پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کی روداد

   
۲۲ مارچ ۲۰۱۳ء

آج کے کالم میں ”پاکستان شریعت کونسل“ کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ۱۶ مارچ ۲۰۱۳ء کو مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ منوں نگر، حسن ابدال میں امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مولانا زاہد الراشدی (گوجرانوالہ)، مولانا عبد القیوم حقانی (نوشہرہ)، مولانا عبد الحق خان بشیر (گجرات)، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر (لاہور)، مولانا حافظ مہر محمد (میانوالی)، مولانا رشید احمد درخواستی (کراچی)، مولانا عبد الحق عامر (مانسہرہ)، مفتی محمد نعمان (پسرور)، مولانا مفتی محمد سیف الدین (اسلام آباد)، حافظ سید علی محی الدین (اسلام آباد)، پروفیسر حافظ منیر احمد (وزیر آباد)، قاری ذکاء الرحمٰن اختر (لاہور)، مولانا قاری محمد الیاس (اسلام آباد)، حاجی وقاص احمد پراچہ (کوہاٹ)، جناب صلاح الدین فاروقی (ٹیکسلا)، حاجی محمد سلیمان (حسن ابدال)، مولانا صفی اللہ (حسن ابدال)، مفتی سیف الرحمٰن (اسلام آباد) اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔

پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس لیے انہیں پہلے سے زیادہ حوصلے اور تدبر کے ساتھ محنت کرنا ہو گی۔

انہوں نے اپنے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بنگلہ دیش کے عوام میں دین کے ساتھ محبت اور دینی تعلیم کا ذوق بڑھتا جا رہا ہے اور کم و بیش ہر علاقے میں اس کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عوام کو صحیح رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں علمائے کرام جو رہنمائی مہیا کر دیتے ہیں وہ اسی پر گامزن ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ پورے ذوق اور محنت کے ساتھ انہیں صحیح سمت چلائیں۔

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے اجلاس میں کارگزاری کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان شریعت کونسل نے اپنے دائرہ کار کو اہم مسائل کی طرف توجہ دلانے اور متعلقہ حلقوں کو ان کے حوالے سے بریفنگ اور رہنمائی مہیا کرنے تک محدود رکھا ہوا ہے اور ہماری یہ حکمت عملی رفتہ رفتہ لوگوں کی توجہ حاصل کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نفاذِ شریعت اور اسلامی عقائد و روایات کے تحفظ و دفاع کے حوالے سے درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں، اس کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرتے ہیں اور متعلقہ حلقوں کو اس کی طرف توجہ دلا کر محنت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم مختلف اہم مسائل کے حوالے سے مثبت پیشرفت کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں سزائے موت کے خاتمے کا بل پیش ہونے پر ہم نے اہم ارکان اسمبلی کو توجہ دلائی، برما کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں سیاسی رہنماؤں سے دلچسپی لینے کی استدعا کی، نگران وزیر اعظم کے طور پر عاصمہ جہانگیر کا نام سامنے آنے پر ہم نے مجلس احرار اسلام کے ساتھ مل کر اس کے خطرات سے رائے عامہ اور قومی حلقوں کو متوجہ کیا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ کشیدگی جو صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اس کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم اس کے لیے متعلقہ حلقوں سے رابطے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نفاذِ شریعت اور دینی حلقوں میں باہمی رابطوں کے فروغ کے لیے علمی و فکری محاذ پر جس کام کی ضرورت ہے، وہ نہیں ہو رہا اور ہم یہ احساس بیدار کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔

پاکستان شریعت کونسل کی مجلس شوریٰ نے ملک میں عام انتخابات کے سلسلے میں صورت حال کا جائزہ لیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ سیکولر حلقے عالمی اور قومی سطح پر پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریاتی شناخت کو کمزور کرنے کے لیے جو محنت کر رہے ہیں، اس کے سدباب کے لیے قومی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تعاون کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے اور اس کے لیے پاکستان شریعت کونسل کی قیادت کو کام کرنا چاہیے۔ اس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام دینی حلقوں اور مذہبی جماعتوں سے باضابطہ اپیل کی جائے کہ وہ اگلے انتخابات میں اسلامی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے باہمی تعاون اور ایثار و قربانی سے کام لیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان شریعت کونسل کے رہنماؤں کے وفود مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے اس مسئلے پر بات کریں گے۔

مجلس شوریٰ نے تمام مذہبی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مشترکہ فورم کا اہتمام کر کے عام انتخابات میں حصہ لیں یا کم از کم باہمی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ اسلامی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے روکیں۔

مجلس شوریٰ کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ انتخابات ملک کے نظریاتی تشخص، نفاذِ اسلام اور قومی خود مختاری کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں اور ان انتخابات کے نتائج ملک و قوم کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے، اس لیے دینی حلقوں اور جماعتوں کو اس صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا پوری طرح اندازہ ہونا چاہیے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شریعت کونسل خود انتخابات میں حصہ نہیں لے گی، لیکن دینی حلقوں میں مفاہمت کے فروغ، اسلامی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے اور اسلام اور اسلامی روایات کی پاسداری کرنے والے امیدواروں کی کامیابی کے لیے محنت کرے گی، نیز کسی حلقے میں دینی رہنما آپس میں مدمقابل ہوئے تو ان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کرے گی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان شریعت کونسل کا مرکزی دفتر مستقل طور پر مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ حسن ابدال، ضلع اٹک میں قائم کیا جائے گا، جس کے ناظم و انچارج جناب صلاح الدین فاروقی آف ٹیکسلا ہوں گے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کی فہرست پر نظر ثانی کر کے ملک کے تمام علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل مجلس شوریٰ ازسرنو تشکیل دی جائے گی اور مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا عبد الحق خان بشیر اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی اس فہرست کو حتمی شکل دے گی۔

اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کے دستور پر بھی نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے صلاح الدین فاروقی، مفتی محمد سیف الدین اور حافظ سید علی محی الدین پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی، جو مرکزی مجلس شوریٰ کے آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرے گی۔

مجلس شوریٰ نے ایک قرارداد کے ذریعے گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے اس متفقہ موقف کا خیر مقدم کیا ہے کہ شمالی علاقہ جات کی خاص سیاسی اور جغرافیائی صورت حال کے پیش نظر اس خطے کو جموں و کشمیر کے مستقبل کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حتمی فیصلہ ہونے تک ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ہی شامل رکھا جائے اور الگ سیاسی حیثیت دے کر عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے۔ قرارداد میں پاکستان کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے سیاسی و دینی رہنماؤں کے اس مشترکہ موقف کی حمایت کریں اور اس پر عملدرآمد کرانے کے لیے پیشرفت کریں۔

اجلاس میں ایک اور قرارداد کے ذریعے کوئٹہ اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ان مذموم واقعات کو روایتی طور پر باہمی الزامات کے حوالے کر دینے کی بجائے ان کے اصل عوامل و محرکات کو بے نقاب کیا جائے اور اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ بہت سے عالمی اور علاقائی حلقے اس خطے میں بدامنی کو فروغ دینے کے لیے مسلسل متحرک ہیں اور ان کو بے نقاب کیے بغیر بلوچستان اور کراچی کی صورت حال میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سنی شیعہ کشیدگی اور اس میں تشدد کے واقعات میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ سطح پر عدالتی کمیشن قائم کر کے کشیدگی میں اضافے کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کی جائے اور اس کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کا اہتمام کیا جائے۔

مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد مرکز حافظ الحدیث میں ایک عمومی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں علمائے کرام، طلبہ اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد القیوم حقانی اور مولانا عبد الحق خان بشیر نے خطاب کیا اور علمائے کرام اور دینی کارکنوں سے پاکستان شریعت کونسل کی جدوجہد میں شریک ہونے کی اپیل کی۔

   
2016ء سے
Flag Counter