روزنامہ اوصاف لاہور ۲۷ جولائی ۲۰۲۱ء کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:
’’لاہور ہائی کورٹ نے بہن کو ۲۳ سال تک وراثتی جائیداد سے محروم رکھتے ہوئے بھائیوں کے حق میں ٹرائیل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جسٹس شاہد ہلال حسن نے اللہ وسائی کی نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ جاری کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دکھ کی بات ہے کہ بی بی اللہ وسائی نے اپنے بھائیوں سے اپنے حق کیلئے ۲۳ سال تک لڑتے لڑتے وفات پا گئی ہے، مسلم ریاست ہونے کے ناطے سے وراثت کا حق سب کو ملنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ ہم بحیثیت قوم ۲۱ ویں صدی میں بہت دور نکل آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسلام کے آنے کے ۱۴۰۰ سال بعد بھی لوگ عورتوں کے وراثتی حقوق نہیں دینا چاہتے۔‘‘
کیس کی تفصیلات تو خیر میں موجود نہیں ہیں، مگر یہ بات واضح ہے کہ مسلم معاشرہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کے ہوتے ہوئے بھی ایک خاتون کو پون صدی کے لگ بھگ اپنی وراثت کے جائز حق کے لیے اپنے ہی بھائیوں سے عدالتی جنگ لڑنا پڑی ہے اور بالآخر وہ اس حالت میں زندگی کے دن پورے کر کے اپنے رب کے پاس چلی گئی ہے۔
عورتوں کے حقوق و مفادات انسانی معاشرہ کا ہمیشہ سے بڑا مسئلہ رہے ہیں اور اس عنوان سے مختلف طبقات کے درمیان طویل کشمکش کے باوجود عورت اپنے جائز اور مسلمہ حقوق سے ابھی تک محروم چلی آرہی ہے، جبکہ عورت کی آزادی اور حقوق کے نام پر ہر طرف جد و جہد کا غلغلہ ہے اور دنیا بھر میں ہزاروں این جی اوز اس کے لیے اپنے زعم میں برسر پیکار ہیں، اسلام نے چودہ سو سال قبل کی معاشرتی روایات کو رد کرتے ہوئے نہ صرف بچیوں کے قتل کو جرم قرار دے کر عورت کہ زندگی کا حق دلوایا تھا بلکہ اسے ملکیت وراثت کے ساتھ ساتھ رائے کا حق اور اجتماعی معاملات میں شرکت و مشاورت کا حق بھی دلوایا تھا جو قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کے حکمرانی کے دور میں اسے حاصل رہا اور اسلامی تاریخ اس حوالہ سے شاندار ریکارڈ رکھتی ہے، مگر نو آبادیاتی دور نے عالم اسلام میں مسلم سوسائٹیوں کا جس بری طرح حلیہ بگاڑا ہے اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں یا تو علاقائی اور قومیتی روایات کے سہارے عورت کو وراثت کے حق تک سے محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ دوسری طرف اسے مطلق آزادی کے نام پر مادر پدر آزاد سوسائٹی کی نمائندہ بنانے کی مہم جاری ہے، جس سے وہ اپنے اصل اور جائز حقوق سے بھی محروم ہو کر رہ گئی ہے۔
پاکستان میں جب بھی عورت کی مظلومیت اور اس کے حقوق کی آواز اٹھی ہے ہم نے ہر موقع پر عرض کیا ہے کہ اس کے لیے ہمیں افراط و تفریط کے ماحول سے نکل کر قرآن و سنت کی تعلیمات اور خلافت راشدہ کی شاندار روایات کی طرف واپس آنا ہو گا ورنہ ہم عورت بلکہ کسی بھی طبقہ کو اس کے جائز حقوق مہیا نہیں کر سکیں گے۔
عورت کے حقوق کے تعین اور ادائیگی کے لیے ہمیں یورپ اور امریکہ کے معاشرتی ماحول کو نہیں بلکہ اپنے ملک کے سماجی تناظر کو دیکھنا ہو گا، ہماری یہ نفسیات بن چکی ہیں کہ تناظر اور ماحول تو یورپ اور امریکہ کا سامنے رکھتے ہیں اور مسائل پاکستان، ایشیا اور عالم اسلام کے حل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مختلف زمانوں میں اور مختلف علاقوں کے سماج کا پس منظر اور ماحول ایک دوسرے سے ہمیشہ مختلف رہا ہے اور قیامت تک رہے گا۔
ہمارے سماجی تناظر میں عورت کے حقوق سے محرومی اور مظلومیت کے مسائل یہ نہیں کہ اس نے لباس کس سائز کا پہن رکھا ہے اور اسے اپنے جسم اور حسن کی نمائش کے مواقع میسر ہیں یا نہیں؟ بلکہ ہمارے ہاں عورت کی مظلومیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے خاوند سے مہر اور باپ سے وراثت کا حق عام طور پر نہیں ملتا اور اس کے ساتھ ہمارا معاشرتی رویہ خلافت راشدہ کے دور کی بجائے اپنے علاقائی ماحول اور تناظر میں تشکیل پاتا ہے جسے مسلمانوں کی روایات قرار دے کر ہم مظلومیت کے اس ماحول کو باقی رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہم لاہور ہائی کورٹ کے ان ریماکرس کا خیر مقدم کرتے ہوئے ریاستی اداروں اور عورت کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سنجیدہ تنظیموں سے گزارش کریں گے کہ وہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی تعلیمات اور خلافت راشدہ کی روایت و ماحول کے مطابق اپنے معاشرہ کی تشکیلِ نو کی محنت کریں، یہ بہت مشکل کام ہے مگر اس کے سوا ہمارے سماجی مسائل اور عورتوں سمیت مختلف طبقات کی مظلومیت سے نجات دلانے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے، اللہ پاک ہم سب کو اس کیلئے مخلصانہ محنت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔