۶ ستمبر ۲۰۰۱ء کو یومِ دفاع پاکستان کے موقع پر جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گوجرانوالہ میں شہداء کی یاد میں جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا جو گزشتہ کئی سالوں سے اسی تاریخ کو منعقد ہوتا ہے۔ مگر اس سال پہلے جلسہ کی اجازت کی یقین دہانی کرانے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے عین وقت پر جلسہ کی اجازت منسوخ کر دی۔ جس کی وجہ سے جلسہ شیرانوالہ باغ کی بجائے جامع مسجد میں منعقد کرنا پڑا، لیکن بے پناہ ہجوم کی وجہ سے مسجد میں مجمع نہ سما سکا اور لوگ پولیس رکاوٹیں توڑ کر باغ میں داخل ہو گئے۔ اس موقع پر بعض پولیس اہل کاروں کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے عوام اور پولیس میں تصادم بھی ہوا اور پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال بھی کیا۔ جبکہ جلسہ کے بعد مولانا نواز بلوچ، مولانا قاری محمد اکرام اور قاری محمد شریف سمیت پچیس کے لگ بھگ علماء اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا جو اس وقت ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں زیر حراست ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ۶ ستمبر کے مذکورہ جلسہ کے موقع پر جو بدمزگی پیدا ہوئی وہ ضلعی انتظامیہ کی اپنی پالیسی اور اس کے بعض پولیس اہلکاروں کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ تھی، اس لیے اس کا غصہ علماء کرام اور کارکنوں پر نکالنا درست نہیں ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو صورتحال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور گرفتار علماء اور کارکنوں کے خلاف مقدمہ واپس لے کر انہیں جلد از جلد رہا کر دینا چاہیے، کیونکہ انصاف کا تقاضا یہی ہے اور شہر کے امن کو آئندہ برقرار رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔