گزشتہ دنوں جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے شعبہ بنات میں دورۂ حدیث کے اسباق کے آغاز کی تقریب تھی۔ جامعہ حنفیہ ہمارے مخدوم و محترم حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہے جو دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور قائد اہل سنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست راست تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے حضرت مولانا حکیم سید علی شاہؒ آف ڈومیلی اور حضرت مولانا نذیر اللہ خانؒ آف گجرات کی رفاقت میں اس خطہ کو علماء دیوبند کی خدمات اور دیوبندی مسلک سے متعارف کرایا۔ اور اہل سنت کے عقائد و موقف کے ساتھ ساتھ ملک کی سنی اکثریت کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی جنگ بھی لڑی۔ اب ان کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط اس جدوجہد کی نمائندگی مولانا قاضی ظہور الحسین کی امارت میں تحریک خدام اہل سنت کر رہی ہے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی ان کے بھرپور معاون تھے اور ان سب بزرگوں کا آپس میں تعلق و تعاون مثالی تھا۔ جہلم اور چکوال میں طالبات کی دینی درسگاہیں اس دور سے چلی آرہی ہیں جب ملک میں کہیں کہیں طالبات کی دینی تعلیم کا ذوق دیکھا جاتا تھا اور ان کے عمومی مدارس کی موجودہ کیفیت اس کے بہت بعد کی بات ہے جو بحمد اللہ تعالیٰ اب پھیلتے پھیلتے دن بدن وسیع ہوتی جا رہی ہے۔
حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے بڑے بیٹے مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ میرے بہنوئی تھے جنہوں نے اپنے والد محترمؒ کی وفات کے بعد جامعہ حنفیہ اور اس سے متعلقہ مدارس کا نظام سنبھالا اور حسن و خوبی کے ساتھ کئی سال تک یہ خدمت سر انجام دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین۔ اب ان کے فرزند اور ہمارے عزیز بھانجے مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق اس کی بجا آوری میں ہمہ تن مصروف ہیں جبکہ جامعہ کے شعبہ بنات کی انچارج ایک عرصہ سے ہماری چھوٹی ہمشیرہ اور قاری محمد ابوبکر صدیق کی والدہ محترمہ ہیں جنہوں نے درس نظامی کی تعلیم اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ سے حاصل کی اور تدریس کی مسلسل خدمات سر انجام دیتے ہوئے سالہا سال سے بخاری شریف پڑھا رہی ہیں۔
اس سال دورہ حدیث کے اسباق کے آغاز پر ان کا تقاضہ تھا کہ ہم دونوں بھائی یعنی راقم الحروف اور مولانا قاری عبد القدوس خان قارن اس موقع پر شریک ہوں۔ چنانچہ جب ہم تینوں بہن بھائی اسباق کے آغاز پر بنات کی درسگاہ میں بیٹھے تو یہ دیکھ کر میرے دل میں تشکر و امتنان کی ایک عجیب سی لہر اٹھی کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بخاری شریف اور دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھائی ہیں اور اب ان کی اس روایت کا تسلسل جاری رکھنے کا شرف ہم تینوں بہن بھائیوں کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حضرت والد محترمؒ کی زندگی میں ہی بخاری شریف ہم دونوں بھائیوں کے سپرد ہوگئی تھی۔ ایک جلد میرے پاس ہوتی ہے اور دوسری جلد قارن صاحب پڑھاتے ہیں، اور ہم دونوں بھائی ہر سال تبادلہ کر لیتے ہیں تاکہ ہر ایک کو دو سال میں پوری بخاری شریف پڑھانے کا موقع مل جائے۔
جہلم میں اکٹھے ہوئے تو ترتیب یہ تھی کہ برادرم مولانا عبد القدوس قارن نے ترمذی شریف کا پہلا سبق پڑھانا تھا جبکہ میرے ذمہ بخاری شریف کا پہلا سبق تھا اور اسی ترتیب کے مطابق ہم دونوں نے یہ خدمت سر انجام دی۔ درس طالبات کا تھا اس لیے میں نے اس موقع پر خواتین کی دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت پر کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱) قرآن کریم، (۲) حدیث و سنت اور (۳) فقہ و شریعت میں جس طرح مردوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا اور علوم نبویؐ کو امت تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی، اسی طرح خواتین نے بھی یہ خدمات سر انجام دیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی تفسیر، حدیث و سنت کی روایات اور فقہی احکام و مسائل کا ایک بڑا ذخیرہ امت کو خواتین کے ذریعہ پہنچا ہے اور آج تک اہل علم اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
قرآن کریم کی کسی آیت کی جو تشریح کسی صحابیؓ نے کی ہے اس کا بھی وہی مقام ہے اور جو تفسیر کسی صحابیہؓ سے مروی ہے وہ بھی وہی درجہ رکھتی ہے۔ حدیث کی روایت میں جو درجہ مرد صحابہؓ کی روایت کا ہے وہی درجہ خاتون صحابیاتؓ کی روایت کا بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ بلکہ گھر کے اندر اور خاندانی نظام کے حوالہ سے صحابیاتؓ بالخصوص امہات المومنین کی روایات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی طرح فقہی مسائل اور فتاویٰ میں بھی امہات المومنین سے رجوع کیا جاتا تھا اور ان کے فتویٰ کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ حافظ ابن القیمؒ نے صحابہ کرامؓ کے دور میں خاتون مفتیات کی تعداد بیس سے زیادہ بیان کی ہے، جبکہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پوری امت کی ’’مفتیہ عظمیٰ‘‘ کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ پردے کے شرعی احکام کی پابندی بھی ہوتی تھی اور تعلیم و تعلم اور روایت حدیث کا سلسلہ بھی قائم تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جو خود فقہاء صحابہ کرامؓ میں شمار ہوتے ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کو کبھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس کا حل اور اس کے بارے میں علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود نہ ملا ہو۔
اس لیے مرد و عورت کے شرعی احکام کے فرق کا دائرہ قائم رکھتے ہوئے علوم دینیہ بالخصوص قرآن و سنت اور فقہ و شریعت میں عورت کا بھی وہی حق ہے جو مرد کا ہے اور محدثین و فقہاء نے کسی جگہ کوئی حد نہیں بیان کی کہ اس سے زیادہ کسی عورت کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اپنی طالبات بیٹیوں کو حوصلہ دلانے کے لیے کہہ رہا ہوں تاکہ وہ علوم دینیہ کو اپنا حق سمجھ کر سیکھیں، اپنی ضرورت سمجھ کر حاصل کریں اور اپنا فرض سمجھ کر قرآن و سنت اور فقہ و شریعت میں زیادہ سے زیادہ مہارت پیدا کریں۔ البتہ پردہ اور دیگر شرعی احکام و ضوابط کی پابندی بھی ضروری ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر تو دین سیکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے سالانہ اجتماعات میں ہر سال حاضری کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ اس مناسبت سے گزشتہ سالانہ جلسہ کا ایک لطیفہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ میں خطاب کے بعد جب میں جلسہ گاہ سے باہر آرہا تھا تو ہمارے چھوٹے بھانجے حافظ محمد عمر فاروق اپنے چار سالہ بیٹے کو گود میں اٹھائے ہوئے راستہ میں ملے۔ اس کا نام عبد اللہ ہے، میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو حافظ محمد عمر نے اس سے پوچھا کہ تم نے ان کو پہچانا ہے؟ وہ فورًا بولا کہ ہاں طلال (میرے پوتے کا نام ہے) کے دادا ابو ہیں۔ اور یہ کہہ کر فوری طور پر میری طرف متوجہ ہو کر پوچھا کہ ’’آپ کو گچھہ (غصہ) کیوں آیا ہوا تھا؟‘‘ مجھے یاد آیا کہ میری تقریر کا آخری حصہ مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے تھا اور قدرے گرم لہجے میں تھا جو اس چار سالہ بچے کو بھی محسوس ہوا ہے۔ یہ واقعہ سنا کر میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے آنے والی نئی نسل کا بہت سنجیدہ پیغام ہے اور ہمیں یہ پیغام بہرحال محسوس کرنا ہوگا۔