ساتویں صدی ہجری کے معروف مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاریؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے علمی حلقے میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو عمداً قتل کر دے تو کیا اس کے لیے توبہ کی گنجایش ہے؟ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ نہیں، اس کے لیے توبہ کی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ وہ شخص چلا گیا تو شاگردوں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے عرض کیا کہ ہمیں تو آپ نے مسئلہ اس طرح نہیں بتایا تھا، بلکہ یہ فرمایا تھا کہ قاتل کے لیے بھی توبہ کی گنجایش ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ میں نے اس مسئلہ پوچھنے والے شخص کے چہرے پر غضب کے اثرات دیکھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ کسی شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد سعید بن عبیدہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس شخص کا پیچھا کیا اور تحقیق کی تو پتہ چلا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا اندازہ درست تھا۔ ( تفسیر قرطبی ، سورہ نساء، آیت ۹۳)
اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے ذمہ دار مفتی حضرات اور فقہاء کسی شخص کو مسئلہ بتاتے ہوئے یا کسی ماحول میں مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے شرعی اصولوں کے ساتھ ساتھ اس بات کا لحاظ بھی رکھتے تھے کہ مسئلہ پوچھنے والے کا مقصد کیا ہے اور ان کے فتویٰ کو کس غرض کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یہ واقعہ مجھے محترم جاوید احمد غامدی کا انٹرویو پڑھ کر یاد آیا جو چند روز قبل ”پاکستان“ میں چھپا ہے اور جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ دوپٹہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور اسے شریعت کا حصہ قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ممکن ہے غامدی صاحب محترم یہ فرما دیں کہ میں نے کوئی فتویٰ تو نہیں دیا اور میں تو ریاستی اتھارٹی کے بغیر کسی کے لیے فتویٰ دینے کا استحقاق ہی تسلیم نہیں کرتا، لیکن ان کا یہ ارشاد بجا نہیں ہوگا، کیونکہ کسی چیز کے شرعی یا غیر شرعی ہونے پر حتمی رائے کا اظہار کرنا اور کسی چیز پر جواز یا عدم جواز کا حکم لگانا ہی فتویٰ کہلاتا ہے اور اسے کسی بھی عنوان سے بیان کیا جائے، وہ ہمارے عرف اور تعامل میں فتویٰ ہی سمجھا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے محترم غامدی صاحب کے بعض ’’تفردات‘‘ پر اظہار خیال کیا تو ایک ملاقات میں انہوں نے فرمایا کہ ان کے خیالات معلوم کرنے کے لیے ان کی کتابوں سے رجوع کیا جائے اور اس معاملے میں محض اخباری رپورٹوں پر انحصار نہ کیا جائے، کیونکہ اخبارات کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی بھی بات میں صرف ’’خبریت‘‘ تلاش کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر بات کو آگے پیش کر دیتے ہیں، جس سے بسا اوقات کہنے والے کی بات اس کی منشا کے مطابق نہیں رہتی اور کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔
ان کے اس ارشاد سے میں نے بھی اس وقت اتفاق کیا اور کسی حد تک اب بھی متفق ہوں، لیکن اس کا یہ پہلو بہرحال میرے نزدیک تشنہ ہے کہ ان کی تصانیف سے استفادہ کرنے والوں کا دائرہ محدود ہے، جبکہ اخبارات میں ان کے ارشادات و افکار کا مطالعہ کرنے والوں کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور ہر شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی قومی اخبار میں غامدی صاحب کا کوئی ارشاد پڑھ کر اس میں اجنبیت محسوس کرے تو وہ ان کی کتابوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہو اور اس تحقیق میں لگ جائے کہ انہوں نے اس اخباری بیان یا انٹرویو میں جو کچھ فرمایا ہے یا ان سے منسوب جو کچھ چھپا ہے، وہ وہی کچھ ہے جو ان کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے یا تصانیف میں ان کا موقف ہے اور انٹرویو یا بیان میں ان سے کوئی اور بات منسوب کر دی گئی ہے۔
اس مخمصہ کا ایک حل یہ ہے کہ زبانی انٹرویو ہی نہ دیا جائے۔ جو اخبار یا رسالہ انٹرویو مانگے، اس سے سوالات لے کر تحریری جوابات دیے جائیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ سوالات کے جواب میں گفتگو کرتے ہوئے کم از کم متعلقہ کتابوں کے اہم اقتباسات کا حوالہ بھی دے دیا جائے تاکہ جس کسی کو تردد ہو، وہ ان کتابوں سے رجوع کر کے اپنی تسلی کر سکے، اور تیسرا حل یہ ہے کہ انٹرویو یا بیان شائع ہونے کے بعد، اگر وہ حسب منشا نہ ہو تو اس کی وضاحت شائع کر دی جائے تاکہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہیں ہے تو محترم غامدی صاحب جیسے صاحبِ علم و فضل کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قسم کی خاموشی اور سکوت کو شرعاً اور عرفاً رضامندی ہی سمجھا جاتا ہے۔
اس لیے اس حوالے سے عوامی تاثر کو درست رکھنے کی غرض سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غامدی صاحب محترم کا ”پردہ“ کے بارے میں مذکورہ ارشاد درست نہیں ہے اور اس کے درست نہ ہونے کے ساتھ ساتھ معروضی حالات میں یہ سنگینی بھی اس میں شامل ہو گئی ہے کہ مغربی ثقافت اور کلچر کی ہمہ گیر یلغار کے اس دور میں ان کا فتویٰ بہرحال مسلم اور مشرقی ثقافت اور اس کی اقدار و روایات کے خلاف ہی استعمال ہوگا اور اسی حوالے سے میں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ دینی معاملات پر رائے دینے والے حضرات کو اور خاص طور پر ان لوگوں کو جن کی بات کسی بھی درجے میں سنی اور مانی جاتی ہے، رائے دینے سے قبل معروضی حالات کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ دیکھ لینا چاہیے کہ معاشرے میں خیر اور شر کی کشمکش کے عمومی تناظر میں ان کی رائے کس کے حق میں اور کس کے خلاف استعمال ہوگی ۔
غامدی صاحب محترم نے اس انٹرویو میں دوپٹہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے، اسے اصولی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- دوپٹہ کا تعلق کلچر سے ہے، شریعت سے نہیں۔
- قرآن کریم میں حجاب کے بارے میں جن پابندیوں کا ذکر موجود ہے، ان کا اطلاق عمومی نہیں ہے، بلکہ ان کا تعلق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مخصوص حالات سے ہے۔
- شریعت نے صرف سینہ ڈھانپنے اور مناسب لباس پہننے کی پابندی لگائی ہے، جس میں دوپٹہ شامل نہیں ہے۔
جہاں تک کلچر اور شریعت کا تعلق ہے، ہمیں پہلے اس الجھن کو حل کرنا ہوگا کہ کلچر اور دین کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اور کیا یہ دونوں اپنے اپنے رول میں آزاد ہیں یا ان میں سے کسی ایک کے لیے دوسرے کی بالاتری قبول کرنا بھی ضروری ہے؟ شریعت ان احکام کو کہتے ہیں جو قرآن و سنت سے براہ راست یا مسلمہ اصولوں کے ذریعے سے بالواسطہ ثابت ہوں اور کلچر ایک علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے رہن سہن، باہمی تعلقات، معاملات اور معاشرت سے خودبخود جنم لینے والی اقدار و روایات کو کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شریعت ساری دنیا کے لیے ایک ہے، لیکن کلچر ہر علاقے کا مختلف ہے اور کلچر و ثقافت کی روایات و اقدار میں علاقائی حوالے سے تنوع موجود ہے جو انسانی فطرت کا حصہ ہے اور اسلام بھی اسے تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اسلام نے کلچر کو آزاد حیثیت سے قبول نہیں کیا، بلکہ اسے شرعی اصولوں اور ضابطوں کا پابند کیا ہے، جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلی معاشرت کی ان اقدار و روایات کا ایک ایک کر کے خاتمہ کر دیا جو آسمانی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں اور جن کی شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین میں گنجایش موجود نہیں تھی، حتیٰ کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ’’جاہلیت کی تمام قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔‘‘
اسلام نے کچھ اقدار و روایات کو باقی بھی رکھا جو شرعی اصول و ضوابط سے متصادم نہیں تھیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ علاقائی کلچر کی جن روایات کو اسلام نے باقی رہنے دیا، ان کی حیثیت کیا ہے؟ وہ شریعت کا حصہ ہیں یا بدستور کلچر اور ثقافت سے ہی منسوب رہیں گی؟ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ جن اقدار و روایات کو شریعت کے احکام و قوانین میں شامل کر لیا گیا ہے اور ان کا ذکر قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، وہ شریعت کا حصہ بن گئی ہیں، انہیں کلچر کا حصہ قرار دے کر شریعت سے الگ کرنا انصاف کی بات نہیں ہے۔ البتہ جن امور کو صرف خاموشی کے ساتھ گوارا کیا گیا ہے، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عرب کلچر کی باتیں ہیں جن سے اسلام نے تعرض نہیں کیا۔ اور یہ صرف عرب کلچر کی بات نہیں، بلکہ دنیا کے کسی بھی کلچر اور ثقافت کی وہ روایات و اقدار جن کی نفی قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے اور مسلمہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں انہیں گوارا کیا جا سکتا ہے، وہ کلچر اور ثقافت کے نام پر اسلام کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں گی۔
اس پس منظر میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے ارشاد پر غور کیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ چونکہ دوپٹہ شرعی حکم نہیں بلکہ کلچر کا حصہ ہے، اس لیے اگر کسی علاقہ کے کلچر میں دوپٹہ موجود نہیں ہے تو وہاں حجاب اور پردے کے لیے دوپٹے کی پابندی ضروری نہیں ہو گی۔ لیکن یہ بات شرعی اصولوں کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہے، اس لیے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۹ میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ
’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر چادر لٹکا کر رکھیں۔ یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور ان کو اذیت نہ دی جائے۔‘‘
یہاں تین باتیں ہیں:
- حکم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور بیٹیوں کے لیے نہیں، بلکہ تمام مسلمان عورتیں اس حکم میں شامل ہیں۔
- حکم میں ’’جلباب‘‘ اپنے اوپر ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے جو بڑی چادر کو کہتے ہیں اور بخاری شریف کے شارح علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’جلباب‘‘ دوپٹے یعنی ’’قناع‘‘ سے لمبائی اور چوڑائی میں بڑی ہوتی ہے۔
- حکم میں وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ پہچانی جائیں (یعنی اس حجاب سے آزاد عورت اور لونڈی کا فرق قائم رہے) تاکہ اذیت سے محفوظ رہیں۔ اور یہ مقصد غامدی صاحب کے بقول صرف سینہ ڈھانپ لینے سے کسی طرح بھی پورا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے علی الرغم آیت کریمہ کا مطلب یہ قرار پاتا ہے کہ مسلمان عورتوں کے لیے صرف دوپٹہ کافی نہیں ہے بلکہ اس سے بڑی چادر جلباب ضروری ہے، اور وہ بھی اس انداز سے لی جائے کہ چادر لینے والی عورت دور سے پہچان لی جائے کہ یہ لونڈی نہیں بلکہ آزاد عورت ہے۔
یہ قرآن کریم کا صریح حکم ہے اور تمام آزاد مسلمان خواتین کے لیے ہے، جسے کلچر کی ایک روایت قرار دے کر شرعی احکام کے زمرے سے خارج کرنے کا حوصلہ محترم جاوید غامدی ہی کر سکتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ قرآن کریم کا یہ حکم صرف اس دور کے لیے خاص تھا، اگر اس پر غامدی صاحب کوئی دلیل پیش کر سکیں تو ہمیں قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ہوگا، لیکن اتنی وضاحت کے ساتھ کہ ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کے نزدیک قرآن کریم کی تشریح و تعبیر اور شرعی احکام کے تعین کی بنیاد سنت رسولؐ اور تعاملِ صحابہؓ پر ہے اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں۔ ان دو بنیادوں یعنی سنت رسولؐ اور تعاملِ صحابہؓ سے ہٹ کر قرآن کریم کی کوئی تعبیر و تشریح خوارج، معتزلہ، قدریہ، جبریہ، جہمیہ اور روافض کے ہاں تو قابل قبول ہو سکتی ہے، اہل سنت کے نزدیک اس کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔
اس وضاحت کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بلاشبہ ایسے احکام بھی دورِ نبویؐ میں سامنے آئے ہیں جو وقتی ضرورتوں کے ساتھ خاص تھے اور ضرورت ختم ہو جانے کے بعد وہ احکام باقی نہیں رہے۔ مثلاً مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کرائی، جس میں ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی قرار دے کر انہیں ایک دوسرے کا وارث بھی بنا دیا۔ یہ ایک وقتی ضرورت تھی اور ضرورت ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ حکم بھی ختم ہو گیا، جس کی دو واضح علامتیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی جگہ متبادل احکام آگئے اور دوسری یہ کہ متبادل حکم آنے کے بعد پہلے حکم پر صحابہ کرامؓ کے ماحول و معاشرے میں عمل باقی نہ رہا۔ اگر غامدی صاحب اس بات پر سنت نبویؐ اور تعاملِ صحابہؓ سے کوئی شہادت پیش کر دیں کہ حجاب کے بارے میں سورۃ الاحزاب میں جو احکام دیے گئے ہیں، ان کی جگہ متبادل احکام آ گئے تھے اور صحابہ کرامؓ نے ان احکام کی سختی کو ترک کر کے ان پر عملدرآمد کی کیفیت میں تبدیلی اور تغیر کو قبول کر لیا تھا، تو ان کے اس دعویٰ پر غور کیا جا سکتا ہے کہ یہ احکام وقتی ضرورت اور مخصوص حالات کے پس منظر میں تھے جن کی بعد میں ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن اگر ان احکام کو نہ صرف صحابہ کرامؓ بلکہ بعد کے ادوار میں بھی اسی طرح عمل میں لایا جاتا رہا ہے، اور امت کے تمام فقہی مکاتب فکر نے انہیں جوں کا توں برقرار رکھا ہے، تو غامدی صاحب کو اپنے اس موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔