مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی پاکستان آمد

   
۲۸ جنوری ۲۰۰۴ء

مولانا محمد عیسیٰ منصوری ان دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں اور مختلف شہروں میں دینی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔ مولانا منصوری کا تعلق گجرات انڈیا سے ہے، پرانے فضلاء میں سے ہیں، عمر ساٹھ برس کے لگ بھگ ہوگی۔ ۱۹۶۸ء میں راندھیر کے معروف مدرسہ جامعہ حسینیہ سے دورہ حدیث کیا اور اس کے بعد تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں شریک ہو گئے۔ ان کے والد محترم تبلیغی جماعت کے سرگرم حضرات میں سے تھے اور وہ اپنے والد محترم کی معیت میں امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کی مجالس اور صحبت اور زیارت سے کئی بار فیض اٹھا چکے ہیں۔ حضرت مولانا سعید احمد خان صاحبؒ کے ساتھ سالہا سال رہے اور ان سے خوب استفادہ کیا۔

پھر ایک دور میں لندن میں تبلیغی مرکز کے امام کی حیثیت سے برطانیہ گئے، اس دور میں تبلیغی مرکز آل گیٹ کے علاقے میں ہوتا تھا۔ وہاں کم و بیش گیارہ سال تک امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وائٹ چیپل کے علاقہ کمرشل روڈ کی کرسچین سٹریٹ میں واقع ڈیلا فیلڈ ہاؤس کی ساتویں منزل کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں مقیم ہیں، اپارٹمنٹ کے چند چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، لیکن میاں بیوی دونوں کھلے دل کے مالک ہیں۔ انڈیا اور پاکستان سے آنے والے علماء کرام کا وہاں اکثر آنا جانا رہتا ہے اور بعض کا قیام بھی ہوتا ہے۔ میں بھی کئی کئی دن وہاں ٹھہرتا ہوں۔ مولانا منصوری کی اولاد نہیں ہے اور وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ مہمانوں کی ضیافت اور خدمت میں خوش رہتے ہیں۔ وسیع المطالعہ، وسیع النظر اور وسیع المشرب عالم ہیں، عالم اسلام کے مسائل پر ہر وقت نظر رہتی ہے اور ان کے بارے میں نہ صرف لکھتے پڑھتے ہیں، بلکہ متعلقہ لوگوں کو جھنجھوڑنے کا موقع ملے تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

میری ان سے ملاقات اتفاقاً سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلسہ میں ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اب تک جاری ہے اور زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہنے کی امید اور خواہش ہے۔ یہ ۱۹۹۰ء کی بات ہے، لندن کے آل گیٹ ہی کے علاقہ میں ایک ہومیو پیتھک معالج ڈاکٹر فیاض صاحب ہوتے تھے، ان کا انتقال ہو گیا، وہ چند دوستوں کے ساتھ مل کر سال میں ایک آدھ بار وہاں کے ایک ہال میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر محفل کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ میں اس سال رٹپن پارک میں سیلون روڈ کے اسلامک سینٹر میں مقیم تھا، ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی دعوت دی اور میں ان کے جلسہ میں شرکت کے لیے حاضر ہو گیا۔ وہاں دبلے پتلے سے ایک عالم دین سے سٹیج پر ملاقات ہوئی۔ شیروانی میں ملبوس سر پر قراقلی سجائے انہوں نے محفل میں جب سیرت النبیؐ پر گفتگو کی تو محسوس ہوا کہ شاید ہم دونوں ایک دوسرے کی تلاش میں حسن اتفاق سے یہاں تک آ پہنچے ہیں۔ مختصر بات چیت کے بعد اگلے روز رٹپن پارک میں ملنے کا وعدہ ہوا اور گھنٹے دو گھنٹے کی اس ملاقات نے فکری ہم آہنگی اور ذہنی یگانگت کو عملی رفاقت کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔

لندن کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد الباقیؒ ابھی حیات تھے اور ویمبلڈن پارک کی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ انہیں لندن کے احباب کی استدعا پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے وہاں بھیجا تھا تاکہ وہ علمی مسائل میں وہاں کے مسلمانوں اور علماء کی رہنمائی کریں اور وہ آخر دم تک اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ انہیں علمی مسائل میں لندن کے علماء اور دینی حلقوں کے مرجع کی حیثیت حاصل تھی اور ہماری بھی ان سے نیاز مندی تھی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ہم نے اپنے عزائم اور پروگرام کا ذکر کیا، جس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور سرپرستی کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ”ورلڈ اسلامک فورم“ کی تشکیل کا فیصلہ لندن کے مرکز ختم نبوت میں انہی کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا، جس میں دوسرے بہت سے علماء کرام کے علاوہ بزرگ عالم دین حضرت مولانا عتیق الرحمٰن مدظلہ نے بھی شرکت فرمائی۔

مولانا منصوری جسمانی طور پر کمزور بلکہ معذور ہیں۔ ایک دور میں ان پر فالج کا حملہ ہوا، سالہا سال بیمار رہے، طویل عرصہ ہسپتال میں گزارا۔ اب بھی ایک ہاتھ سے روٹی کا لقمہ نہیں توڑ سکتے اور تین انگلیوں سے قلم نہیں پکڑ سکتے، لیکن جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو پھر لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ لکھنے سے پہلے اس موضوع پر کئی روز پڑھتے رہتے ہیں، کتابیں تلاش کرتے ہیں، ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر جب لکھتے ہیں تو موضوع کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان کے مضامین پاکستان اور بھارت کے مختلف دینی جرائد کے علاوہ روزنامہ جنگ لندن میں بھی اہتمام کے ساتھ شائع ہوتے ہیں اور گہری دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔

مغربی فلسفہ و ثقافت کا ناقدانہ جائزہ اور دینی مدارس کے نصاب و نظام میں عصری تقاضوں کی روشنی میں ضروری اصلاحات و ترامیم ان کی دلچسپی کے دو اہم موضوعات ہیں اور ان دونوں عنوانات پر ان کے مضامین کے دو مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے بڑے بڑے علماء کرام سے ان کے گہرے روابط ہیں، جن سے وہ محبت کرتے ہیں، لندن آنے پر اصرار کے ساتھ ان کی دعوت کرتے ہیں، ان سے متعلقہ مسائل پر کھلے دل سے گفتگو بھی کرتے ہیں اور جہاں ضرورت ہو ٹوکنے، جھنجھوڑنے بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور میں نے بڑے بڑے علماء کو ان کی تلخ و ترش باتیں سر جھکا کر خاموشی سے سنتے دیکھا ہے۔ کمزوری اور علالت کے باوجود متحرک رہتے ہیں۔ فرانس، جرمنی، سپین، پرتگال، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، سعودی عرب، عرب امارات، بھارت، پاکستان اور دیگر کئی ممالک کا متعدد بار سفر کر چکے ہیں۔ برطانیہ میں متعدد دینی اداروں اور تعلیمی مراکز کی سرپرستی کرتے ہیں۔ تعلیمی نصاب و نظام کے حوالہ سے مشاورت کے علاوہ علمی و عوامی حلقوں میں ان اداروں کے تعارف کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ علاقائی عصبیت کا ان میں شائبہ تک نہیں ہے۔ فکری بیداری اور دینی جدوجہد کے حوالہ سے کسی عالم دین کو متحرک دیکھتے ہیں تو وہ کسی بھی ملک یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو مولانا منصوری کے حلقہ احباب میں شامل ہو جاتا ہے اور ان کی رہنمائی اور سرپرستی سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔

وہ کہیں ملازمت نہیں کرتے، بلکہ بیماری و معذوری کی وجہ سے کوئی مستقل ڈیوٹی ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ بیماری کا سوشل الاؤنس تھوڑا بہت ملتا ہے، اہلیہ محترمہ گھر میں کچھ محنت مشقت کرتی ہیں اور دونوں کی آمدنی کا بڑا حصہ دینی سرگرمیوں اور علماء کرام کی مہمان نوازی پر صرف ہو جاتا ہے۔ کتاب کے ساتھ ان کی دوستی بہت گہری ہے۔ کوئی نئی اہم کتاب آتی ہے یا کسی رسالے میں کسی اہم عنوان پر کوئی معلوماتی مضمون شائع ہوتا ہے تو حلقہ احباب کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں، کتاب کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں، مضامین کی فوٹو کاپیاں کرا کے تقسیم کرتے ہیں، پھر اس موضوع پر احباب سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں، معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور اپنے غور و فکر کے نتائج سے احباب کو اہتمام کے ساتھ آگاہ کرتے ہیں۔ میں جب بھی جاتا ہوں ان کی لائبریری کا ایک بار ازسرنو جائزہ لیتا ہوں اور دلچسپی کی کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور مل جاتی ہے۔

علماء کرام اور دینی کارکنوں کے بارے میں ان کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش ہوتی ہے اور یہ ہمارا دونوں کا مشترکہ درد ہے کہ علماء کرام کو آج کے حالات سے واقف ہونا چاہیے، بدلتی ہوئی عالمی صورتحال سے آگاہ رہنا چاہیے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں بالعموم اور اپنے علاقہ میں بالخصوص جہاں جہاں اور جیسے جیسے کام ہو رہا ہے اس کا ادراک حاصل کرنا چاہیے اور کسی بھی مسئلہ کو محض جذبات کی بنیاد پر یا سطحی انداز میں ڈیل کرنے کی بجائے ادراک، شعور اور آگاہی کے ضروری ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس مسئلہ کو ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ انہیں اس بات کا قلق رہتا ہے اور وہ اس پر سخت مضطرب ہوتے ہیں کہ ہم مسلمانوں نے اور خاص طور پر دینی حلقوں نے نسل انسانی کے اجتماعی مسائل پر سوچنا کیوں چھوڑ دیا ہے اور اپنے محدود حلقوں پر قناعت کر کے کیوں بیٹھ گئے ہیں؟

گزشتہ روز وہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور ہم نے مدرسہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی میں اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ان کی گفتگو کا اہتمام کیا تو ان کے خطاب کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے انسان کا تعلق خالق و مالک کے ساتھ جوڑنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کو انسانوں کی جھوٹی خدائی سے نجات دلائی اور انسانی معاشرہ کو ظلم و استحصال سے چھٹکارا دلانے کے لیے بھی جدوجہد کی، لیکن آج جبکہ پوری نسل انسانی استحصال، ظلم، ناانصافی اور جھوٹے خداؤں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کوئی نبی تو نہیں آئے گا۔ یہ کام اب انہی لوگوں کے کرنے کا ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث کہلاتے ہیں۔ علماء کرام کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ وہ پوری نسل انسانی کو سامنے رکھ کر اپنی جدوجہد کی ترجیحات کا تعین کریں اور اسی طرح ساری نسل انسانی کو اپنا مخاطب بنائیں جس طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو مخاطب کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس مرد قلندر کو صحت سے نوازیں اور ہم سب کو اس کا درد اور کرب اپنے دلوں میں محسوس کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter