(سیالکوٹ میں کمشنر گوجرانوالہ جناب عبد الجبار شاہین کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سر کردہ علماء کرام کے علاوہ، مسیحی، سکھ اور ہندو کمیونٹی کے راہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ ادارہ نصرۃ العلوم)
محرم الحرام اسلامی ہجری سن کا پہلا مہینہ ہے اور یہ ہر سال اپنے ساتھ امت مسلمہ کے دو عظیم سانحوں کی یاد لے کر آتا ہے۔ یکم محرم الحرام امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا یوم شہادت ہے اور دس محرم کو سیدنا حضرت امام حسینؓ کی قیادت میں خانوادۂ نبوت نے کربلا میں اپنی مقدس جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اسلامی تاریخ ان کے دو المناک واقعات کی یاد کے ساتھ ہم ہر محرم الحرام میں نئے سال کا آغاز کرتے ہیں اور دنیا بھر میں مسلمان اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان بزرگوں کا تذکرہ کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مقررین کی فہرست طویل ہے اس لیے تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس وجہ سے دونوں بزرگوں یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ کے حوالہ سے صرف ایک تاریخی واقعہ کا تذکرہ کر کے ان کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنا چاہوں گا۔
کتاب الاموال میں روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے شہریوں کے جو وظیفے مقرر کیے ان میں درجہ بندی قائم فرمائی تھی۔ بیت المال سے وظائف کی تقسیم میں حضرت ابوبکرؓ کا ذوق مساوات کا تھا اس لیے انہوں نے سب کو یکساں وظیفے دیے لیکن حضرت عمرؓ درجہ بندی کے قائل تھے چنانچہ انہوں نے گریڈ سسٹم کا اہتمام کیا اور مختلف درجے مقرر کر کے ان کے مطابق فرق کے ساتھ شہریوں کے وظیفے مقرر فرمائے۔ اس تقسیم میں حضرت امام حسینؓ اور حضرت عمرؓ کے فرزند عبد اللہ بن عمرؓ ایک گریڈ کے دائرے میں آتے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے ان کے وظیفوں میں فرق رکھا۔ حضرت امام حسینؓ کو پانچ ہزار درہم سالانہ ملتے تھے اور حضرت عمرؓ کے بیٹے عبد اللہ بن عمرؓ کو ساڑھے چار ہزار درہم دیے جاتے تھے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے والد محترم حضرت عمر بن الخطابؓ سے بات کی کہ جب ہم دونوں ایک گریڈ کے دائرے میں آتے ہیں تو حضرت حسینؓ کو مجھ سے زیادہ وظیفہ کیوں دیا جاتا ہے اور میرا وظیفہ ان سے کم کیوں ہے؟ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ خفا ہو گئے اور اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ تمہیں حضرت حسینؓ کے ساتھ برابری کا خیال کیسے آگیا؟ پھر فرمایا کہ تمہارے باپ کو یہ مقام جو حاصل ہے وہ حسینؓ کے نانا کی برکت سے ہے اور یہ بات ذہن میں رکھو کہ تم عمرؓ کے بیٹے ہو اور حسینؓ کے نانا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اہل بیت عظام اور حضرت حسینؓ کا مقام و مرتبہ کیا تھا، اگر آج بھی ہم اس باہمی جذبہ و احترام کا لحاظ رکھ سکیں تو بہت سے مسائل و تنازعات خودبخود حل ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت عمرؓ کا بیت المال کا نظام جو ایک مثالی رفاہی ریاست کی بنیاد تھا اور آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ کا نمونہ تھا آج کی دنیا کے لیے بھی ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالہ سے معیار اور سمبل کی حیثیت رکھتا ہے اور حضرت عمرؓ کے طرز حکومت اور نظام کفالت کو سوشل جسٹس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ حضرت امام حسینؓ کو تاریخ ظلم و جبر کے خلاف حق پر ڈٹ جانے اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے کے مقدس جذبہ کی علامت تصور کرتی ہے اور ان کی اپنے خانوادہ سمیت کربلا میں شہادت پر اس حوالہ سے دنیا بھر میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
مجھے اور آپ کو اس مرحلہ میں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے بزرگوں کو بار بار یاد کرتے ہیں تو اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟
- ہمارا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ ہم ان بزرگوں کا تذکرہ کر کے ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں اور کمٹمنٹ کو تازہ کرتے ہیں۔
- ہمارا دوسرا مقصد ان بزرگوں کو یاد کرنے سے یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے تذکرہ سے برکات حاصل کرتے ہیں اور ان بزرگوں کا تذکرہ جہاں بھی ہو یقیناً باعث رحمت و برکت ہوتا ہے۔
- لیکن اس کے ساتھ ان بزرگوں کی زندگیاں اور کارنامے صاف اور شفاف آئینے ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہم اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور عیوب کا پتہ چلا سکتے ہیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ابھی مجھ سے قبل ایک فاضل مقرر سیدنا حضرت حسینؓ کا ایک ارشاد نقل کر رہے تھے جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں امت کی اصلاح کے لیے میدان میں نکلا ہوں۔ میرے خیال میں اس میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے اس لیے کہ آج امت میں اصلاح کے جدوجہد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور حضرت امام حسینؓ کی عظیم جدوجہد اس کے لیے ہماری راہنمائی کرتی ہے۔
اس حوالہ سے میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آج امت مسلمہ کی مجموعی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں تین بزرگوں کی حیات طیبہ اور جد و جہد کو بطور خاص پیش نظر رکھنا چاہیے:
سوشل جسٹس اور ویلفیئر اسٹیٹ آج ہماری بہت بڑی قومی ضرورت ہے جس کے لیے حضرت عمرؓ کا نظام عدل و حکومت راہنما اور آئیڈیل ہے اور اس کی پیروی کر کے ہم سوشل جسٹس اور ویلفیئر اسٹیٹ کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔
امت کی وحدت اور شیرازہ بندی آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے جس کی طرف سیدنا حضرت امام حسنؓ ہماری راہنمائی کرتے ہیں اور ان کی زندگی میں ایک بڑا سبق یہ ہے کہ امت کی وحدت اور ملت کی شیرازہ بندی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے، حتٰی کہ اگر اقتدار اور حکومت کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔
جبکہ ظلم و جبر کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے اور اس کے لیے ڈٹ جانے کا سبق ہمیں حضرت امام حسینؓ کی زندگی اور جدوجہد میں ملتا ہے، انہوں نے جس بات کو ظلم سمجھا اس کے خلاف ڈٹ گئے اور جس کو حق سمجھا اس کی خاطر نہ صرف اپنی مقدس جان کا بلکہ پورے خانوادہ کی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔
اپنے اسلاف اور بزرگوں کے ساتھ اپنی نسبت اور کمٹمنٹ کا اظہار ہمارے لیے باعث فخر ہے اور ان کا تذکرہ سراسر باعث رحمت و برکت ہے، لیکن اصل مقصد ان کی پیروی ہے اور ان سے راہنمائی حاصل کرنا ہے تاکہ ہم ان کے صحیح پیروکار بن سکیں۔ اللہ کرے کہ ہمارا آج کا یہ اجتماع اس ذوق کو بیدار کرنے کا ذریعہ بن جائے اور ہم سب کے لیے با مقصد ثابت ہو، آمین یا رب العالمین۔