بزرگوں کی نسبت اور تذکرہ کا مقصد

   
۱۹ نومبر ۲۰۱۳ء

(خانقاہِ طفیلیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا شاہد معاویہ صاحب ہمارے باذوق ساتھی ہیں جو اہل بیت عظامؓ کے تذکرہ کے عنوان سے ہر سال اس بابرکت اجتماع کا اہتمام کرتے ہیں اور مجھے بھی اس میں حاضری کی سعادت سے بہرہ ور کرتے ہیں جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں۔ بزرگوں کی نسبت سے جمع ہونے اور ان کا تذکرہ کرنے میں جہاں برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ تعلق و نسبت کا اظہار ہوتا ہے وہاں ان سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملتا ہے، جو اکابر اور بزرگوں کے تذکرہ کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اب نسبتوں کا یہ سرمایہ ہی باقی رہ گیا ہے اس کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور انہی نسبتوں کے باعث دنیا اور آخرت دونوں جگہ خیر و سعادت کے حصول کی ہم امید رکھتے ہیں۔ یہ مولانا شاہد معاویہ کے حسن ذوق کی علامت ہے کہ وہ خانقاہی ماحول قائم رکھے ہوئے ہیں اور اہل بیت عظامؓ کے تذکرہ کے لیے یہ سالانہ اجتماع کرتے ہیں۔

خانقاہ طفیلیہ ہمارے محترم بزرگ حضرت مولانا سید طفیل احمد شاہ صاحبؒ کی نسبت سے کام کر رہی ہے، میرا ان کے ساتھ نیازمندانہ تعلق رہا ہے بلکہ اس خاندان کے ساتھ ایک عرصہ سے میرا تعلق چلا آرہا ہے۔ حضرت مولانا سید نیاز احمد گیلانیؒ جس دور میں جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے سیکرٹری جنرل تھے مجھے ان کے ساتھ صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت مولانا سید فضل الرحمن احرارؒ ملک کے نامور اور شعلہ نوا خطیب تھے، ان کے ساتھ بہت سے جلسوں اور اسفار میں رفاقت رہی اور حضرت مولانا سید طفیل احمد شاہؒ کی خدمت میں بھی حاضری ہوتی رہی، اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کے درجات جنت میں بلند تر فرمائیں، آمین۔

یہ مجلس حضرات اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم کے مبارک تذکرہ کے لیے منعقد ہو رہی ہے، ویسے تو ہم جب صحابہ کرامؓ کا نام لیتے ہیں تو ان میں سبھی طبقات شامل ہوتے ہیں۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں اور جناب نبی اکرم اصلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے دیگر افراد اور اولاد و احفاد بھی صحابہ کرامؓ ہی کا اہم حصہ ہیں، اس لیے اصولاً اہل بیت عظامؓ کے الگ تذکرہ کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن خاندان نبوت کا مستقل طور پر الگ حوالہ سے تذکرہ بھی برکات اور سعادتوں کا باعث ہے اس لیے مستقلاً بھی ان کے تذکرہ کا اہتمام کر لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں آج کی اس محفل کی مناسبت سے مختصراً چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اور ان برکتوں اور سعادتوں میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔

بیتِ رسولؐ اور اہل بیتِؓ رسولؐ کے حوالہ سے ایک بات تو یہ عرض کروں گا کہ دنیا نے خوامخواہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کے افسانے گھڑ لیے ہیں جبکہ دونوں کے باہمی مراسم اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام کے جذبات تاریخ کا حصہ ہیں اور اس کے سینکڑوں مظاہر ہمارے علمی ذخیرہ میں بکھرے پڑے ہیں۔ اہل بیتؓ کے جذبات صحابہ کرامؓ کے بارے میں کیا تھے اور صحابہ کرامؓ کے جذبات اہل بیت کے بارے میں کیا تھے، اس پر دو تاریخی واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔

خاندان نبوت کی ایک عظیم شخصیت حضرت علی بن حسین بن علیؓ جنہیں دنیا حضرت امام زین العابدینؓ کے نام سے یاد کرتی ہے اور وہ حضرت امام حسینؓ کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے سیدنا حضرت عثمانؓ کے بارے میں ایک سوال کیا، سوال اور اس کا انداز مناسب نہ تھا اور اس سے حضرت عثمانؓ کے خلاف نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ اس پر حضرت امام زین العابدینؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کے بارے میں بات تو بعد میں ہو گی پہلے تم اپنے بارے میں بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کیا تم مہاجر ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں میں مہاجرین میں سے نہیں ہوں۔ پھر پوچھا کہ کیا تم انصار میں سے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں!

حضرت امام زین العابدینؓ نے فرمایا کہ قرآن کریم نے اہل ایمان کے تین طبقات بیان فرمائے ہیں (۱) ’’للفقراء المہاجرین ...‘‘ (۲) ’’والذین تبوؤا الدار ...‘‘ انصار مدینہ، اور (۳) ’’والذین جاءوا من بعدھم ...‘‘ ہجرت اور نصرت کے دور یعنی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے لوگ ہیں۔ جبکہ اس تیسرے طبقے کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ جو اپنے لیے اور اپنے پیشرو بزرگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت و رحمت کی دعا مانگتے رہتے ہیں اور یہ دعا بھی اس کا حصہ ہوتا ہے کہ ’’ولا تجعل فی قلوبنا غلًا للذین اٰمنوا‘‘ اے اللہ ہمارے دلوں میں پہلے بزرگوں کے بارے میں کوئی بغض اور کینہ نہ پیدا ہونے دینا۔ امام زین العابدینؓ نے فرمایا کہ اہل ایمان کے پہلے دو طبقوں کے بارے میں تم خود کہہ رہے ہو کہ تم ان میں سے نہیں ہو اور حضرت عثمانؓ کے بارے میں تمہارا انداز بتا رہا ہے کہ تم تیسرے طبقے میں سے بھی نہیں ہو۔ اس لیے پہلے اپنے ایمان کی فکر کرو پھر حضرت عثمانؓ کے بارے میں کوئی سوال کرنا۔ اس سے حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں اہل بیت عظامؓ کے جذبات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اہل بیتؓ کے بارے میں صحابہ کرامؓ کے جذبات کیا تھے، اس پر بھی ایک واقعہ سن لیں۔

امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے دور میں بیت المال سے وظائف کی تقسیم کے لیے درجات اور گریڈ طے کر رکھے تھے، ان کے مطابق مختلف طبقات کے لوگوں کو وظیفہ دیتے تھے۔ اس تقسیم میں حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ایک گریڈ میں آئے تھے مگر حضرت عمرؓ نے وظیفہ میں فرق رکھا ہوا تھا۔ اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو جتنا وظیفہ دیتے تھے حضرت امام حسینؓ کو اس سے پانچ سو درہم سالانہ زیادہ دیتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنے والد محترم امیر المؤمنین حضرت عمرؓ سے ایک موقع پر اس کا شکویٰ کیا تو فرمایا عبد اللہ! حسینؓ کا مقابلہ نہ کرو، تمہارا باپ آج اگر امیر المؤمنین ہے تو حسینؓ کے نانا کی برکت سے ہے، اور یہ بات یاد رکھو کہ تم عمر بن الخطابؓ کے بیٹے ہو اور حسینؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہے۔

اس سے حضرات صحابہ کرامؓ اور حضرات اہل بیت عظامؓ کے درمیان محبت و احترام کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے، ہمارے لیے دونوں محترم ہیں اور دونوں کی محبت و عقیدت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے باہمی محبت و احترام کے جذبات کا تذکرہ کرتے ہوئے میں بیتِ رسولؐ کے داخلی ماحول اور اس چار دیواری کے اندر رہنے والوں کے باہمی جذبات کا تذکرہ کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں اور بیسیوں واقعات میں سے اس موقع پر صرف دو واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔

سیدہ فاطمہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے ایام میں اپنے والد محترم سے ملنے اور عیادت کے لیے تشریف لایا کرتی تھیں، ایک مشہور واقعہ ہے کہ نبی اکرمؐ نے اپنی لاڈلی بیٹی کے کان میں ایک بات فرمائی تو وہ رونے لگ گئیں، تھوڑی دیر کے بعد ان کے کان میں ایک اور بات کہی تو وہ مسکرا پڑی اور ہنسنے لگ گئیں۔ وہاں سے اٹھنے کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے ان سے علیحدگی میں پوچھا کہ کیا بات ہوئی تھی کہ ایک بات پر تم رونے لگ گئیں اور دوسری بات پر ہنس پڑیں؟ سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ ابا جان نے کان میں بات فرمائی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ راز تھا اس لیے میں یہ راز ظاہر نہیں کروں گی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چند روز بعد ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے دوبارہ پوچھا اور کہا کہ میں تمہیں ماں ہونے کے حق کا واسطہ دیتی ہوں کہ مجھے وہ بات ضرور بتاؤ، اس پر حضرت فاطمہؓ نے بتایا کہ پہلی بار ابا جان نے فرمایا تھا کہ میں اسی بیماری میں رخصت ہونے والا ہوں تو میں جدائی کے تصور میں رونے لگی۔ پھر ابا جان نے فرمایا کہ تم بھی جلدی میرے پاس آؤ گی تو میں ہنس پڑی کہ جدائی کا یہ عرصہ کم ہو گا۔

یہ تو ماں بیٹی کے درمیان محبت و احترام کی بات تھی، بیتِ رسولؐ میں جو ازواج مطہراتؓ رہتی تھیں وہ آپس میں سوکنیں بھی تھیں اور اس حیثیت سے ان کے درمیان فطری طور پر نوک جھونک چلتی رہتی تھی، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحشؓ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ ’’ھی التی تسامینی من ازواج النبیؐ‘‘ ان کے ساتھ میری نوک جھونک سب سے زیادہ ہوتی تھی اور ہم ایک دوسرے پر مختلف حوالوں سے فخر جتایا کرتی تھیں۔ لیکن جب ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے خلاف منافقین نے بہتان تراشا اور کم و بیش ایک ماہ مدینہ منورہ کے ماحول میں اس کا چرچا ہوتا رہا جس سے نبی اکرمؐ کو بہت پریشانی تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان باتوں سے سب سے زیادہ فائدہ حضرت زینبؓ اٹھا سکتی تھیں جبکہ ان کی بہن حضرت حمنہ بنت جحشؓ بھی اس پروپیگنڈا مہم میں شریک تھیں۔ لیکن جب جناب نبی اکرمؐ نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحشؓ سے ان باتوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کمال دیانت و تقویٰ کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے عائشہؓ میں خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ جبکہ سب سے زیادہ دلچسپ جواب حضرت عائشہؓ کی خادمہ حضرت بریرہؓ نے دیا کہ یا رسول اللہ! عائشہؓ ایک بے پرواہ سی لڑکی ہے، رات کو آٹا گوندھ کر کھلا رکھ دیتی ہے جسے بکری آ کر کھا جاتی ہے اور صبح کو یہ ڈھونڈتی پھرتی ہے کہ آٹا کہاں گیا؟ اس کے سوا میں نے عائشہؓ میں کوئی عیب نہیں دیکھا۔

حضرات محترم! یہ چند باتیں میں نے اس محفل میں شرکت کے لیے اور ان بزرگوں کے ساتھ نسبت اور عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے عرض کر دی ہیں، اصل بات ان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ بزرگوں اور اسلاف کے تذکرہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان سے راہنمائی حاصل کریں، ان کے واقعات سے سبق سیکھیں اور حتی الامکان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری یہ حاضری قبول فرمائیں اور ہم سب کو اپنے بزرگوں کے ساتھ نسبت میں استقامت اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے ہمیشہ نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter