اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش گزشتہ دنوں بعض قومی اخبارات میں نظر سے گزری ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مکانات کی تعمیر میں درجہ بندی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور حکومت کو مختلف درجات کے لیے ضرورت کی حد بندی کر کے زائد از ضرورت بلڈنگ کی تعمیر پر پابندی لگا دینی چاہیے۔
ہمارے ہاں اس حوالے سے جو تفاوت پایا جاتا ہے وہ بعض مقامات پر اس قدر ہوشربا ہے کہ معاشرہ میں مساوات، بھائی چارے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی اسلامی تعلیمات خواب کی باتیں معلوم ہونے لگتی ہیں، اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک قوم کے افراد نہیں ہیں، بلکہ مختلف قوموں کے لوگ یہاں رہتے ہیں جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
چند ماہ قبل کی بات ہے میں گوجرانوالہ کی جدید ترین اور ترقی یافتہ بستی ’’واپڈا ٹاؤن‘‘ گیا جہاں اعلیٰ درجہ کے مکانات اور زندگی کی بہترین سہولتیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک قدیمی گاؤں کوہلو والہ ہے۔ درمیان میں چار انچ کی دیوار کا صرف ایک پردہ ہے، دیوار کی ایک جانب واپڈا ٹاؤن ہے دوسری طرف کوہلو والہ ہے اور شاید یہ میرے اس معاملہ میں حد درجہ حساس ہونے کی بات ہے کہ مجھے یہ دیوار معاشرتی طور پر ’’دیوار برلن‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ میں نے بہت سے دوستوں سے کہا ہے کہ وہ وہاں جائیں، اس دیوار کے اوپر کھڑے ہو کر دونوں طرف کا منظر دیکھیں، پھر اسلام کی ان تعلیمات کو ذہن میں لائیں جو مسلمانوں کے باہمی معاشرتی حقوق کے حوالے سے قرآن و سنت میں سینکڑوں مقامات پر موجود ہیں، اور اس کے بعد اس بات کا فیصلہ کریں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں اور مسلمان کہلانے والی اس قوم میں اسلامی معاشرت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ابھی کس قدر محنت کی ضرورت ہے۔
ہمارے لیے اسلامی معاشرت کا آئیڈیل دور صحابہ کرامؓ کا دور اور اسلامی نظام کا آئیڈیل سسٹم خلافت راشدہ کا سسٹم ہے۔ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے مالدار ترین حضرات بھی تھے اور حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ جیسے فقیر منش حضرات بھی کثیر تعداد میں تھے، لیکن مکان، لباس، خوراک، سواری اور دیگر روز مرہ ضروریات کے حوالے سے معیار زندگی کا ایسا تفاوت موجود نہیں تھا کہ الگ الگ طبقات نظر آنے لگیں۔ تھوڑے بہت فرق سے انکار نہیں کہ وہ فطری امر ہے، لیکن اس طرح کا فرق کہ آبادیاں ہی الگ الگ ہو جائیں اور روزمرہ ضروریات و معمولات کا معیار زمین و آسمان کا فرق ظاہر کرنے لگے اس دور میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ سرکاری عمّال کے لیے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ پابندی لگا دی تھی کہ وہ
- ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوں گے۔
- چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائیں گے۔
- گھر کے دروازے پر ڈیوڑھی نہیں بنائیں گے اور
- باریک لباس نہیں پہنیں گے۔
یہ باتیں اس دور میں معاشرتی امتیاز کی علامتیں شمار ہوتی تھیں اور ’’سٹیٹس سمبل‘‘ سمجھی جاتی تھیں جن پر امیر المومنین حضرت عمرؓ نے پابندی لگا دی اور اپنے ہر سطح کے عمّال، افسروں اور گورنروں کو پابند کر دیا کہ وہ لباس، رہن سہن، خوراک اور سواری وغیرہ میں عام لوگوں جیسی زندگی اختیار کریں گے، اور کوئی ایسا امتیاز پیدا نہیں کریں گے جس سے وہ عام شہریوں سے الگ کوئی طبقہ دکھائی دینے لگیں۔
حضرت عمرؓ نے صرف پابندی نہیں لگائی بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ کوفہ کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے گھر کے آگے چھپر تعمیر ہونے کی اطلاع ملی تو اس کو اپنے حکم سے آگ لگوا دی۔ اور مصر کے گورنر عیاض بن غنمؓ کے بارے میں شکایت موصول ہوئی کہ انہوں نے باریک لباس کا استعمال شروع کر دیا ہے تو انہیں کچھ عرصہ کے لیے گورنری سے معزول کر کے بیت المال کی بکریاں چرانے پر لگا دیا۔ یہ امت کو اس بات کی تعلیم تھی کہ معاشرہ میں طبقاتی تفاوت اسلامی تعلیمات کی رو سے قابلِ قبول نہیں ہے اور اسلام کا معاشرہ طبقاتی نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی شہر کی حدود کے اندر مختلف طبقات مختلف معیار زندگی کے الگ الگ انداز سے زندگی بسر کر رہے ہوں۔
خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو دیکھ لیجئے کہ زندگی بھر سہولتوں اور آرام طلبی کے ہر قسم کے مواقع میسر آنے کے باوجود جان بوجھ کر فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی ہے۔ یہ صرف عزیمت و تقویٰ کی بات نہیں تھی، بلکہ اس کا تعلق تعلیم و تربیت سے بھی ہے اور معاشرتی معاملات میں امت کی رہنمائی سے بھی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کی اس قسم کی تعلیمات اور ان حوالوں سے ان کے کردار کو ذاتی تقویٰ اور عزیمت کے کھاتے میں ڈال کر ان کے معاشرتی اور تربیتی پہلوؤں سے آنکھ بند کر لیتے ہیں اور رخصت کا سائن بورڈ کھڑا کر کے اپنے لیے ان تمام باتوں کی گنجائش پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کا خیر القرون میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
زائد از ضرورت مکان کی تعمیر پر پابندی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے جو سفارش کی ہے وہ اس سلسلہ میں ایک جزوی حوالے سے ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ زائد از ضرورت بلڈنگ کی تعمیر سے سرمایہ بلاوجہ ضائع ہوتا ہے اور ایک بڑی رقم کسی ترقیاتی یا رفاہی مصرف پر لگنے کی بجائے نمود و نمائش اور تعیش کے کاموں پر صرف ہو جاتی ہے۔ ہم اس سفارش کی حمایت کرتے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اس سفارش پر مبارکباد دیتے ہیں۔ لیکن اصل ضرورت معاشرتی رویہ اور طرز عمل کو تبدیل کرنے کی ہے اور معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان پائے جانے والے اس خوفناک تفاوت کو کم کرنے کی ہے، جس نے ہمیں ایک دوسرے سے عملی طور پر لاتعلق طبقات میں بانٹ رکھا ہے۔
یہ تفاوت تنخواہوں میں بھی ہے، لباس میں بھی ہے، سواری میں بھی ہے، خوراک میں بھی ہے اور دیگر معاشرتی ضروریات و اقدار میں بھی ہے۔ جس کی بنیاد معاشرہ کی طبقاتی تقسیم کے ذہن و فکر پر ہے۔ ایک طرف ایک ہی شہر میں رہنے والے ایک صاحب کی ماہانہ تنخواہ دس لاکھ روپے ہے اور دوسری طرف اسی شہر کے دوسرے شخص کو بمشکل تین چار ہزار روپے ملتے ہیں۔ مجھ سے ایک دوست نے پوچھا کہ تنخواہوں میں اس قدر تفاوت اور معیار زندگی میں اس قدر فرق کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اگر آئیڈیل دور صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدینؓ کا ہے تو کوئی گنجائش نہیں ہے، اور ہماری موجودہ معاشرتی زندگی اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور متضاد ہے۔ اگر ہم نے کسی اور سوسائٹی کو اپنے لیے آئیڈیل اور راہنما قرار دے لیا ہے تو اس طرح کی سینکڑوں گنجائشیں مل سکتی ہیں۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جس منشور کے تحت حصہ لیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ جمعیۃ برسر اقتدار آنے کے بعد ملک بھر میں تنخواہوں کے تناسب میں تفاوت اور فرق کو کم کر کے فوری طور پر انہیں ایک اور دس کے تناسب پر لے آئے گی، اور پھر اسے بتدریج ایک اور پانچ کے تناسب پر لایا جائے گا۔ یہ فیصلہ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم کے پس منظر میں تھا اور جمعیۃ علماء اسلام نے اس کے ذریعے طبقاتی تقسیم کے تلخ نتائج و ثمرات کو محسوس کرتے ہوئے ان کو کم کرنے کے لیے ایک عملی راستہ اختیار کرنے کی بات کی تھی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ کے چند سرداروں کے مطالبہ پر ان سے گفتگو کے لیے حضرت عمارؓ، حضرت بلالؓ اور ان جیسے فقیروں کو مجلس سے اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ بھلا کرے فقہاء کرام کا کہ انہوں نے مسجد کے آداب و شرائط میں یہ بات طے کر دی کہ کسی مسلمان کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا جائے گا، ورنہ ہم تو طبقاتی تفاوت و تقسیم کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے ہاں رہائشی بستیوں کی طرح مسجدیں بھی امیروں اور غریبوں کے لیے الگ الگ ہوتیں، اور اسلام آباد کے مختلف گریڈوں کے حساب سے رہائشی سیکٹروں کی تقسیم کی طرح مسجدوں پر بھی بورڈ لگ جاتے کہ یہ مسجد بیس تا بائیس گریڈ والوں کی ہے، یہ پندرہ تا انیس گریڈ والوں کی مسجد ہے، اور اس مسجد میں اس سے نچلے گریڈ کے ملازمین نماز پڑھ سکتے ہیں۔
اس لیے ہم اسلامی نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا سفارش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کونسل کے ذمہ دار حضرات سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم کی مجموعی صورتحال کے بارے میں بھی رائے دیں اور قوم کی اس باب میں رہنمائی کریں کہ اس طبقاتی تقسیم اور تفاوت کے زہر کا تریاق ہمیں کہاں سے ملے گا اور ہم اس دلدل سے کیسے نکل پائیں گے؟