آنے والے معمر سکھ یاتریوں نے ۱۹۴۷ء کے واقعات پر شرمندگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ۱۹۴۷ء کا بٹوارا ہوا تھا اور ہم آج شرمندہ ہیں کہ اس وقت ہم نے ہندوؤں کا ساتھ دیا۔

۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے موقع پر جب پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو مشرقی پنجاب کی سکھ اکثریت نے مسلمانوں کا جس بے دردی کے ساتھ قتلِ عام کیا تھا وہ تاریخ کا ایک ہولناک باب ہے۔ ہزاروں مسلمان شہید کر دیے گئے، لاکھوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، معصوم بچوں کو خنجروں اور نیزوں پر پرو دیا گیا، اور خواتین کی بے حرمتی کے وہ شرمناک مظاہرے ہوئے کہ قلم ان کے بیان سے قاصر ہے۔ یہ سب کچھ ہندوؤں کی شہہ پر ہوا لیکن اب جبکہ ہندو بنیے سے نصف صدی میں سکھوں کو خود بھی کچھ نہیں ملا تو انہیں مسلمانوں پر کیے گئے مظالم یاد آ رہے ہیں اور شرمندگی کے اظہار کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

سکھوں نے اس سے قبل ۱۸۵۷ء کی جنگ میں بھی انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ اور جب مجاہدینِ آزادی کے کمانڈر جنرل بخت خان مرحوم نے انگریزی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے دہلی پر قبضہ کر لیا تھا تو پنجاب کی سکھ حکومت نے تازہ دم فوج بھیج کر جنرل بخت خان سے دہلی کا قبضہ واپس لیا تھا جس سے انگریزوں کا اقتدار پھر سے بحال ہو گیا تھا۔

جہاں تک سکھوں کے سیاسی حقوق اور ان کی جدوجہد کا تعلق ہے ہم اس کے مخالف نہیں ہیں، اور ان کے جائز حقوق اور جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن سکھوں کے اس قومی طرز عمل کو بھول جانا بھی ہمارے بس میں نہیں ہے جو ۱۸۵۷ء اور ۱۹۴۷ء میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اختیار کیا، اور چند بوڑھے سکھوں کی طرف سے ندامت کا اظہار اس کی شدت اور سنگینی میں کمی نہیں کر سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter