باجوڑ میں دینی مدرسے پر وحشیانہ بمباری اور اسی سے زائد افراد کی شہادت کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ بہت سے بین الاقوامی حلقے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ کارروائی فی الواقع دہشت گردوں کے خلاف کی گئی ہے۔ جو تین افراد اس بمباری میں زخمی ہوئے ہیں وہ بھی اور علاقہ کے عوام بھی یہی کہتے ہیں کہ مدرسہ میں موجود افراد کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا، بلکہ وہ مدرسہ کے طلبہ اور اساتذہ تھے، جو معمول کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اسی طرح یہ بات بھی باخبر لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ یہ خالصتاً پاکستانی فورسز کی کارروائی ہے، بلکہ یہ بات تو سرکاری ذرائع بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ اس ساری کارروائی کی بنیاد امریکی اداروں کی اطلاعات اور ہدایات پر تھی۔ اس لیے اگر یہ کارروائی امریکی فورسز نے کی ہے تو بھی سراسر ظلم، دہشت گردی اور پاکستان کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے کے مترادف ہے اور اگر امریکی اداروں کی اطلاعات اور ہدایات پر اس کارروائی کا ارتکاب پاکستانی فورسز نے کیا ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ سنگین بات ہے کہ ہم اپنی رائے، اختیار اور صوابدید کے حق سے محروم ہو کر محض بیرونی احکام کی تعمیل کے لیے ایک بے جان مشین بن کر رہ گئے ہیں۔
جہاں تک دینی مدارس کے خلاف اس قسم کی کارروائیوں کا تعلق ہے، ان کے لیے یہ پہلا تجربہ نہیں ہے۔ وہ اس سے قبل اسی خطہ میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی استعمار کی اسی طرح کی ریاستی دہشت گردیوں کا شکار ہوتے تھے، جب ہزاروں مدارس کو بند کر دیا گیا تھا اور ہزاروں اساتذہ اور طلبہ اسی طرح دہشت گرد کا خطاب پا کر جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ پھر اس دینی مدرسہ کو گزشتہ صدی کے اوائل میں وسطی ایشیا میں سوویت یونین کے تسلط کے بعد اسی نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ہزاروں علماء و طلبہ کی شہادت کے ساتھ ہزاروں مدارس و مساجد کو تالے لگ گئے تھے۔ کم و بیش اسی دور میں ترکی میں بھی دینی مدارس ریاستی جبر کا نشانہ بنے تھے اور اگرچہ وہاں قتل و غارت کا بازار اس طرح گرم نہیں ہوا تھا، لیکن ہزاروں مساجد و مدارس اور خانقاہوں کی تالہ بندی اور دیگر بہت ہی پابندیاں اس ریاستی جبر کا ہتھیار تھیں، جن کے ذریعہ دینی مدارس کو ان کے معاشرتی کردار سے روک دیا گیا تھا۔
لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر بھی دینی مدرسہ آج زندہ ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ پہلے سے کہیں زیادہ توانا ہے کہ ماضی میں اس کے خلاف جبر و تشدد کے حربے استعمال کرنے والی تمام قوتیں آج اس کے خلاف متحد ہیں، لیکن اسے اپنے راستہ سے ہٹانے کے لیے کوئی راہ نہ پاتے ہوئے ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ کے مصداق معصوم بچوں پر بمباری کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہ تازہ خون ہے جو مدارس کی جدوجہد کے لیے مزید قوت کا باعث ہو گا اور جس طرح اس سے پہلے برطانوی استعمار، اشتراکی دہشت گردی اور سیکولر ترکی کا ریاستی جبر دینی مدارس کے دینی اور معاشرتی کردار کو ختم نہیں کر سکا، جبر و تشدد کا یہ نیا اور آخری راؤنڈ بھی دینی مدارس کو ان کے کردار سے محروم نہیں کر سکے گا۔
اس پس منظر میں یکم نومبر کو لاہور میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے رہنما مولانا عبد الرؤف فاروقی نے ایک مشاورتی اجلاس طلب کر رکھا تھا، جس میں لاہور کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ میں بھی شریک تھا۔ اگرچہ اس اجلاس کا ایجنڈا تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالہ سے تھا کہ دس نومبر کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حدود آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ تحفظ حقوق نسواں بل کے عنوان سے پیش ہونے والا ہے اور بہت سے وفاقی وزراء کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اس بل کو علماء کرام کی سفارشات کے بغیر منظور کرانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس لیے مولانا فاروقی نے چند علمائے کرام کو مشاورت کے لیے بلا لیا کہ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اجلاس کا اصل ایجنڈا اس حوالہ سے تھا، لیکن دورانِ اجلاس گفتگو زیادہ تر باجوڑ کے دینی مدرسہ پر مذکورہ حملہ کے بارے میں ہوتی رہی کہ تازہ ترین قومی حادثہ یہی ہے۔ شرکاء اجلاس بے گناہ مسلمانوں کی شہادت پر افسردہ تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی خود مختاری اور بین الاقوامی سرحدات کی پامالی کا ماتم کر رہے تھے۔ میں نے احباب سے عرض کیا کہ جب قومیں بیرونی آقاؤں سے آزادی اور نجات کی جنگ لڑتی ہیں تو اس قسم کے مراحل سے گزرنا بھی پڑتا ہے۔ اس لیے صبر و حوصلہ کے ساتھ ہمیں اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے اور شہداء کی مغفرت اور بلندئ درجات کی دعا کرنی چاہیے۔
تحفظ حقوق نسواں بل کے بارے میں اس اجلاس کی مشاورت میں یہ بات طے پائی کہ اس سلسلہ میں دینی حلقوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عام لوگ تو کجا علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بہت بڑی اکثریت بھی اصل مسئلہ کی نوعیت سے واقف نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کم از کم علماء کرام، خطباء، مدرسین، ائمہ مساجد اور دینی جماعتوں کے کارکن تو تنازعہ کی اصل نوعیت سے واقف ہوں، تاکہ وہ عام مسلمانوں کو اس سے آگاہ کر سکیں اور ان کی ذہن سازی کریں۔
شرکاء اجلاس کی فرمائش پر میں نے انہیں بتایا کہ (۱) جسٹس (ر) مولانا محمد تقی عثمانی، (۲) مولانا حسن جان، (۳) مولانا مفتی منیب الرحمٰن، (۴) مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، (۵) مولانا مفتی غلام الرحمٰن، (۶) مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور (۷) راقم الحروف پر مشتمل ”خصوصی علماء کمیٹی“ جو حکمراں مسلم لیگ کے سربراہ محترم چودھری شجاعت حسین نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمٰن کی تائید سے قائم کی تھی، نے تحفظ حقوق نسواں بل کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کی متعدد دفعات کو قرآن و سنت کے تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے اور ان کی اصلاح کے لیے متبادل تجاویز اور سفارشات پیش کی ہیں۔ اگر ان سفارشات اور تجاویز کو شامل کر کے تحفظ حقوق نسواں بل کو نئی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا تو یہ دینی حلقوں کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا ہے اور اگر ان سفارشات اور تجاویز کو نظرانداز کر دیا گیا تو یہ بل مجموعی طور پر قرآن و سنت سے متصادم متصور ہو گا اور دینی نقطۂ نظر سے ناقابلِ قبول ہو گا۔ ”خصوصی علماء کمیٹی“ نے اس بل کی جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، ان میں سے چند اہم باتیں یہ ہیں:
- بل کو ”تحفظ حقوق نسواں“ کا عنوان دیا گیا ہے، مگر اس میں عورتوں کے حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، جبکہ ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے حقوق اور ان کی مظلومیت کے مسائل میں (۱) وراثت کا حصہ نہ ملنا، (۲) مرضی کے خلاف جبری شادی، (۳) حق مہر سے محرومی، (۴) بعض علاقوں میں عورتوں کا باقاعدہ فروخت ہونا، (۵) تین اکٹھی طلاقوں کی صورت میں مصالحت کے تمام دروازے بند کر دینا، (۶) قرآن کریم کے ساتھ شادی کے نام پر شادی اور وراثت کے حق سے محروم کر دینا اور اس نوعیت کے دیگر مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کو اس بل میں شامل کیے بغیر اسے تحفظ حقوق نسواں بل کا عنوان دینا درست نہیں ہے۔
- زنا بالجبر کو حد سے نکال کر تعزیر کے دائرہ میں شامل کیا گیا ہے، حالانکہ شریعت اسلامیہ میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا دونوں صورتوں میں حد شرعی کا نفاذ ہوتا ہے اور اس حوالہ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے زنا بالجبر پر حد شرعی کی سزا کو بحال کیا جائے۔
- زنا بالرضا میں حد شرعی کے درجہ کا ثبوت نہ ملنے پر اس سے نچلے درجے کے جرائم پر جو تعزیری سزائیں حدود آرڈیننس میں رکھی گئی تھیں، وہ نئے بل میں ختم کر دی گئی ہیں۔
اس لیے اس نئے مسودۂ قانون کی رو سے اب بدکاری اور فحاشی کے ارتکاب پر سزا صرف اسی صورت میں ہو گی جب حد شرعی کے درجہ کا ثبوت فراہم ہو جائے گا اور اس سے نچلے درجے کے تمام جرائم کی جرم کی نوعیت باقی نہیں رہے گی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یورپ میں اکثر نوجوان جوڑے شادی کے بغیر اکٹھے رہتے ہیں، ”تحفظ حقوق نسواں بل“ کے ذریعہ اسے پاکستان میں بھی قانونی جواز فراہم ہو جائے گا اور جب تک ان کے خلاف زنا کا ثبوت فراہم نہیں ہو گا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے خصوصی علماء کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ زنا سے کم درجہ کے فحاشی اور بدکاری کے جرائم پر تعزیری سزائیں بحال کی جائیں اور زنا کی طرح فحاشی اور دواعی زنا کو بھی قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں لاہور کی سطح پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کا مشترکہ اجلاس ”تحفظ حقوق نسواں سیمینار“ کے عنوان سے چھ نومبر پیر کو ایک بجے دن پریس کلب لاہور میں منعقد کیا جائے گا۔ اس سیمینار کی میزبان ”پاکستان شریعت کونسل“ ہو گی اور اس کے لیے جمعیت علماء اسلام کے بزرگ راہنما حضرت مولانا محب النبی کی سربراہی میں استقبالیہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جس کے سیکرٹری پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر ہوں گے۔ سیمینار میں مختلف دینی جماعتوں اور مکاتب فکر کے راہنما خطاب کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے موقف اور لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ملک کے دیگر شہروں کے علماء کرام اور دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے اپنے شہروں میں دس نومبر سے قبل اس طرح کے اجلاسوں کا اہتمام کریں، جن میں تمام دینی مکاتب فکر اور جماعتوں کی نمائندگی ہو اور اس مشترکہ موقف میں پورے اہتمام کے ساتھ اظہار کیا جائے کہ تحفظ حقوق نسواں بل کو اگر علمائے کرام کی خصوصی کمیٹی کی سفارشات کے بغیر منظور کیا گیا تو یہ کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہو گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت اس بل کے ذریعہ عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے فحاشی اور بدکاری کے مواقع عام کرنا چاہتی ہے اور اس طرح مغربی طاقتوں کے اشارے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے محروم کر کے مغربی ثقافت اور مادر پدر آزاد معاشرت کی جولان گاہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔