گزشتہ حکومت کے دور میں اوقاف کے حوالے سے نیا قانون قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مختلف مراحل میں پاس ہو کر نافذ ہوا تو اس پر دینی حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار ہوا اور اسے مساجد و مدارس کی مسلمہ آزادی کے ساتھ ساتھ اوقاف کے شرعی قوانین اور شہری حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا۔ جس پر اس وقت کی حکومت سے اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ دینی حلقوں بالخصوص دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر نظرثانی کی جائے گی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی سے کہا گیا کہ وہ نظر ثانی کا مسودہ مرتب کر کے حکومت کو پیش کریں، جو انہوں نے قومی اسمبلی کے اس وقت کے اسپیکر صاحب محترم کو پیش کر دیا۔ مگر اس حوالے سے مزید کوئی عملی پیشرفت ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
اس کے ساتھ اس بات کو بھی شامل کر لیا جائے تو بات مزید واضح ہو جائے گی کہ دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ محکمہ تعلیم کے مذاکرات میں طے پایا کہ جو دینی مدارس اپنے وفاقوں کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے محکمہ تعلیم کے تحت بھی رجسٹرڈ ہونا چاہتے ہیں وہ رجسٹریشن کرا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اس رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوگیا مگر یہ صورتحال سامنے آئی کہ محکمہ تعلیم کے متعلقہ شعبہ میں رجسٹرڈ کرانے کے لیے معروضی صورتحال کے بارے میں متعلقہ ریاستی اداروں اور وفاقوں کی تصدیق کو ضروری سمجھے بغیر محض ایک فارم پر کرنے پر کسی بھی مدرسہ کے نام سے انتظامیہ کو رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے، تو تشویش پیدا ہوئی کہ اس طرح تو کسی مدرسہ کے نام سے کوئی گروپ بھی خود کو رجسٹرڈ کروا سکتا ہے اور یہ بات مدارس کے ماحول میں خلفشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس پر پاکستان شریعت کونسل اسلام آباد کے ایک وفد نے مولانا ثناء اللہ غالب اور مولانا حافظ سید علی محی الدین کی سربراہی میں وفاقی محکمہ تعلیم کے متعلقہ شعبہ کے ذمہ دار حضرات سے صورتحال معلوم کرنے کے لیے ملاقات کی جس میں یہ امور سامنے آئے کہ
- اب تک اس سلسلہ میں پندرہ ہزار سے زائد دینی مدارس ملک بھر میں وفاقی محکمہ تعلیم کے متعلقہ شعبہ میں رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔
- یہ رجسٹریشن دینی مدارس کے کسی وفاق یا متعلقہ ریاستی اداروں کی تصدیق کے بغیر صرف ایک فارم پُر کرنے پر کی جا رہی ہے۔
جبکہ اس حوالہ سے کچھ مقامات پر یہ شکایات موصول ہوئیں کہ بعض مقامات پر مساجد و مدارس کی پہلے سے موجود انتظامیہ کے مخالفین نے اپنے طور پر اس مسجد و مدرسہ کے نام سے خود کو رجسٹرڈ کروا کے موجود انتظامیہ کے ساتھ تنازعہ کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے، مثلاً:
- اسلام آباد میں جی ٹین ون کی جامع مسجد عثمانؓ میں اس قسم کے حالات پیدا ہوئے تو محکمہ اوقاف نے مداخلت کر کے اسے اپنے انتظام میں لینا چاہا` جس کا اسلام آباد کے علماء نے نوٹس لے کر اس کو رکوا دیا۔
- گوجرانوالہ کے محلہ شاہین آباد کی ایک مسجد میں یہی معاملہ ہوا، چند افراد نے باہر باہر سے رجسٹریشن حاصل کے کے محکمہ اوقاف کے ذریعہ مسجد کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس پر علماء کرام کی مقامی قیادت نے نوٹس لیا اور بمشکل اس کی روک تھا کی گئی۔
- ساروکی وزیر آباد کی قدیمی درسگاہ مدرسہ قاسم العلوم میں وہاں کی انتظامیہ کے مخالفین نے خود کو محکمہ تعلیم کے متعلقہ شعبہ میں رجسٹرڈ کروا کے مدرسہ کے انتظام میں مداخلت شروع کی تو اصل انتظامیہ نے عدالت سے رجوع کیا، اور بالآخر عدالتِ عالیہ لاہور نے متوازی انتظامیہ کو ختم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔
- گوجرانوالہ کے سب سے قدیم مدرسہ انوار العلوم میں بھی اس قسم کی متوازی انتظامیہ وفاقی محکمہ تعلیم سے رجسٹرڈ کروا کے مداخلت کا سلسلہ شروع کیا گیا، جسے مدرسہ کے ماحول اور اصل انتظامیہ نے قبول نہیں کیا تو متوازی انتظامیہ نے عدالت سے رجوع کیا اور اب اس کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اس سلسلہ میں پاکستان شریعت کونسل اسلام آباد نے اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری زید مجدہم کی بھجوائی تو انہوں نے جوابی مکتوب میں بتایا کہ محکمہ تعلیم کے ساتھ مدارس کی رجسٹریشن کا اصولی فیصلہ تو ہوا تھا مگر اس سلسلہ میں طریق کار اور تفصیلات طے کرنے کا جو مرحلہ ابھی تک طے نہیں ہوا جبکہ اس کے بغیر ہی رجسٹریشن کا یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
اس پس منظر میں گوجرانوالہ کے علماء کرام کے ایک حلقہ نے ’’گوجرانوالہ علماء فورم‘‘ کے عنوان سے دینی مدارس کو خلفشار کے ماحول سے بچانے کے لیے جدوجہد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس کے عید الفطر کے بعد ہونے والے ایک اجلاس کی رپورٹ فورم کے رابطہ سیکرٹری مولانا حافظ امجد محمود معاویہ کے قلم سے ملاحظہ فرما لیں:
’’گوجرانوالہ علماء فورم نے محکمہ تعلیم کی طرف سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں ملک بھر کے دینی حلقوں سے رابطے کرنے اور ۱۸ مئی بروز جمعرات کو گوجرانوالہ میں مشترکہ احتجاجی کنونشن منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ گوجرانوالہ علماء فورم کے ایک مشاورتی اجلاس میں کیا گیا جو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حافظ گلزار احمد آزاد کی زیر صدارت منعقد ہوا اور اس میں مولانا قاری محمد ریاض، حاجی بابر رضوان باجوہ، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، مولانا فضل الہادی، حافظ عبدالجبار، عبدالقادر عثمان و دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار حکام کے بقول اب تک وزارت تعلیم کے تحت پندرہ ہزار سے زائد مدارس کی رجسٹریشن ہو چکی ہے اور یہ دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ متفقہ فیصلہ کے مطابق ہو رہی ہے۔ جبکہ وفاق المدارس العربیہ کی قیادت کا موقف یہ ہے کہ رجسٹریشن کے اصولی فیصلہ کے بعد محکمہ تعلیم اور دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان باہمی مشاورت کے ذریعہ طریقِ کار اور دیگر تفصیلات طے ہونا باقی تھے کہ رجسٹریشن کا یہ عمل یکطرفہ طور پر شروع کر دیا گیا ہے اور مسلسل جاری ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس رجسٹریشن پر محکمہ تعلیم اور دینی مدارس کے وفاقوں کا اتفاق نہیں ہے اور یہ متنازع ہے اس لیے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے دینی مدارس کے ماحول میں خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی دینی مدرسہ کی رجسٹریشن کے لیے ذمہ دار اداروں یا وفاقوں کی طرف سے تصدیق کے پابند نہیں ہیں اور محض ایک فارم پُر کرنے پر رجسٹریشن کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں بہت سے مدارس کی اصل انتظامیہ کو نظر انداز کر کے متوازی انتظامیہ رجسٹرڈ کر دی گئی ہے جیسا کہ مدرسہ قاسم العلوم ساروکی وزیرآباد کے ساتھ ہوا ہے اور انہوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کر کے متوازی رجسٹریشن منسوخ کرائی ہے۔ جبکہ مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں بھی اسی نوعیت کا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اجلاس میں طے پایا ہے کہ دینی مدارس کو خلفشار کے اس ماحول سے بچانے کے لیے ملک گیر سطح پر جدوجہد ضروری ہے ورنہ ہر جگہ تنازعات کھڑے ہوں گے اور مدارس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، اجلاس میں گوجرانوالہ علماء فورم کی طرف سے محکمہ تعلیم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اب تک رجسٹرڈ کیے جانے والے دینی مدارس کی فہرست جاری کرے تاکہ مقامی سطح پر زمینی حقائق کا جائزہ لے کر ان رجسٹریشنوں کی چھان بین کی جا سکے، اجلاس میں دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں صورتحال کی وضاحت کریں اور دینی مدارس کے معاملات کو خراب ہونے سے بچائیں اجلاس میں طے پایا کہ دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی جانے والی رجسٹریشن کسی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی اور اگر قوت کے ذریعے اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اس کی مزاحمت کی جائے گی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کی ٹریفک حادثہ میں شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور ان کی دینی اور ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔‘‘
محکمہ اوقاف اور محکمہ تعلیم دونوں اس حوالے سے اپنے اپنے دائروں میں متحرک ہیں اور مساجد و مدارس کی مسلّمہ آزادی و خود مختاری اور اوقاف سے متعلقہ شرعی و شہری حقوق کے حوالے سے تحفظات و اشکالات بڑھتے جا رہے ہیں، اس لیے ملک بھر کے علماء کرام، دینی جماعتوں بالخصوص دینی مدارس کے وفاقوں کی اجتماعی قیادت سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ کی نزاکت کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے دلچسپی لیں اور جو حضرات اس سلسلہ میں جدوجہد کرنا چاہتے ہیں ان کی سرپرستی و معاونت فرمائیں۔