گزشتہ ہفتے برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں سینٹ میری چرچ کے سربراہ جناب کینن نیل سے ملاقات کا موقع ملا جو نوٹنگھم سٹی کونسل کے لارڈ میئر کے مذہبی مشیر بھی ہیں اور ان کا تعلق چرچ آف انگلینڈ سے ہے۔ ملاقات میں ورلڈ اسلامک فورم کے نومنتخب چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری، جامعہ الہدیٰ کے اسلامک ہوم اسٹڈی کورس کے ڈائریکٹر مولانا اورنگزیب خان، اور ایک نومسلم آئرش بزرگ حاجی عبد الرحمان بھی شامل تھے۔ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ کی ملاقات میں مختلف امور پر گفتگو ہوئی جن میں ایک پہلو کے بارے میں بات چیت کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
راقم الحروف نے پادری موصوف کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کو لاتعلق کر دینے کے تلخ نتائج کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہمارے معاشرہ میں نفسا نفسی کا عالم، خاندانی نظام کی تباہی، جنسی انارکی، اور منشیات کا فروغ مذہب سے اسی لاتعلقی کا نتیجہ ہے، اور ہم اس تیز رفتار گاڑی کی طرح تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہے ہیں جس کی بریکیں فیل ہو گئی ہوں۔
راقم الحروف نے ان سے سوال کیا کہ ایک مذہبی راہنما کے طور پر وہ اس کا کیا حل تجویز کرتے ہیں؟ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ یہی سوال میں آپ سے کرنے والا تھا کیونکہ ہمارے پاس تو اس کا کوئی حل نہیں ہے اور ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ روحانیت جو انسانی سوسائٹی کو اس دلدل سے نجات دلا سکتی ہے، ہمارے ہاں اب اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، البتہ آپ حضرات کے ہاں وہ موجود نظر آتی ہے، اس لیے آپ ہی اس بارے میں ہماری راہنمائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ خدا، مذہب اور آخرت پر یقین رکھنے والے مسلمان اور عیسائی دانشور مل بیٹھیں اور سیاست کاری سے ہٹ کر نسلِ انسانی کی نجات اور فلاح کا راستہ مل جل کر تلاش کریں۔
جناب کینن نیل کے یہ خیالات، جو عیسائی دنیا کے ایک بڑے مذہبی حلقے کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، مسلم علماء اور دانشوروں کے لیے دعوت بھی ہیں اور چیلنج بھی۔ خدا کرے کہ ہم اس کا مثبت جواب دینے کے لیے خود کو بروقت تیار کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔