برطانیہ میں چند روز

   
۱۱ و ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحان کے موقع پر دو ہفتوں کی گنجائش تھی، اس میں چند روز اور شامل کر کے میں اٹھارہ بیس روز کے لیے ۵ مئی کو لندن آ گیا ہوں۔ اسی روز چیف جسٹس آف پاکستان نے اسلام آباد سے لاہور کے لیے سفر کا آغاز کیا، میں صبح نمازِ فجر کے فوراً بعد گھر سے لاہور ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوا، جبکہ جسٹس افتخار محمد چودھری ساڑھے سات بجے اسلام آباد سے چلے۔ میری فلائٹ نے سوا دس بجے ہیتھرو کے لیے پرواز کی اور تقریباً سوا آٹھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لندن کے وقت کے مطابق اڑھائی بجے ہیتھرو ایئر پورٹ پر اتر گئے، جبکہ پاکستان میں اس وقت شام کے ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا۔

اس دفعہ خلافِ معمول ایئر پورٹ سے باہر آنے میں خاصی دیر لگ گئی اور میں جب ساؤتھ آل ابوبکر مسجد میں پہنچا تو ساڑھے پانچ بج رہے تھے، مگر ظہر کا وقت ابھی باقی تھا، اس لیے جلدی سے ظہر کی نماز ادا کی۔ لندن میں ان دنوں سورج ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ غروب ہو رہا ہے، عصر کی نماز حنفی مساجد میں سات سوا سات بجے ہو رہی ہے اور حنفی نظام الاوقات کے مطابق چھ بجے تک ظہر کا وقت باقی رہتا ہے۔ اس طرح میں نے ۵ مئی کو فجر کی نماز گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد میں معمول کے مطابق پڑھائی اور تقریباً سترہ گھنٹے کے بعد مسجد ابوبکر ساؤتھ آل میں ظہر کی نماز وقت کے اندر ادا کی۔

نماز سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا فون آ گیا کہ جلدی گھر آ جاؤ کہ آپ کے چیف جسٹس ابھی گوجرانوالہ میں ہیں اور ذرائع ابلاغ پر ان کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل بتائی جا رہی ہے۔ وائٹ چیپل لندن میں ان کے گھر پہنچا تو وہ ان تفصیلات میں مگن تھے، طویل سفر کی تھکاوٹ کے باوجود میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کا قافلہ کامونکی سے آگے نہیں نکل گیا۔ پھر میں عشاء کی نماز کا وقت داخل ہوتے ہی نماز سے فارغ ہو کر سو گیا۔

۶ مئی اتوار کی شام پانچ بجے ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے وائٹ چیپل لندن کے ابراہیم کمیونٹی کالج میں ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، جس سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور مولانا مفتی عبد المنتقم سلہٹی کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ لندن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور اہل دانش کی بڑی تعداد نے اس نشست میں شرکت کی۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ”ورلڈ اسلامک فورم“ گزشتہ عشرہ کے آغاز میں جب ہم نے قائم کیا تھا، تب سے دوست ہم سے پوچھتے رہے کہ فورم کیا کام کر رہا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے عام ذہنوں میں کام کا جو تصور ہے اور اس کے جو معروف پہلو ہمارے سامنے ہیں، ہم ان میں سے کوئی کام نہیں کر رہے اور ہم نے اپنے ذمہ ایک ایسا کام لے رکھا ہے جو معروف شعبوں میں سے کوئی نہیں کر رہا اور وہ ہے ”فکری بیداری کا کام اور مسلم علماء اور دانشوروں کو آج کے حالات اور ضروریات اور مستقبل کے امکانات کی طرف توجہ دلانے کی محنت“۔ جس میں ہم کم و بیش دو عشروں سے مصروف ہیں اور بحمد اللہ تعالیٰ اس کے اثرات اب ہمیں محسوس ہو رہے ہیں۔ کیونکہ جو باتیں اب سے بیس پچیس برس قبل ہماری زبانوں پر ہمارے دوستوں کو اجنبی لگتی تھیں، اب اکثر علماء اور دانشوروں کی زبانوں پر وہی باتیں ہیں اور بہت سے حوالوں سے عملی پیشرفت بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ہمارا کام خاموشی کے ساتھ کرنے کا ہے، دھیرے دھیرے کرنے کا ہے اور چپکے سے بیٹھ کر کرنے کا ہے۔ دیکھنے والوں کو کوئی حرکت نظر نہیں آتی، کوئی جلوس نہیں ہے، بڑا جلسہ نہیں ہے، نعرہ نہیں ہے، جوش و خروش نہیں ہے، بس باتیں ہی باتیں ہیں جو ہم زبان اور قلم کے ذریعے کیے جا رہے ہیں، اسی وجہ سے بعض دوست ہمارے اس کام کو ”ذہنی عیاشی“ سے تعبیر کر دیتے ہیں، مگر بحمد اللہ تعالیٰ میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ ہماری یہ ذہنی عیاشی اب رنگ دکھا رہی ہے اور دور حاضر کے مسائل اور مشکلات پر پریشان ہونے اور جلنے کڑھنے میں ہم تنہا نہیں رہے، بلکہ اور بھی بہت سے لوگ پاکستان، برطانیہ، بھارت اور بنگلہ دیش کے حلقوں میں اس پریشانی میں شریک ہو گئے ہیں اور اس پریشانی، بے چینی اور اضطراب کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

یہی کام ہم پاکستان میں ”پاکستان شریعت کونسل“ کے نام سے کر رہے ہیں، جس کا دائرہ پاکستان میں نفاذِ شریعت سے متعلقہ امور پر فکری بیداری اور احساس و ادراک کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش تک محدود ہے اور وہی کام قدرے وسیع تناظر میں عالمی سطح پر ہم ”ورلڈ اسلامک فورم“ کے عنوان سے کر رہے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہے، فورم الگ الگ ہیں اور کام کی نوعیت میں بھی قدرے تنوع موجود ہے۔

مجھ سے پہلے آج کی نشست میں فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے مسلم دنیا کو درپیش مسائل و مشکلات کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ہم کن مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔ میں معروضی صورتحال پر بات کرنا چاہوں گا اور آج کے عالمی تناظر میں فکری، اعتقادی اور تہذیبی کشمکش کے حوالے سے چند ایسے علمی مسائل اور نکات کی طرف اربابِ دانش کو توجہ دلانا چاہوں گا، جن سے آگاہ ہونا میرے نزدیک ہر عالم دین اور دانش ور کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

ان میں سے پہلا مسئلہ ”روشن خیالی“ کا ہے کہ اس وقت کا ظاہری عالمی منظر نامہ یہ ہے کہ مغرب ہم مسلمانوں کو روشن خیالی اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور مسلم دنیا میں مغرب کے نمائندے بھی مسلسل یہ دعوت دینے میں مصروف ہیں کہ ہمیں روشن خیالی کی طرف آنا چاہیے اور مغرب کی روشن خیالی کو قبول کرنا چاہیے، اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس روشن خیالی سے مغرب کی مراد کیا ہے اور اس کے بارے میں ہمارا (مسلمانوں کا) موقف کیا ہے؟

میں اس سلسلے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں روشن خیالی سے انکار نہیں ہے اور کسی باہوش شخص یا قوم کو اس سے انکار نہیں ہو سکتا، لیکن ہمارے پاس روشن خیالی کا اپنا ایک تصور موجود ہے اور مغرب کی طرف سے روشن خیالی قبول کرنے کی اس دعوت کے جواب میں روشن خیالی کے اسلامی تصور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ اسلام کی روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی دو مختلف چیزیں ہیں اور اس اختلاف اور فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ مغرب کی روشن خیالی اور مسلمانوں کی روشن خیالی میں تین بنیادی فرق ہیں، جن کی آج کی گفتگو میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

(۱) پہلا فرق یہ ہے کہ مغرب کی روشن خیالی کی عمر دو سو برس ہے، جبکہ مسلمانوں کی روشن خیالی کی عمر چودہ سو برس سے زیادہ ہے۔ مغرب کے ہاں روشن خیالی کا نقطہ آغاز انقلابِ فرانس ہے، فرانس کے انقلاب سے پہلے کے دور کو مغرب میں تاریکی کا دور قرار دیا جاتا ہے اور اس کے بعد کا دور روشنی کا دور کہلاتا ہے، انقلاب فرانس سے پہلے کا دور جہالت کا دور کہلاتا ہے اور اس کے بعد کا دور علم کا دور سمجھا جاتا ہے، انقلاب فرانس سے قبل کا دور ظلم و جبر کا دور متصور ہوتا ہے اور اس کے بعد کا دور ہیومینٹی اور عدل و انصاف کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ انقلابِ فرانس اٹھارویں صدی عیسوی کے آخری عشرہ کی بات ہے، اس طرح مغرب کی روشن خیالی کی عمر دو سو برس کے لگ بھگ بنتی ہے۔

جبکہ مسلمانوں میں بھی تاریکی اور روشنی اور علم اور جہالت کے دور کا فرق موجود ہے۔ آپ کسی بھی مسلمان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے کسی واقعہ کے بارے میں دریافت کیجئے، اس کا بے ساختہ جواب یہ ہو گا کہ یہ دور جاہلیت کی بات ہے۔ ہمارے ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے دور کو جاہلیت، تاریکی اور ظلم و جبر کا دور کہا جاتا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کا دور علم، روشنی اور عدل و انصاف کا دور تصور کیا جاتا ہے، اس طرح ہماری روشن خیالی کی عمر چودہ سو برس سے زیادہ بنتی ہے اور مسلمانوں کی روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی میں یہ پہلا فرق ہے۔

(۲) دوسرا جوہری فرق یہ ہے کہ مغرب جس چیز کو روشن خیالی اور علم قرار دیتا ہے ہمارے نزدیک وہ تاریکی اور جہالت ہے اور ہم جس چیز کو روشن خیالی اور علم سمجھتے ہیں مغرب اسے تاریکی اور جہالت سے تعبیر کرتا ہے۔ مغرب نے انقلابِ فرانس کے بعد جاگیرداری، بادشاہت اور پاپائیت کے ساتھ ساتھ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی سے بھی دست برداری اختیار کر لی تھی اور بائبل، چرچ اور پوپ کے ساتھ ساتھ خدا اور رسول کی تعلیمات سے بھی معاشرہ کا عملی تعلق توڑ لیا تھا۔

مغرب گزشتہ دو یا تین صدیوں سے جس بنیاد پر معاشرتی اور اجتماعی فیصلے کر رہا ہے اور جس حوالے سے اس کی معاشرتی اقدار و روایات طے پاتی ہیں وہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات نہیں، بلکہ صرف سوسائٹی کی خواہشات ہیں، جن کی حاکمیت مطلقہ پر مغرب کے فکر و فلسفہ اور معاشرت و نظام کا ڈھانچہ استوار ہوا ہے۔ مغرب کوئی فیصلہ کرتے وقت خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ سوسائٹی کی خواہش کو دیکھتا ہے۔ جو سوسائٹی چاہتی ہے وہی اس کا قانون ہوتا ہے اور اسی پر اس کی معاشرتی قدریں تشکیل پاتی ہیں۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز، صحیح اور غلط کے سارے فیصلے سوسائٹی کی خواہش اور سوچ کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ جمہوریت صرف سوسائٹی کی خواہش معلوم کرنے کا ذریعہ ہے، ووٹ کے ذریعے صرف یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ سوسائٹی کیا چاہتی ہے۔ ووٹ کے ذریعے سوسائٹی کی جو خواہش سامنے آتی ہے وہی حق، صحیح اور جائز بات قرار دے دی جاتی ہے۔

جبکہ ہمیں قرآن کریم نے روشن خیالی کا جو تصور دیا ہے وہ اس سے قطعی مختلف اور متضاد ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی وضاحت کی گئی ہے، جن میں سے ایک جگہ کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ سورۃ المائدۃ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی ہے کہ

”اور لوگوں کے معاملات اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام کے مطابق طے کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور اس بات سے ڈرتے رہیں کہ لوگ آپ کو اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے بعض احکام کے بارے میں آزمائش میں نہ ڈال دیں۔“

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جہاں لوگوں کی خواہشات اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام سے متصادم ہوں گی وہاں فیصلہ سوسائٹی کی خواہش پر نہیں، بلکہ آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر ہو گا اور وحی الٰہی کو انسانی خواہشات پر بالادستی حاصل رہے گی۔

گویا مغرب کے نزدیک روشن خیالی اس کا نام ہے کہ آسمانی تعلیمات سے دست برداری اختیار کر کے سوسائٹی کی خواہشات کو تمام تر فیصلوں کی بنیاد بنایا جائے، مگر اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ وحی الٰہی کے مقابلے میں انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو مسترد کر کے آسمانی تعلیمات کو فیصلوں، قوانین اور روایات و اقدار کی بنیاد تسلیم کیا جائے۔

اس بات کا ایک اور حوالہ سے جائزہ لے لیں کہ آج دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں آپ قرآن کریم کے کسی حکم یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد گرامی کو قانون کے طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کریں تو مغرب یا مغرب کی نمائندگی کرنے والے حضرات کی طرف سے واضح طور پر یہ جواب ملے گا کہ آپ قوم کو تاریکی اور جہالت کے دور کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ اس طرح جو چیز مغرب کے نزدیک روشن خیالی ہے ہمارے نزدیک بعینہٖ وہی چیز تاریکی ہے اور جو چیز ہمارے نزدیک علم ہے وہ چیز مغرب کے نزدیک جہالت قرار پاتی ہے اور یہ ایک جوہری فرق ہے جو مغرب کی روشن خیالی اور مسلمانوں کی روشنی خیالی کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہے۔

(۳) مغرب کی روشن خیالی اور مسلمانوں کی روشن خیالی میں تیسرا فرق واضح کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کے ایک تاریخی جملہ کا حوالہ دینا چاہوں گا، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ

”جاہلیت کی تمام قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔“

میں اسے یوں تعبیر کرتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ میں جاہلیت کی تمام قدروں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے انسانیت کے قافلہ کو علم کے دور کی طرف لے کر بڑھ رہا ہوں۔ مگر اس موقع پر میں اربابِ علم و دانش کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہمیں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت یہ اعلان فرما رہے تھے کہ جاہلیت کی تمام قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں تو ان مبارک پاؤں تلے کون کون سے جاہلی قدریں پامال ہو رہی تھیں۔ شرک تھا، بت پرستی تھی، زنا تھا، شراب تھی، سود تھا، جوا تھا، عریانی تھی، رقص و سرور تھا، نجوم پرستی تھی، نسلی، خاندانی، لسانی اور علاقائی عصبیت تھی، وغیر ذالک۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنی دعوت کا آغاز کیا تو یہ ساری قدریں عرب معاشرہ میں نہ صرف جاری تھیں بلکہ نقطہ عروج پر تھیں، لیکن اس کے صرف دو عشروں کے بعد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے خطبہ میں ان قدروں کو پاؤں تلے روندنے کا اعلان کر رہے تھے تو یہ ساری قدریں عرب معاشرے میں پامال ہو چکی تھیں اور ان کی عملداری کا خاتمہ ہو چکا تھا۔

میں اس موقع پر مغرب کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہوں گا کہ وہ جس جدید تہذیب کو اور ترقی یافتہ تمدن کو پوری دنیا سے میڈیا اور ڈیزی کٹر کے زور پر منوانے کی کوشش کر رہا ہے، اس میں کون سی بات نئی ہے اور کون سی قدر ایسی ہے جسے ہم چودہ سو سال قبل اپنے پاؤں تلے روند نہیں چکے؟ مغرب نے نئی قدر کون سی پیش کی ہے اور کون سی نئی ثقافتی روایت کا اضافہ کیا ہے جسے وہ ترقی اور ارتقاء کا ثمرہ قرار دے رہا ہے؟ یہ وہی ثقافت ہے اور وہی عقیدہ و تمدن ہے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واسطہ پڑا تھا اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر نے اس کو شکست دے کر عرب معاشرہ کو اس سے پاک کر دیا تھا۔ آج بھی ہمیں اسی تہذیب سے، اسی تمدن سے اور اسی ثقافت سے واسطہ درپیش ہے۔ لڑائی وہی ہے البتہ کردار بدل چکے ہیں، کشمکش وہی ہے مگر لڑنے والوں کے نام مختلف ہیں۔

میں مغرب کو داد دیتا ہوں اور اس کی اس خوبی کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ وہ بہت اچھا بیوٹی پارلر ہے۔ وہی پامال، گھسی پٹی، بدہیئت اور غلیظ معاشرتی قدریں، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں تلے روند کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا، مغرب نے انہی کو اٹھا کر، بنا سنوار کر اور میک اپ کر کے جدید تہذیب اور ترقی یافتہ تمدن کی قدروں کے طور پر دنیا کے سامنے پھر سے پیش کر دیا ہے اور اسے دنیا پر مسلط کرنے کے لیے میڈیا، ڈیزی کٹر اور لابنگ کا راستہ اختیار کیا ہے۔

دوسرا مسئلہ جس پر میں آج کی گفتگو میں کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں دینی مدرسہ کی تعلیم کا ہے، جو ساری دنیا میں زیرِ بحث ہے اور جس کے بارے میں ہر جگہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ دینی مدرسہ الگ سے کیا تعلیم دے رہا ہے اور اجتماعی دھارے سے الگ رہ کر دنیا کو کیا سکھا رہا ہے؟ میں آج کے عصری کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اور دینی مدرسہ کی تعلیم میں فرق اور الگ سے اس کی تعلیم کی افادیت و ضرورت کے سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں اور میں انسانی سوسائٹی کے لیے اس کی اہمیت کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں۔ آکسفورڈ ہو، کیمبرج ہو، ہارورڈ ہو یا دنیا کی کوئی بھی یونیورسٹی ہو، وہ انسانی سوسائٹی کی ضرورت کے علوم پڑھا رہی ہیں اور ان کے علوم و فنون نہ صرف انسانی معاشرہ کی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں، بلکہ انسانی معاشرت کے ارتقاء اور ترقی کا ذریعہ بھی ہیں۔ لیکن کالج اور یونیورسٹی کی اس تعلیم کا دائرہ بہت محدود ہے اور ہماری بہت سی ضروریات ہیں جو اس کے دائرے میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارے یقین اور ایمان کے بہت سے معاملات ہیں جن کو کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم چھوتی بھی نہیں، لیکن وہ ہماری ضروریات میں شامل ہیں۔ میں سرِدست چار حوالوں سے اس بات کو واضح کرنا چاہوں گا۔

(۱) ایک یہ کہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اس کائنات کے حوالہ سے، جس میں ہم رہ رہے ہیں، اس سوال کا جواب دینے کی تو پوری کوشش کر رہی ہے کہ یہ کائنات کیا ہے اور کیسے چل رہی ہے؟ لیکن یہ کیوں ہے، اس کے پیچھے قوت محرکہ کون ہے اور اس کائنات کو وجود میں لانے سے اس کا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے؟ اس کے بارے میں ہمیں آج کا جدید علم کچھ نہیں بتاتا اور ہمارے اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ جبکہ اس سوال کا جواب ہمیں وحی دیتی ہے اور قرآن پاک بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بے مقصد پیدا نہیں کیا اور اس کا ایک ایجنڈا اور پروگرام ہے، جس کے لیے اس کائنات اور حضرتِ انسان کو تخلیق کیا گیا ہے۔

(۲) ہمارا دوسرا مسئلہ جو آج کی تعلیم سے حل نہیں ہوتا، وہ یہ ہے کہ آج کا علم اور کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہمارے ماضی کے بارے میں صرف وہیں تک معلومات دیتی ہے جو انسان کے مشاہدات، تجربات اور محسوسات کے دائرہ میں ہے اور جسے اس نے زمانہ قبل از تاریخ اور زمانہ بعد از تاریخ کے حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، کیا اس سے پہلے کائنات کا کوئی وجود نہیں تھا؟ اس سلسلے میں اگر ہمیں معلومات ملتی ہیں تو صرف وحی سے ملتی ہیں، انسانی عقل اور کالج کی تعلیم اس کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔

(۳) تیسری بات ہمارے حال اور موجودہ ماحول کے حوالے سے ہے کہ ہمارے اردگرد فضا اور خلا میں جو کچھ موجود ہے اور غیبی مخلوقات کا جو نیٹ ورک کام کر رہا ہے، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اس کے بارے میں خاموش ہے۔ وہ صرف وہی بات بتاتی ہے جو انسان کے مشاہدات، محسوسات اور تجربات کے دائرہ میں آ جاتی ہے، اس سے آگے کسی بات تک اس کی رسائی نہیں ہے۔ مثلاً ہمارے عقیدے کے مطابق ہماری روز مرہ کی زندگی میں اور معاملات میں برکت اور نحوست کا وجود پایا جاتا ہے اور ہمیں اس سے ہر وقت واسطہ پڑتا رہتا ہے، مگر یہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے دائرہ کی چیز نہیں ہے اور اس کے بارے میں ہمیں جتنی معلومات ملتی ہیں وحی سے ملتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے عقیدہ کے مطابق ہمارے اردگرد فرشتوں اور شیطانوں کا ایک وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور کائنات کے نظام کو چلانے اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے، مگر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اس کے بارے میں خاموش ہے اور اس سلسلے میں بھی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس وحی کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

(۴) ماضی اور حال کی طرح ہمارے مستقبل کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے بھی زندگی کا ایک وسیع اور طویل سلسلہ پیش آنے والا ہے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق اس دنیا کی زندگی عارضی ہے، جبکہ موت کے بعد کی زندگی طویل اور نہ ختم ہونے والی ہے۔ مگر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہمیں ہمارے اس مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی اور اس حوالے سے ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتی، اس کے لیے بھی ہمیں وحی سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور اپنے طویل مستقبل کی تیاری کے لیے ہمیں تمام تر معلومات اور رہنمائی وحی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

اس لیے میں کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اور ان کے علوم و فنون کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کرتا، بلکہ ایسے کسی بھی انکار کو بے وقوفی سمجھتا ہوں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ماضی، حال اور مستقبل تینوں حوالوں سے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہماری مکمل رہنمائی نہیں کرتی اور بہت سی مطلوبہ اور ضروری معلومات فراہم نہیں کرتی۔ جبکہ یہ رہنمائی اور معلومات صرف وحی سے ملتی ہیں، آسمانی تعلیمات سے حاصل ہوتی ہیں اور دینی مدرسہ اپنی جداگانہ تعلیم سے انسانی سوسائٹی کی اسی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔

تیسرا مسئلہ جس کی طرف میں آج کی محفل میں موجود ارباب علم و دانش کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ آج کے عالمی تناظر اور فکری و تہذیبی کشمکش کے ماحول میں پائے جانے والے چند مغالطے ہیں، جو بار بار دہرائے جا رہے ہیں اور اس کشمکش کے صحیح تناظر سے واقف ہونے کے لیے ان مغالطوں کا دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

گزشتہ ہفتے لاہور میں ”مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور مواقع“ کے عنوان پر ایک عالمی سطح کا سیمینار ہوا، جس کی صدارت ہمارے ملک کے معروف دانشور اور قانون دان ایس ایم ظفر نے کی اور اس سے پاکستان کے بہت سے معروف دانشوروں کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے نامور اربابِ دانش نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جو اہم نکات سامنے آئے، ان میں سے دو تین کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔

ایک بات یہ کہی گئی کہ مغرب اور مسلمانوں میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، انہیں اگر دور کر دیا جائے تو موجودہ کشمکش کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات بجائے خود ایک بڑی غلط فہمی کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے کہ مغرب کے عوام اور بعض غیر متعلقہ طبقات کے بارے میں تو یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے، لیکن وہ حکمران طبقہ جو سیاست، معیشت، میڈیا، عسکریت اور تمدن و تعلیم کے میدانوں میں اسلام اور مسلمانوں سے نبرد آزما ہے، کیا وہ بھی کسی غلط فہمی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے؟ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ پورے فہم و ادراک کے ساتھ ساری صورتحال کو سمجھتے اور جانتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں اور کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ دینا چاہوں گا، جس میں انہوں نے اپنے دانشوروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی اقدار کے حوالے سے دفاعی پوزیشن اختیار نہ کریں اور اپنی ثقافت و تمدن پر پوری قوت کے ساتھ قائم رہیں۔ مسٹر ٹونی بلیئر نے یہ شکایت کی ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں دہشت گردی مغرب کے رویہ کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے تو مغرب کے بعض دانش ور دفاعی پوزیشن پر آ جاتے ہیں، جو ان (بلیئر) کے نزدیک درست نہیں ہے۔

میں مسٹر ٹونی بلیئر کے اس بیان کو فکری اور تہذیبی کشمکش میں مغرب کی ذہنی پسپائی کا نقطہ آغاز سمجھتا ہوں، لیکن اس سے ہٹ کر آپ حضرات سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسٹر ٹونی بلیئر، جو صرف برطانیہ کے وزیر اعظم نہیں، بلکہ مغرب کے ایک بڑے فکری رہنما بھی ہیں، کا یہ کہنا میری اس گزارش کی تائید کر رہا ہے کہ مغرب کی فکری اور تہذیبی قیادت اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے اور وہ جو کچھ کر رہی ہے سوچ سمجھ کر کر رہی ہے۔ اس لیے ہمارے دانشوروں کو موجود صدی کے اس سب سے بڑے مغالطہ سے باہر نکلنا چاہیے کہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان موجود کشمکش کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور ہم صرف غلط فہمیوں کو دور کر کے اس کشمکش کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔

اس سیمینار میں سامنے آنے والا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ مغرب کو اسلام سے خاندانی نظام کا سبق حاصل کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو مغرب سے ٹیکنالوجی، سائنس، جمہوریت اور انسانی حقوق سیکھنے چاہئیں۔ جہاں تک خاندانی نظام کا تعلق ہے، مغرب اگر واقعی محسوس کرتا ہے کہ اس کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کی بحالی کے لیے اسلامی تعلیمات اس کے کام آ سکتی ہیں تو ہمیں کوئی انکار نہیں ہے، بلکہ ہمیں خوشی ہو گی، لیکن ۔۔۔۔۔ جمہوریت، انسانی حقوق، سائنس اور ٹیکنالوجی پر مغرب نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور وہ جدید ترین اور اعلیٰ ترین سائنسی تحقیقات اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بات اب کسی ابہام میں نہیں ہے، بلکہ وہ ریڈ لائنیں ہر باشعور شخص کو دکھائی دے رہی ہیں جو مغرب نے مسلمانوں کو اعلیٰ ترین سائنس اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کے لیے قائم کر رکھی ہیں اور مغرب ان ریڈ لائنوں پر پوری قوت کے ساتھ پہرہ دے رہا ہے۔ اس لیے ہمارے دانش وروں کو چاہیے کہ اب وہ مغرب سے سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھنے کی تلقین میں وقت ضائع کرنے کی بجائے امتِ مسلمہ کی ان متبادل راستوں کی طرف رہنمائی کریں، جو اسے اس حوالہ سے موجودہ بحران اور خلا سے نکال سکیں۔

باقی رہی بات جمہوریت اور انسانی حقوق کی، تو مغرب کی مادر پدر آزاد جمہوریت اور یکطرفہ انسانی حقوق ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ہم جمہوریت کے اس پہلو کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ہم نے ہی سب سے پہلے دنیا کو اس سے متعارف کرایا ہے کہ حکومت کی تشکیل عوامی رائے سے ہونی چاہیے اور عوام ہی کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے حکومت کا چناؤ کریں، لیکن کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت اور پارلیمنٹ ہر فیصلے میں آزاد ہے؟ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے نزدیک ایک صحیح اور جائز حکومت وہی ہے جو عوام کی مرضی سے قائم ہو، لیکن وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی پابند ہو اور قرآن و سنت کی ہدایات کے مطابق ملک کا نظام چلائے۔ آسمانی تعلیمات سے بالاتر کسی حکومت یا پارلیمنٹ کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے اور ہم مغربی جمہوریت کے اس پہلو کو قبول کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہیں۔

یہی معاملہ انسانی حقوق کا ہے۔ مغرب کا انسانی حقوق کا فلسفہ اور نظام وحی الٰہی کی ہدایات سے ہٹ کر ہے اور اس میں حقوق اللہ کا کوئی تصور نہیں ہے، جبکہ اسلام نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کے توازن اور بیلنس کے ساتھ حقوق کا جامع نظام دیا ہے اور ہم مغرب کے انسانی حقوق کے فلسفہ کی خاطر حقوق اللہ اور حقوق العباد کے قرآنی نظام سے دست بردار ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

میں نے آج کے عالمی تناظر اور تہذیبی و فکری کشمکش کے ماحول میں درپیش چند عملی و فکری مسائل پر گزارشات پیش کی ہیں اور یہ کوشش کی ہے کہ آج کے معروضی منظر کی ایک جھلک آپ کے سامنے رکھ سکوں۔

آخر میں اربابِ فہم و دانش کی خدمت میں دو گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو ایسے مواقع پر ہمیشہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ

(۱) ان حالات سے لاتعلق نہ رہیں۔ میرے نزدیک کسی عالمِ دین یا صاحبِ فکر و دانش کا ان حالات میں اس فکری و تہذیبی کشمکش سے بالکل لاتعلق رہنا بہت بڑا جرم ہے، جسے اگر فکری ارتداد نہ بھی کہا جائے تو انحراف اور اعراض کے درجہ کی چیز ضرور ہے۔ یہ ملی جدوجہد ہے اور اجتماعی محنت ہے، جس میں ہر شخص کو ضرور حصہ لینا چاہیے۔

(۲) البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات اور ضروریات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے ذوق، احوال و ظروف اور صلاحیت و مواقع کا جائزہ لے کر اپنے مناسبِ حال شعبہ کا انتخاب کریں اور محنت کے جس پہلو کو اپنے کام کے لیے زیادہ مناسب سمجھتے ہیں، اسی کو اپنے لیے میدان کے طور پر منتخب کریں۔ ضروری نہیں کہ آپ ہر شعبہ میں کام کریں، لیکن کسی نہ کسی شعبہ میں کچھ نہ کچھ تو ضرور کر سکتے ہیں۔ آپ جو آسانی سے کر سکتے ہیں وہی کریں، لیکن ضرور کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک دوسرے کے کام کا احترام کریں اور اجتماعی جدوجہد کا ماحول پیدا کریں۔

میں ورلڈ اسلامک فورم کی اس فکری نشست کے اہتمام پر ابراہیم کمیونٹی کالج، لندن کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہماری حاضری اور مل بیٹھنے کو قبول فرمائیں اور دینی و ملی مقاصد کے لیے مثبت اور مؤثر انداز میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter