قاری سیف اللہ اختر میرے بہت پرانے دوستوں میں سے ہیں، وہ جہادِ افغانستان کے ان رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے پاکستان کے کوچے کوچے، بستی بستی میں نوجوانوں کو روسی استعمار کے خلاف جہاد کے لیے تیار کیا اور پھر ان کی عملی رہنمائی بھی کی۔ ان کا روحانی تعلق حضرت سید نفیس شاہ مدظلہ العالی سے ہے اور آج کل وہ اپنے شیخ کی قائم کردہ خانقاہ سید احمد شہیدؒ لاہور میں ان کی ہدایت پر روحانی سلسلہ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، حضرت شاہ صاحب مدظلہ ان دنوں بیمار اور صاحبِ فراش ہیں۔ قاری سیف اللہ اختر کی دعوت پر گزشتہ جمعرات کو مجھے خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں حاضری اور ایک دینی و روحانی محفل میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں وقتاً فوقتاً حاضر ہوتا رہتا ہوں اور حاضری کا مقصد اس نسبت کو تازہ رکھنا ہوتا ہے جو اس سلسلہ کے بزرگوں سے اور حضرت سید نفیس شاہ مدظلہ کے ساتھ مجھے حاصل ہے۔ یہ عقیدت اور محبت کی نسبت ہے، جو حضرت شاہ صاحب کے حوالے سے بھی ہے اور حضرت سید احمد شہیدؒ کے حوالے سے بھی، جن کے نام سے یہ خانقاہ موسوم ہے۔ ہمارے پاس اس وقت یہ نسبتیں ہی ہیں، جو ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نسبتوں کو قائم رکھیں اور ہمیں ان نسبتوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
حضرت شاہ صاحب مدظلہ کے ساتھ میری نسبت اور عقیدت کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ ان کا تعلق کتاب اور مطالعہ سے ہے اور میں بعض حوالوں سے انہیں چلتی پھرتی لائبریری سے تعبیر کرتا ہوں۔ میں اس نسبت سے بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا ہوں، بلکہ لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں ان کے ساتھ تھا جب انہوں نے نایاب اور نادر کتابوں کے اس عالمی مرکز کا دورہ کیا تھا۔ لیکن آج مجھے کہا گیا ہے کہ میں خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں اس خانقاہ کے مسترشدین کے سامنے کچھ گزارشات پیش کروں، اس لیے آج خانقاہ کے بارے میں کچھ عرض کروں گا اور حضرت سید احمد شہیدؒ کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
میں صوفیاء سے محبت ضرور رکھتا ہوں، لیکن خود اس میدان کا شخص نہیں ہوں، میری سرگرمیوں اور دلچسپیوں کا میدان دین کے دوسرے شعبے ہیں اور اس حوالے سے آج ایک بات آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں جو اس سے قبل میں نے آج تک کسی کے سامنے نہیں کی، وہ یہ کہ میرے والد محترم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے چند سال قبل، جبکہ وہ معذور ہو کر صاحبِ فراش ہو چکے تھے، ایک دن مجھے فرمایا کہ میں تصوف کے بارے میں کتاب لکھنا چاہتا تھا جو میں نہیں لکھ سکا، لیکن اب یہ کام تم نے کرنا ہے اور تم میرے ساتھ اس بات کا وعدہ کرو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تصوف کے موضوع پر اس مجوزہ تصنیف کا ایک بنیادی خاکہ میرے سامنے رکھا اور اس سلسلے میں مجھے بعض ہدایات بھی دیں۔ میں نے ان سے وعدہ کر لیا اور اس وعدہ کی تکمیل کے لیے اپنے ذہن میں ابھی تک اس تصنیف کا تانا بانا بن رہا ہوں، مگر مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ حضرت والد صاحب میرے ذوق اور مزاج کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں، میری تمام تر فکری اور علمی سرگرمیوں کا ہدف مغرب کا فکر و فلسفہ ہے اور میں اسی کے دائرے میں کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں۔ پھر باقاعدہ تصنیف بھی میرے ذوق میں شامل نہیں ہے اور میں کسی موضوع پر جو کچھ بھی کہتا چاہتا ہوں اسے ایک دو مضامین میں نمٹانے کی کوشش کرتا ہوں، تو اس بات کے علم کے باوجود حضرت والد صاحب نے مجھے تصوف پر باقاعدہ کتاب لکھنے کے لیے کیوں کہا ہے؟ کافی دنوں تک میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا رہا، مگر جلد ہی میری دلچسپی کا میدان اس حوالے سے سامنے آ گیا، جب مغربی دانشوروں کی طرف سے سنجیدگی کے ساتھ یہ کہا جانے لگا کہ عالم اسلام میں نفاذ اسلام اور شریعت کی بالادستی کے رجحانات کو روکنے کے لیے ”صوفی اسلام“ کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ مغرب کے ایجنڈے میں یہ بات شامل ہو گئی ہے کہ مسلم معاشرے میں ملا کے اسلام کے مقابلے میں صوفی اسلام کو اجاگر کیا جائے، اس مقصد کے لیے پاکستان میں باقاعدہ طور پر ”صوفی کونسل“ تشکیل پا گئی ہے، جس کے سرپرست اعلیٰ جنرل پرویز مشرف ہیں اور صدر چودھری شجاعت حسین کو بنایا گیا ہے۔ اس کونسل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں صوفی اسلام کو متعارف کرایا جائے۔
یہ بات سن کر میرا ذہن داراشکوہ اور اورنگزیب عالمگیر کی کشمکش کی طرف چلا گیا، جسے عام طور پر دو بھائیوں میں اقتدار کی جنگ سمجھا جاتا ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے، یہ اقتدار کی جنگ بھی ہو گی، لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ دو فلسفوں اور نظریوں کی کشمکش تھی، ایک طرف داراشکوہ تھا جو اکبر بادشاہ کے خود ساختہ دین الٰہی کی باقیات کا پرچم اٹھائے ہوئے تھا اور تصوف کی اس بگڑی ہوئی شکل کی نمائندگی کر رہا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کا عرفان اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسلام اور ہندو مت کے فرق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی، جبکہ دوسری طرف اورنگزیب عالمگیر حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحریک اور تعلیمات کا علمبردار تھا، جس کی بنیاد شریعت اسلامیہ کی عملی بالادستی پر تھی۔ چنانچہ اس پس منظر میں میرے خیال کے مطابق ”صوفی اسلام“ سے آج کے مغربی دانشوروں اور مسلم دنیا میں ان کے نمائندوں کی مراد وہی اکبر بادشاہ اور داراشکوہ کا فکر و فلسفہ ہے، جسے نئے انداز میں سامنے لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
پھر صوفی اسلام کے ساتھ مغرب کی دلچسپی کی ایک وجہ اس کا یہ بہت بڑا مغالطہ بھی ہے کہ چونکہ تصوف فرد کی بات کرتا ہے اور بادی النظر میں معاشرے کے اجتماعی معاملات سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور مغرب کا سیکولر فلسفہ بھی مذہب کو صرف فرد تک محدود کر کے معاشرے کے اجتماعی معاملات سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رکھنا چاہتا، اس لیے بعض مغربی دانشوروں کے نزدیک ان کے سیکولر ازم اور مذکورہ صوفی اسلام میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ دونوں صرف فرد کی بات کرتے ہیں اور مذہب کے حوالے سے اجتماعیت اور معاشرہ ان کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے۔ لیکن یہ مغربی دانشوروں کا مغالطہ ہے، اس لیے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جتنے بھی سچے صوفیاء کرام گزرے ہیں انہوں نے فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اجتماعی معاملات کو درست رکھنے کے لیے بھی محنت کی ہے اور اجتماعیت کے لیے بھی ہر دور میں قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے شیخ محترم مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اپنی ضخیم تصنیف ” تاریخ دعوت و عزیمت“ میں امتِ مسلمہ کے ہر دور کے جن اصحابِ عزیمت کا مرحلہ وار تذکرہ کیا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ اپنے دور کے عظیم مجاہد تھے، جنہوں نے مسلم معاشرہ کو بگاڑ سے بچانے کے لیے قربانیاں دیں اور معاشرے کی اجتماعی اصلاح کے لیے جدوجہد کی ہے، بلکہ وہ اپنے اپنے دور کے ممتاز صوفیاء کرام بھی تھے اور فرد کی اصلاح اور تزکیہ نفس کے لیے بھی مسلسل مصروفِ عمل رہتے تھے۔
تصوف کا سب سے اہم ہدف تزکیہ نفس اور فرد کی اصلاح ہی ہے، جس کے لیے قرآن کریم نے متعدد آیات مقدسہ میں تلقین فرمائی ہے، بلکہ ایک مقام پر سورج، چاند، زمین، آسمان، دن اور رات وغیرہ کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ ”کامیاب وہی شخص ہے جس نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی اور جو اپنے نفس کی اصلاح نہ کر سکا وہ ناکام ہو گیا۔“ اسی طرح قرآن کریم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں جہاں تلاوتِ قرآن کریم، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت کا ذکر کیا ہے، وہاں تزکیہ کو بھی نبوی فرائض میں شمار کیا ہے اور تزکیہ کا معنی یہی تربیت و اصلاح کا عمل ہے، جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی عادات و عبادات اور اخلاق و اعمال کی اصلاح کے لیے فرماتے تھے اور اسی نے آگے چل کر تصوف و سلوک کی شکل اختیار کر لی ہے۔
آج دین کی خدمت کے جتنے شعبے نظر آتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ان میں سے کوئی کام بھی بطور شعبہ کے نہیں ہوتا تھا، البتہ ذوق کی تقسیم ضرور موجود تھی، جو بعد میں تقسیم کار اور مختلف دینی شعبوں کے وجود میں آنے کی بنیاد ثابت ہوئی۔ مثلاً
- حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں یاد کرنا اور انہیں بیان کرتے رہنا خاص طور پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذوق تھا، جس پر محدثین کرام رحمہم اللہ کے ایک پورے طبقے کی بنیاد قائم ہو گئی۔
- قرآن کریم کی آیات کی تفسیر و تاویل اور ان کا محل و مصداق بیان کرنا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا خصوصی ذوق تھا، جس نے مفسرین کے طبقے کی شکل اختیار کر لی۔
- قرآن کریم کی قرأت بطور خاص حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی اور ان کی پیروی میں قراء کرام کا ایک باضابطہ طبقہ تشکیل پا گیا۔
- فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا اور ان سے لوگوں کو خبردار کرنا حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا ذوق تھا اور اس ذوق کے حاملین ان کے بعد ایک مستقل طبقہ کی صورت میں ہمیشہ سے اسی کام میں مصروف چلے آ رہے ہیں۔
- اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت تزکیہ نے بھی آگے چل کر ایک باقاعدہ دینی شعبہ کی حیثیت اختیار کر لی، جسے سلوک و تصوف اور احسان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ اس ذوق کی آبیاری کرتے آ رہے ہیں۔
اس لیے یہ سمجھنا کہ تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز ہے یا تصوف و سلوک کو اختیار کرنے کا مطلب شریعت کی اہمیت کو کم کرنا یا اسے نظر انداز کر دینا ہے، بالکل غلط بات ہے اور حقیقی تصوف سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ تصوف و سلوک کا تعلق انسان کے باطن سے ہے، لیکن اس کا مطلب ظاہر کی نفی نہیں ہے۔
میں مثال کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ میڈیکل سائنس کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی مشینری میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کی حرکت پر پورے جسم کی حرکت کا مدار ہے اور اس کی خرابی سے پورے جسم کا نظام گڑبڑ ہو جاتا ہے، یہ دل کا ظاہری عمل ہے، جبکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ انسانی بدن میں دل کی اصلاح پر پورے بدن کی اصلاح اور دل کے فساد پر پورے بدن کے فساد کا مدار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی وہی بات میڈیکل سائنس کہتی ہے، لیکن سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما کر میڈیکل سائنس کے کسی نکتہ کی وضاحت نہیں فرما رہے، بلکہ دل کے باطنی عمل کی بات کر رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق دل کے باطنی عمل سے ہے کہ دل جہاں حرکت کر کے جسم کو خون مہیا کرتا ہے، وہاں غصہ، کینہ، حسد، عداوت اور نفرت جیسی بیماریوں کا مرکز بھی یہی دل ہے۔ اس لیے جس طرح جسم کے نظام کو صحیح رکھنے کے لیے اس کی ظاہری حرکت کو درست اور متوازن رکھنا ضروری ہے، وہاں اس کی باطنی بیماریوں کا علاج بھی ضروری ہے اور دل کی ان باطنی بیماریوں کے علاج کا نام ”تصوف و سلوک“ ہے۔
یہاں ضمناً ایک بات ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ایک محفل میں مدرسہ اور خانقاہ کی افادیت و ضرورت پر گفتگو ہو رہی تھی، محفل میں بعض ڈاکٹر صاحبان بھی موجود تھے، میں نے عرض کیا کہ دل کے ظاہری عمل کی بات میڈیکل سائنس کرتی ہے، جبکہ اسی دل کے باطنی عمل کی بات مدرسہ اور خانقاہ کرتے ہیں۔ اس لیے آدھا کام آپ لوگ کرتے ہیں اور آدھا کام ہم کرتے ہیں، جب ہم آپ کے کام سے انکار نہیں کرتے تو آپ حضرات کو ہمارے کام کی افادیت و ضرورت کو تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہوتا ہے؟ بہرحال تصوف و سلوک اگرچہ باطن سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن وہ ظاہر کی نفی نہیں کرتے اور نہ ہی تصوف و سلوک کو ظاہر کے مقابلے میں کھڑا کرنے یا اسے ظاہر کا متبادل قرار دینے کی سوچ درست ہے۔
میں یہ بات ایک اور حوالے سے بھی کرنا چاہوں گا کہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بات موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ایک حکم کا مطلب ایک جگہ اور بیان فرمایا، مگر دوسری جگہ اس کی تشریح مختلف الفاظ میں فرمائی۔ ایک مقام پر ظاہری کیفیت کا ذکر کیا اور دوسرے مقام پر اس کے باطنی معنی کی طرف نشاندہی کی۔ یہ ایک دوسرے کی نفی نہیں، بلکہ ایک چیز کو ظاہر سے باطن تک اور نارمل حیثیت سے کمال تک پہنچنے کی صورت ہے۔ مثلاً
- اسلام کا معنی ایک حدیث میں یہ ارشاد فرمایا کہ ”تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دو، نماز کی پابندی کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔“ جبکہ دوسری حدیث میں فرمایا کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔“ اسلام کا یہ دوسرا معنی پہلے معنی کی نفی نہیں ہے، بلکہ اس کے کمال کا اظہار ہے۔
- اسی طرح ایک حدیث میں ایمان کی عملی صورت یہ بیان فرمائی کہ ”تم اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، تقدیر پر اور بعث بعد الموت وغیرہ پر ایمان لاؤ۔“ مگر دوسری حدیث میں فرمایا کہ ”مومن وہ ہے جسے دوسرے مسلمان اپنی جانوں اور مالوں پر امین سمجھیں۔“
- ہجرت کا شرعی معنی یہ بیان فرمایا کہ جس جگہ مسلمان اپنے دین کے ضروری احکام پر عمل میں دشواری محسوس کریں، وہاں سے ترکِ وطن کر کے ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ دین کے ضروری احکام پر آزادی سے عمل کر سکیں، لیکن ایک حدیث میں یہ بھی بیان فرمایا کہ ”مہاجر وہ ہے جس نے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں کو ترک کر دیا۔“
- جہاد کا شرعی حکم یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، لیکن ایک حدیث میں فرمایا کہ ”مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔“
ان سب مقامات پر دوسرے معانی پہلے معنوں اور مطالب کی نفی نہیں ہیں، بلکہ ان کے کمال کے اظہار سے عبارت ہیں۔ اس لیے تصوف اور سلوک شرعی احکام و اعمال کی نفی یا ان سے اعراض کا نام نہیں، بلکہ ان میں باطنی کمال پیدا کرنے اور انہیں پالش کر کے عمدہ سے عمدہ تر بنانے کا نام ہے۔
اس طرح تصوف و سلوک بھی دین کا اسی طرح کا ایک شعبہ ہے جس طرح قرآن کریم کے حفظ و تجوید کا شعبہ ہے، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت و تعلیم کا شعبہ ہے، فقہ اسلامی کی صورت میں قرآن و سنت سے مسائل و احکام کے استنباط کا شعبہ ہے، قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا شعبہ ہے، دین کی دعوت و تبلیغ کا شعبہ ہے، اسلامی عقائد کے تحفظ اور گمراہ کن عقائد کی تردید کا شعبہ ہے اور اسلامی روایات و اقدار کی حفاظت کا شعبہ ہے۔ یہ تمام شعبے دین کے مختلف حصے ہیں، دین کی ضروریات اور تقاضوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں دین کے ان کاموں کا مستقل شعبوں کے طور پر موجود نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ دین سے الگ کوئی چیزیں ہیں یا دین میں اضافہ ہیں۔ یہ سارے کام دین ہی کے ہیں، صرف اتنی بات ہے کہ ابتدا میں یہ باقاعدہ شعبوں اور طبقوں کی صورت میں نہیں، بلکہ مختلف بزرگوں کے الگ الگ ذوق کی صورت میں تھے، پھر رفتہ رفتہ ان میں سے ہر دینی ذوق نے ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات کی صورت اختیار کر لی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”حجۃ اللہ البالغۃ“ کے مقدمہ میں اس مسئلہ پر خوب بحث کی ہے اور اس سوال کا جواب دیا ہے کہ احکامِ شرعیہ کی مصالح اور حکمتیں بیان کرنے کے عمل کو وہ ایک منظم اور مربوط علم و فن کی صورت میں بیان کر ر ہے ہیں، حالانکہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں نہیں تھا تو کیا یہ بدعت اور امت کے تعامل کی خلاف ورزی تو نہیں ہے؟ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ علم حدیث جس طرح بعد میں منظم ہوا اور اس کی روایت و درایت اور تعبیر و تشریح کے باب میں کئی مستقل فنون و علوم وجود میں آئے، وہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں موجود نہیں تھے اور اس زمانے میں ان کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس کی ضرورت جوں جوں پیش آتی گئی، اس کے مطابق مختلف شعبے اور علوم و فنون تشکیل پاتے چلے گئے۔ اسی طرح اب یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں احکامِ اسلام اور شرعی قوانین و ضوابط کی جو مصلحتیں اور حکمتیں جابجا بیان ہوئی ہیں، انہیں ایک باقاعدہ فن اور علم کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں۔
اس پس منظر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تصوف و سلوک دین ہی کا ایک اہم شعبہ ہے، لیکن جس طرح ماضی کے مختلف ادوار میں اسے دین کے شرعی ڈھانچے سے انحراف کے لیے غلط طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے، آج بھی تصوف و سلوک کو اسی رنگ میں پیش کرنے اور اس کے ذریعے شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین کو بے وقعت اور غیر ضروری قرار دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ تصوف و سلوک کی صحیح صورت کو پیش کرنے کا کام بھی تیز کیا جائے اور اس کا سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کیا جائے، لیکن یہ صرف بیانات اور زبانی وضاحتوں کی صورت میں نہیں ہو گا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خانقاہ کے حقیقی کردار اور تزکیہ و اصلاح کے عملی نمونہ کو بھی سامنے لانا ہو گا۔ ہم اپنے عمل و کردار سے تصوف، سلوک، احسان، تزکیہ اور خانقاہ کا صحیح کردار پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ماضی کی طرح اب بھی اس کے خلاف اہل باطل کی سازشیں بالآخر ناکام ہوں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔