صدر محترم جناب فاروق احمد خان لغاری نے قومی اسمبلی توڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کر دیا ہے اور جناب ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کر کے تین فروری ۱۹۹۷ء کو انتخاب کرانے کا اعلان کیا ہے۔ ان اقدامات پر عام طور پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کچھ حلقے ناخوش بھی ہیں۔
نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کا تعلق بھی حکمران پارٹی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ قومی اسمبلی کے سپیکر رہ چکے ہیں، مگر ان کی شرافت، دیانت، حب الوطنی اور سادگی کے اوصاف ایسے نمایاں ہیں کہ اقتدار اور سیاسی وابستگی کے آج کے دور کے معروف اثرات سے ابھی تک محفوظ ہیں جو بلاشبہ اس دور میں کرامت سے کم نہیں۔ ملک معراج خالد کے عارضی دورِ حکومت کا آغاز وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کے اقدامات سے ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں منتقلی اور پروٹوکول کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایئر پورٹس پر وی آئی پی لاؤنج ختم کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک صاحب لاہور آئے تو انہوں نے پروٹوکول کے بغیر دو دن گزارے۔ چنبہ ہاؤس میں قیام کیا، بے تکلفی کے ساتھ عام لوگوں سے ملے اور کسی کروفر کا مظاہرہ کیے بغیر اسلام آباد واپس چلے گئے۔ اسلام آباد سے اس حوالے سے ایک اور خوش کن خبر سننے کو ملی کہ وفاقی وزیر جناب جاوید جبار کی صدارت میں سرکاری افسروں کے ایک اجلاس میں دوپہر کے سادہ کھانے کا اہتمام کیا گیا اور ان افسران گرامی کے لیے سیکرٹریٹ کی ایک کنٹین سے دال روٹی تیار کرائی گئی جس پر پانچ سو روپے خرچ ہوئے۔ یہ خبریں اخبارات میں چھپ رہی ہیں اور بہت سے لوگ حیران ہو رہے ہیں کہ کیا ہمارے ملک میں بھی ایسا ہو سکتا ہے؟
دراصل یہ روایات ہمارے لیے اس قدر نامانوس ہو چکی ہیں کہ ان میں خبریت اور تعجب کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے، ورنہ یہ روایات ہماری اپنی متاعِ گم گشتہ ہیں جنہیں اپنا کر دوسری اقوام نے پروٹوکول اور تکلف و تصنع کی مصیبت سے نجات حاصل کر لی ہے مگر ہم اپنی میراث کو پہچاننے کا حوصلہ نہیں کر رہے۔ ہماری عقیدت و محبت کا سب سے بڑا مرکز جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے جن کی حیاتِ مبارکہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ رسولِ خدا اور ہمارے روحانی مقتدا ہونے کے ساتھ ساتھ حاکمِ وقت بھی تھے، اور ریاست کی انتظامی، عدالتی اور عسکری سربراہی کے علاوہ قانون کے نفاذ اور اس کی تشریح و تعبیر کے اختیارات بھی بلاشرکت غیرے انہی کے ہاتھ میں تھے۔ لیکن ان تمام اختیارات کا محور ہونے کے باوجود خود ان کی زندگی اس قدر سادہ اور بے تکلفانہ تھی کہ اس کی دوسری مثال تاریخِ انسانی میں پیش نہیں کی جا سکتی، اور باہر سے آنے والے شخص کے لیے صحابہ کرامؓ کے جلو میں بیٹھے ہوئے جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہری علامات سے الگ طور پر پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا۔
ایک صحابی رسولؐ نے جو دنیا کے مختلف ممالک میں گھوم پھر چکے تھے اور بہت سے بادشاہوں اور سرداروں کے درباروں کا مشاہدہ کر چکے تھے، ایک روز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے بہت سے قبائل کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ اور سردار کے سامنے آتے ہی اس کے احترام میں جھک جاتے ہیں اور تعظیمی سجدہ بجا لاتے ہیں، کیا ہم بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے وقت ایسا ہی کیا کریں؟ ظاہر بات ہے کہ اس صحابیؓ کے وہم و گمان میں شرک کی بات نہیں ہو گی، بلکہ ان کا مقصد صرف پروٹوکول اور درباری آداب کے مطابق تعظیم و احترام کا عملی اظہار تھا، لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اسے قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر اللہ رب العزت کی ذاتِ گرامی کے علاوہ کسی اور کے لیے سجدہ کی گنجائش ہوتی تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
اسی طرح رسول اکرمؐ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ ہم لوگ بیٹھے ہوتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے ہم میں سے ہر ایک کا جی چاہتا کہ ہم نبی اکرمؐ کی تشریف آوری پر ان کے احترام میں کھڑے ہو جائیں، لیکن ہم کھڑے نہیں ہو پاتے تھے اس لیے کہ ہمیں یہ بات معلوم تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں ہے۔
خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمربن الخطابؓ نے تو سرکاری حکام کے لیے باقاعدہ ہدایات جاری کر دی تھیں کہ کوئی شخص ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، باریک لباس نہیں پہنے گا اور اپنے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا۔ یہ باتیں اس دور میں تعیش اور معاشرتی امتیاز کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے دونوں کی نفی کر دی اور ملازمت کے قواعد میں یہ بات شامل کر دی کہ کوئی حکمران یا سرکاری افسر عام لوگوں سے ہٹ کر ان سے ممتاز معیارِ زندگی اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی ان ہدایات پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرتے تھے اور خلاف ورزی پر سزا دیتے تھے۔ ایک گورنر کے بارے میں شکایت ملی کہ انہوں نے اپنے گھر کے دروازے پر ڈیوڑھی بنا رکھی ہے، حضرت عمرؓ نے اپنی پولیس کے انچارج حضرت محمد بن مسلمؓ کو بھیجا کہ جا کر دیکھو، اگر گورنر کے گھر کے دروازے پر ڈیوڑھی موجود ہو تو انہیں بتائے بغیر اسے آگ لگا دو۔ محتسب نے ایسا ہی کیا اور گورنر صاحب کو آگ کا دھواں دیکھ کر پتہ چلا کہ ان کی ڈیوڑھی کو امیر المومنینؓ کے نمائندے نے خاکستر کر دیا ہے۔
صدر سردار فاروق لغاری اور وزیر اعظم ملک معراج خالد نے سادگی اور احتساب کو نگران حکومت کا بنیادی مقصد قرار دیا ہے اور اس کے لیے کوئی احتساب آرڈیننس بھی جاری ہونے والا ہے جو شاید ان سطور کی اشاعت تک جاری ہو چکا ہو، لیکن ہم اس حوالے سے دونوں حضرات کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ آرڈیننس تو جاری ہوتے رہتے ہیں اور انتخابات بھی ہم نے کئی دیکھ لیے ہیں۔ اب قوم کو ان سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی، اب تو سادگی اور احتساب کے لیے عملی اقدامات درکار ہیں اور ان کے لیے سنتِ نبویؐ اور اسوۂ خلفاء راشدینؓ سے بہتر کوئی ضابطہ اور آرڈیننس نہیں ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس صراطِ مستقیم پر ایک بار پھر گامزن ہو سکیں، آمین۔