سود کا معاشی و معاشرتی استحصال (۲)

   
دنیا نیوز کا ’’پیام صبح‘‘
۲۳ ستمبر ۲۰۱۴ء

انیق احمد: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم محترم خواتین و حضرات! السلام علیکم پیام صبح کے ساتھ ایک بار پھر حاضر میں ہوں آپ کا میزبان انیق احمد۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۷۵ کا ہم نے کل آغاز کیا۔ اس سے پچھلی آیات میں انفاق پر مسلسل گفتگو ہوئی اور کل سے بات شروع ہو رہی ہے سود کے خلاف جو کہ انفاق، صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات کی ضد ہے۔ خواتین و حضرات! ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے ساتھ آج وہی پینل ہے جو کل ہمارے ساتھ تھا، لاہور اسٹوڈیوز میں تشریف فرما ہیں محترم علامہ زاہد الراشدی صاحب۔

سوال: علامہ صاحب! میں بڑا شکر گزار اور بڑا ممنون ہوں کہ آپ ہمارے ساتھ کل بھی تھے اور آج بھی آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ ان شاء اللہ تعالی آج ہم آپ سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۷۵ جہاں کل بات رکی تھی اس سے آگے بات کریں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے اس کے کیا کیا پہلو ہیں وہ بھی ہم آپ سے جانیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو سود ہی ہے دونوں میں کیا فرق ہے؟ ایک تو آپ یہ ارشاد فرمائیے۔

جواب: الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین و علیٰ اٰلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔ انیق صاحب! میں پھر آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس اہم موضوع پر گفتگو میں مجھے دوبارہ شریک کیا اور آج بھی ہم سود کے حوالے سے قرآن پاک کی آیت کے دائرے میں بات کریں گے ان شاء اللہ العزیز اور میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ساتھ شریکِ محفل ہمارے فاضل دوست حضرت مولانا مفتی ارشاد احمد اعجاز صاحب بھی تشریف فرما ہیں اور ہماری گفتگو اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر ہو گی ان شاء اللہ۔

دیکھیے اس آیت کریمہ میں جو آپ نے تلاوت کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتیں فرمائی ہیں۔ پہلی اصولی بات یہ ہے ”احل اللہ البیع وحرم الربوا“ کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے۔ اللہ پاک نے اس اصول کا اعلان کیا ہے کہ حلال و حرام اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ایک بہت بڑی بات ہے کہ کیا حلال حرام کا فیصلہ ہم نے یعنی سوسائٹی نے خود کرنا ہے یا آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر ہونا ہے؟ اللہ پاک نے پہلی بات تو یہ کہی کہ حلال و حرام کرنا اللہ کا کام ہے اور سوسائٹی کو یہ اختیار اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا کہ وہ از خود حلال حرام کے معاملات طے کرے۔ میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ دیکھیے اللہ رب العزت اگر حلال و حرام کے معاملے میں کائنات میں کسی کو اختیار دیتے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس کا حقدار کوئی نہیں تھا، لیکن حضورؐ نے اپنی ذات کے لیے شہد کی ممانعت فرمائی تو اللہ پاک نے ”لم تحرم ما احل اللہ لک“ کہہ کر حضور نبی کریمؐ سے کہا کہ نہیں جناب !حلال و حرام میرا معاملہ ہے اور حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی فرماتے ہیں۔ اللہ کے حلال کیے ہوئے کو حرام کرنا یا اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حلال کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفع و نقصان کو خود اتنا نہیں سمجھتا، بلکہ نہیں سمجھتا، اللہ تعالیٰ نے یہ سارا نظام بنایا ہے اور بنانے والا اپنی بنائی ہوئی چیز کے نفع و نقصان کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمارے نفع و نقصان اور ہمارے ضرر و فائدے کو بہتر سمجھتے ہیں اور وہ ہمارے خیر خواہ بھی ہیں۔ اس لیے اللہ پاک کہتے ہیں کہ میں ہی طے کروں گا کہ تمہارے نفع کی کون سی چیز ہے اور نقصان کی کون سی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ کسی اور حوالے سے فرمایا ہے ”لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا“ رشتوں کے حوالے سے جہاں وراثت کی بات کی ہے تو اللہ پاک نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ کون سا رشتہ تمہارے لیے زیادہ نفع بخش ہے، بلکہ میں جانتا ہوں، اس لیے اس کی تقسیم بھی میں ہی کروں گا اور اللہ رب العزت فرماتے ہیں حلال و حرام کا فیصلہ بھی میرا ہی ہوگا۔ ایک بات تو یہ فرمائی۔

دوسری بات یہ فرمائی کہ بیع کو اللہ پاک نے حلال کیا ہے اور ربا کو حرام کیا ہے۔ ان میں فرق کیا ہے؟ میں نے کل کی گفتگو میں بھی عرض کیا تھا کہ اس میں بہت سے فرق ہیں، لیکن ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ تجارت طرفین سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے اور ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کا نام ہے، جبکہ ربا یکطرفہ بات ہے، یہ نفع اور نقصان کا یک طرفہ پہلو ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی ضرورت سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ایک آدمی دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ ایک پہلو میں نے عرض کیا ہے کہ تجارت اور ربا میں یہ فرق ہے۔

ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ یہ بات تجربات سے بالکل روشن ہے کہ صدقات اور زکوۃ کے ذریعے مال کی گردش ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے زکوٰۃ کا ایک نظام دیا ہے اور اس کا فلسفہ یہ بیان کیا ہے ”کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم“ کہ زکوٰۃ، صدقات اور وراثت کا نظام دولت کو اوپر سے نیچے تقسیم کرتا ہے اور دولت کو کسی ایک جگہ مرتکز نہیں ہونے دیتا، کیونکہ دولت کہیں بھی مرتکز ہو جائے گی تو فساد اور خرابیوں کا باعث بنے گی۔ زکوۃ اور وراثت سے دولت تقسیم ہوتی ہے، جبکہ سود سے دولت سمٹ سمٹا کر چند ہاتھوں میں آ جاتی ہے اور جب دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آ جاتی ہے تو پھر وہ جو نقصانات پیدا کرتی ہے۔

دیکھیں، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی عجیب سی مثال دی ہے کہ سوسائٹی میں دولت کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کے جسم میں خون ہے۔ انسان کے جسم کا مدار خون کی گردش پر ہے، جسم کے کسی حصے میں اگر خون ضرورت کے مطابق نہ پہنچے تو فالج ہو جاتا ہے، جسم کا وہ عضو کام نہیں کرتا، لیکن اگر ضرورت سے زیادہ جا کر وہاں سے واپس نہ آئے تو وہ خون فاسد ہو جاتا ہے، اس سے پھوڑے پھنسیاں پیدا ہوتی ہے اور خرابی پیدا ہوتی ہے، اس لیے توازن پر ہی زندگی ہے۔ دولت کی مثال سوسائٹی میں ایسے ہی ہے جیسے انسان کے جسم میں خون کہ اگر وہ زیادہ ہو جائے تب خرابی پیدا کرتا ہے اور ضرورت کے مطابق نہ پہنچے تب بھی خرابی پیدا کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اسی بات کو فرمایا کہ دولت کی گردش نیچے سے اوپر نہیں ہونی چاہیے، دولت کی گردش اوپر سے نیچے ہونی چاہیے اور سود دولت کے سارے ذرائع کو سمیٹ سمٹا کے چند افراد کے ہاتھ میں، یا بین الاقوامی برادری، یا چند ممالک یا چند قوموں کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ سود جائز نہیں ہے اور تجارت چونکہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کا نام ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کے نفع و نقصان کا خیال رکھنے کا نام ہے اس لیے وہ جائز ہے۔

تیسری بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ حلال حرام کے تمام معاملات میں تجارت کی بھی ساری قسمیں جائز نہیں ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی جائز اور ناجائز قسموں کی وضاحت فرمائی ہے، لیکن میں اس تفصیل میں نہیں جاتا۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں حلال و حرام اور نفع و نقصان کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ جبکہ آج کا اصول یہ ہے کہ جب دو فریق آپس میں راضی ہیں تو تیسرے فریق کو کیا اعتراض ہے؟ سود میں بھی یہی کہا جاتا ہے، زنا میں بھی یہی کہا جاتا ہے اور حلال حرام کے معاملات میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جب لینے دینے والے دونوں فریق راضی ہیں تو تیسرے فریق کو کیا اعتراض ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ محض دو فریقوں کا راضی ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان دونوں کی آپس کے رضامندی کے عمل کا سوسائٹی پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ اسلام میں حرمت کی حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جس عمل پر چاہے فریقین راضی ہوں، انہیں ایک دوسرے پر اعتراض نہ ہو، لیکن ان کا عمل اگر سوسائٹی کی اخلاقیات پر، سوسائٹی کے سسٹم پر، سوسائٹی کے مزاج پر، اجتماعی نفع و نقصان پر اثر انداز ہوتا ہے تو اسلام نے اس کی بھی اجازت نہیں دی اور میرے خیال میں اس سے زیادہ خوبصورت اور اس سے زیادہ متوازن سسٹم نہیں ہو سکتا اور دنیا اس پر آ رہی ہے۔

سوال: جو آپ نے بہت اہم بات فرمائی کہ سود سے معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سودی سوسائٹی اور غیر سودی سوسائٹی یا اس کو ذرا اور کھول لیتے ہیں کہ ایک ہے سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی سوسائٹی اور ایک سوسائٹی وہ کہ جو ”یؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ“ پر کھڑی ہے، مولانا! دونوں میں کیا فرق ہے؟

جواب: گزارش ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام یا سودی نظام جیسے آج دنیا کے سامنے ہے اس کی بنیاد بینک کاری پر ہے، جبکہ جو اسلام کا مزاج ہے ”یؤثرون علیٰ انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ“ اس کی بنیاد بیت المال ہے۔ بیت المال جو اسلام کی رفاہی ریاست کا ایک عنوان ہے وہ معاشرے کے ضرورت مند اور نادار افراد کی ضروریات کی کفالت کرتا ہے، ان پر کوئی رحم کرتے ہوئے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت نے معاشرے کے ضروریات پر خرچ کرنے کو حق قرار دیا ہے ”فی اموالھم حق للسائل والمحروم، اٰت ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل“ اسلام کے مزاج کو اگر سمجھا جائے تو بیت المال کا نظام سوسائٹی کے تمام نادار اور معذور افراد و طبقات کی کفالت کی بنیاد ہے، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد خودغرضی پر اور مال جمع کرنے پر ہے کہ میرا مال جمع ہوتا رہے، چاہے میرے پڑوسی کو کچھ ملتا ہے یا نہیں ملتا، غریب آدمی کو کچھ ملتا ہے یا نہیں ملتا۔ اور اسلام کے نظام کی بنیاد دوسروں کی خیر خواہی پر ہے ”والنصح لکل مسلم“ بلکہ ”لکل انسان“ کہ ہر انسان کی خیر خواہی پر چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، دولت کی تقسیم پر اور معاشرے کے نادار اور بے سہارا افراد کی کفالت کی ذمہ داری پر اسلامی نظام کی بنیاد ہے۔

میں ایک بات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات بڑی مختصر فرمائی، لیکن بہت جامع فرمائی۔ ایک موقع پر فرمایا ”من ترک مالا فلورثتہ ومن ترک کلا او ضیاعا فالی وعلی“ جو آدمی مال چھوڑ کر فوت ہوا وہ مال وارثوں کو ملے گا، ہم اسے نہیں چھیڑیں گے، لیکن اگر کوئی آدمی بوجھ چھوڑ کے مرا ہے یا لاوارث اور بے سہارا خاندان اور بچے چھوڑ کے مرا ہے تو حضورؐ نے بڑا خوبصورت جملہ فرمایا ”فالیّ وعلیّ“ کہ وہ میرے پاس آئیں گے اور صرف میرے پاس آئیں گے نہیں، بلکہ وہ میری ذمہ داری میں ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی جملہ بیت المال کی بنیاد اور اساس ہے کہ بیت المال ذمہ دار ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ شاید دنیا میں ایسا بہت ہوا ہوگا، حکمرانوں، بادشاہوں، سرداروں اور سربراہوں نے معاشرے کے نادار افراد پر خرچ کیا ہے، بہت اچھے اچھے لوگ گزرے ہیں، لیکن وہ ”الیّ“ کے درجے میں ہیں، ”علی“ کا درجہ میری طالبعلمانہ رائے کے مطابق سب سے پہلے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میری ذمہ داری میں ہوں گے اور میری کفالت میں ہوں گے۔ اسی لیے اسلام صدقات، انفاق اور معاشرے کے افراد کی کفالت کو ترجیح دیتا ہے اور اس پر اپنے سسٹم کی بنیاد رکھتا ہے۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی روح خودغرضی، بخل، مال جمع کرنا، گن گن کر رکھنا اور سوسائٹی کی اجتماعی ضروریات اور نادار طبقات کی ضروریات سے لا تعلق ہو جانا ہے، اس کا یہ مزاج ہے جس کی وجہ سے اسلام اس مزاج کو پسند نہیں کرتا۔

سوال: اسلامی نظام اور بیت المال کی تشکیل اور تعمیر کیسے ممکن ہوتی ہے؟

جواب: میں اس پر ایک تاریخی واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بیت المال کا تصور کیا ہے اور بیت المال کا سوسائٹی میں رول کیا ہے؟ امام ابو عبیدؒ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگلی صدی کے آغاز کا، جبکہ بیت المال کو ایک سو سال گزر چکا تھا، بیت المال کی کیفیت پر ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین تھے اور عراق کے گورنر عبد الحمید تھے۔ عراق کے گورنر نے امیر المومنین کو خط لکھا کہ اس سال میرے صوبے کی آمدنی اور اخراجات سارا بجٹ پورا ہو کر کچھ پیسے بچ گئے ہیں، فاضل بجٹ ہے، میں فاضل پیسوں کا کیا کروں؟ سال کی ساری ضروریات پوری کرنے کے بعد میرے پاس کچھ پیسے بچ گئے ہیں، کیا کروں؟ تو امیر المؤمنین نے جواب دیا کہ اعلان کریں کہ آپ کے صوبے میں جو لوگ مقروض ہیں اور اپنا قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کا قرضہ بیت المال سے ادا کر دیں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ حضرت! میں یہ کر چکا ہوں، آپ کے حکم سے پہلے یہ کر چکا ہوں کہ سوسائٹی میں جو لوگ مقروض ہیں ا ور اپنا قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کا قرضہ میں نے ادا کر دیا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا دوسرا خط آیا کہ اپنے صوبے میں سروے کروائیں کہ جو لڑکے اور لڑکیاں شادی کے قابل ہیں اور خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہو رہیں، تو اس فاضل رقم سے ان کی شادیاں کروا دیں۔ گورنر صاحب نے جواب دیا کہ یہ بھی کر چکا ہوں۔ تیسرا خط آیا کہ ایسا کریں کہ جن لوگوں نے مہر ادا نہیں کیا اور مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو ان کے مہر ادا کر دیں۔ عبد الحمید صاحب نے جواب دیا کہ میں یہ بھی کر چکا ہوں، اب فرمائیے کہ پیسے بچے ہوئے ہیں، ان کا کیا کروں؟ تو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا چوتھا خط یہ تھا کہ زمینوں کا سروے کروائیں اور جو زمینیں قابل کاشت ہوں ان کو آباد کرنے کے لیے کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے دے دیں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام کا مزاج کیا ہے اور بیت المال کا تصور کیا ہے؟

اس کے ساتھ گفتگو میں ایک بات آئی ہے، میں اس پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ فاضل آمدنی یا حرام کی کمائی اس پر مولانا مفتی محمودؒ سے ایک بڑا دلچسپ سوال ہوا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بڑے گزرے ہیں سیاستدان بھی تھے، مفتی بھی تھے، عالم اور محدث بھی تھے۔ انہوں نے خود مجھے واقعہ سنایا کہ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ مفتی صاحب! حرام مال میں زکوٰۃ ہے؟ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ میں کہوں گا کہ حرام مال میں زکوٰۃ نہیں ہے تو وہ کہے گا جان چھوٹی۔ اس کو میں نے جواب دیا کہ ہاں! حرام مال میں زکوٰۃ ہے۔ اس نے کہا آپ کیا فرما رہے ہیں؟ مفتی صاحب نے فرمایا بالکل زکوٰۃ ہے، لیکن تھوڑا سا فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ حلال مال میں یہ شرط ہے کہ نصاب ہونا چاہیے، نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی، جبکہ حرام مال میں زکوٰۃ کے لیے نصاب کی کوئی شرط نہیں ہے۔ حلال مال میں زکوٰۃ کے لیے حولانِ حول شرط ہے کہ سال گزرے گا تو زکوٰۃ آئے گی، جبکہ حرام مال میں سال گزرنے کی کوئی شرط نہیں ہے۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ حلال مال کی زکوٰۃ سو میں سے اڑھائی ہے وہ دینے ہیں باقی نہیں، جبکہ حرام مال میں سارے کا سارا دینا ہے۔ چوتھا فرق یہ ہے کہ حلال مال میں سے زکوٰۃ دینے سے ثواب ہوگا، جبکہ یہاں حرام دیتے ہوئے ثواب کی نیت بھی نہیں کرو گے۔ یہ ان کا بات کہنے کا انداز تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے ہاں حلال و حرام کا تصور قائم ہو جائے، حلال و حرام وہ جو اللہ و رسول نے بیان فرمائے ہیں اور اس کے ساتھ خیر خواہی کا، معاشرے کے نادار افراد کی کفالت کا اور بیت المال کا تصور قائم ہو جائے تو بہت سی ایسی باتیں جو قدم قدم پر ہمارے لیے ناسور کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں ہمیں ان سے خود بخود نجات مل جائے گی۔

سوال: مولانا! میرا سوال آپ کی خدمت میں یہ تھا کہ آج بیت المال کا تصور جو آپ پیش کر رہے ہیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں بلکہ ہمیں عطا کر رہے ہیں اور ہم آج ۲۰۱۴ء میں بیٹھ کر بات کر رہے ہیں۔ الحمد للہ امت مسلمہ ڈیڑھ پونے دو ارب پر مشتمل ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ دین سے قریب آئیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک بیت المال ہو، ہم چاہتے ہیں کہ دین کے اصول ہم پر نافذ ہوں، ہم پر نافذ ہوں گے تو معاشرے پر اس کا نفوذ ہو گا، تو آج طریقہ کار کیا اپنایا جائے؟ رہنمائی فرمائیے۔

جواب: گزارش یہ ہے کہ بیت المال کوئی الگ سسٹم نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی ریاست کا حصہ ہے۔ اسلامی ریاست قائم ہوگی اور ریاست کی اسلامی بنیادیں ہوں گی تو بیت المال اس کے ایک حصے کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گا۔ میں اپنے ملک کی بات کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں ہم نے ملک کی دو بنیادیں قائم کیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حاکمیت ہوگی۔ ہمارے ہاں دستوری طور پر حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور دوسری بنیاد یہ ہے کہ یہاں قرآن و سنت کی پابندی ہوگی۔ لیکن ہم نے اس پر عمل نہیں کیا، آج سڑسٹھ سال کے بعد بھی ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ نظام تبدیل ہونا چاہیے اور نظام کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسلامی ریاست کہلاتے تو ہیں، لیکن اسلامی ریاست کی طرف ہم گئے نہیں ہیں اور ہم نے اسلامی ریاست کا رخ اختیار نہیں کیا۔ اگر ہم اپنے دستور پر ہی عمل کر لیں، میں باقی ملکوں کی بات نہیں کرتا، اگر ہم پاکستان میں اپنے دستور پر ہی عمل کر لیں تو ہمارے بہت سے مسائل سیدھے راستے پر چل پڑیں گے اور بیت المال بھی قائم ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم خلوص دل کے ساتھ پاکستان کے مقصد قیام کو سمجھیں اور پاکستان کے دستور کی بنیادوں کو قائم رکھتے ہوئے ان کو سوسائٹی میں عملاً نافذ کرنے کی کوشش کریں۔

مولانا! آپ یہ فرمائیے جو ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ ہم اپنی تجارت میں ایک منافع لیتے ہیں، اگر کوئی اپنے منافع کی شرح کو بڑھاتا ہے تو کیا وہ بھی سود کے زمرے میں آئے گا؟

جواب: نہیں، وہ سود کے زمرے میں تو شاید نہ آئے، لیکن یہ ہے کہ اگر کوئی سوسائٹی کے اجتماعی مفاد میں عرف، تعامل اور اجتماعی ضرورت سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ نفع خوری ہے وہ بھی ناجائز ہے، اور ایک اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سوسائٹی کے اجتماعی مفاد میں اس کی کوئی درجہ بندی کرے۔ لیکن اس کا مدار اس پر ہے کہ سوسائٹی کی اجتماعی ضروریات تو متاثر نہیں ہو رہیں، سوسائٹی پر نقصان تو نہیں ہو رہا، بھاؤ تو متاثر نہیں ہو رہے اور لوگوں کی مانگ تو متاثر نہیں ہو رہی۔ میرے خیال میں اس وقت کے حالات کے تحت سوسائٹی کی اجتماعی ضرورت، اجتماعی مفاد اور لوگوں کے تقاضوں پر اگر کوئی بات اثر انداز ہوتی ہے تو وہ ناجائز ہوگی، گناہ بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بھی بنے گا۔

انیق احمد: علامہ راشدی صاحب! میں بڑا ممنون بڑا شکر گزار اور خاص طور پر اس بات کا کہ آپ کل بھی تشریف لائے اور آج بھی آپ تشریف لائے۔ میں نے کل کے انٹرویو میں ایک بات یہ کہی تھی کہ جب بھی آپ تشریف لاتے ہیں الحمد للہ الحمد للہ ہمیشہ ہم آپ سے سیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھیں۔

2016ء سے
Flag Counter