عالم اسلام اور تکفیر و قتال کا فتنہ

   
۱۷ فروری ۲۰۱۵ء

عالم اسلام میں باہمی تکفیر اور اس کی بنیاد پر قتل و قتال کی روایت نئی نہیں ہے بلکہ شروع دور سے ہی چلی آرہی ہے۔ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خوارج نے تکفیر کو ہی اپنے امتیاز و تشخص کی علامت بنایا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف قتل و قتال کا بازار گرم کر دیا تھا۔ وہ نہ صرف حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان مصالحت کے لیے حکم اور ثالث کے تقرر کے فیصلے کو کفر قرار دیتے تھے بلکہ کبیرہ گناہ کے مرتکب عام مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر ان کے قتل کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا استدلال بعض قرآنی آیات کے ظاہری بلکہ خود ساختہ مفہوم سے ہوتا تھا اور قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ان کا شغف اتنا عام تھا کہ انہیں قاریوں کا گروہ کہا جانے لگا تھا۔ حتیٰ کہ جب انہوں نے بصرہ پر قبضہ کر کے کم و بیش چھ ہزار افراد کو قتل کر ڈالا تو اسے بصرہ پر قاریوں کے قبضہ سے تعبیر کیا گیا۔ خارجیوں کے معروف کمانڈر ضحاک نے ایک مرحلہ میں کوفہ پر فوج کشی کر کے اس پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور کوفہ کی جامع مسجد میں تلوار لہراتے ہوئے ہزاروں مسلح ساتھیوں سمیت کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیا تھا کہ کوفہ کے سب لوگ باری باری اس کے سامنے آ کر کفر سے توبہ کریں ورنہ وہ بصرہ کی طرح یہاں کے لوگوں کو بھی قتل کر دے گا۔ یہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا حوصلہ و تدبر اور ان کی فراست و حکمت تھی جو ضحاک کمانڈر کے اس مکروہ عزم کی راہ میں حائل ہوگئی ورنہ اس کے ہاتھوں کوفہ میں بصرہ کی تاریخ دہرائے جانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس واقعہ کی تفصیل مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘ میں بیان کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ضحاک خارجی کا سامنا کر کے اس سے دریافت کیا کہ اس نے کوفہ کی عام آبادی کے قتل عام کا یہ حکم کیوں دیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے ہیں اور مرتد کی سزا قتل ہے، اس لیے اگر یہ لوگ توبہ نہیں کریں گے تو میں سب کو قتل کرا دوں گا۔

امام صاحبؒ نے فرمایا کہ مرتد وہ ہوتا ہے جو اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لے، جبکہ کوفہ کے لوگ تو اسی عقیدہ و ایمان پر قائم ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دین اور عقیدہ و ایمان میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس لیے انہیں مرتد قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ضحاک خارجی کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ’’اخطأنا‘‘ کہتے ہوئے نہ صرف اپنی تلوار جھکا لی بلکہ ساتھیوں کو بھی تلواریں جھکانے کا حکم دے دیا، جس سے کوفہ والوں کی جاں بخشی ہوگئی۔ خوارج نے اس دور میں تکفیر اور قتل و قتال کا جو وسیع تر بازار گرم کیا وہ تاریخ کے کئی تلخ ابواب کی صورت میں ہمارے ماضی کا ناخوشگوار حصہ ہے۔

تکفیر و قتال کی اسی روش اور نفسیات کی تازہ لہر نے عالم اسلام کے بہت سے حساس علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس سے عالمی اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھانے کی ایسی منظم منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی دانش کرب و اضطراب کی شدت سے تلملا کر رہ گئی ہے۔ اب سے ربع صدی قبل الجزائر کی اسلامی جماعتوں نے ’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘‘ کے نام سے متحدہ محاذ بنا کر قومی سیاست میں فیصلہ کن قوت حاصل کر لی تھی اور عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں اسی فیصد ووٹ حاصل کر کے عالمی سیکولر قوتوں کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔ مگر اس کی راہ روکنے کے لیے عام انتخابات کی بساط لپیٹ دی گئی، فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور اسلامی قوتوں کو غیر مؤثر بنانے کے لیے جبر و مکر کے تمام ممکنہ حربے استعمال کیے گئے جن میں ایک حربہ یہ بھی تھا کہ اسلامی جماعتوں کے درمیان تکفیر اور خانہ جنگی کی دیواریں کھڑی کی گئیں اور دس سال کے عرصہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ الجزائری شہریوں کی قیمتی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ میں نے فکر و تحقیق کے محاذ پر کام کرنے والے متعدد اداروں اور شخصیات سے بار بار یہ درخواست کی ہے کہ اگر الجزائر میں تکفیر کی بنیاد پر گزشتہ پندرہ سال کے دوران ہونے والے خونریز خانہ جنگی کی مستند اور جامع رپورٹ مرتب کر کے قوم کے سامنے لائی جا سکے تو بہت سے حلقوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوگی۔ مگر بد قسمتی سے تحقیق، مطالعہ، مستند رپورٹنگ اور حقیقی معروضی صورت حال سے آگاہی حاصل کرنے کا ہم میں ذوق ہی نہیں رہا جس کے تلخ نتائج پوری امت کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ خود اپنا حال یہ ہے کہ اسباب و وسائل اور فرصت دونوں حوالوں سے اس قسم کے کام شجر ممنوعہ کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور عملاً چیخنے چلانے اور کڑھنے جلنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتا۔

الجزائر کے بعد مصر و شام اور عراق وغیرہ دیگر ممالک کے ماحول میں اب اسی تجربہ کا اعادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ شام اور عراق میں حکمرانوں کے مسلسل جبر و تشدد کے رد عمل میں منظم ہونے والے گروہوں کو بھی تکفیر اور قتل و قتال کی اسی ڈگر پر چلا دیا گیا ہے اور خوارج کی مخصوص نفسیات کی انتہائی گہری تکنیک کے ساتھ آبیاری کی جا رہی ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے کچھ عرصہ قبل مغرب کی فکری و ثقافتی یلغار کا نشانہ بننے والی نئی نسل کی فکری بے راہ روی کا رونا روتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ردۃ ولا أبابکر لہا‘‘ ارتداد ہر طرف پھیل رہا ہے مگر روکنے کے لیے کوئی ابوبکرؓ موجود نہیں ہے۔ جبکہ آج کا المیہ یہ ہے کہ تکفیر و قتال کا فتنہ عالم اسلام کو لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے مگر وقت کے ضحاکوں کو سمجھانے کے لیے کوئی ابوحنیفہؒ سامنے نہیں آرہا۔ فالی اللّٰہ المشتکی۔

   
2016ء سے
Flag Counter