بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سود کے حوالے سے ملکی صورتحال تو یہ ہے کہ تفصیلی فیصلے موجود ہیں اور کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عملدرآمد کے حوالے سے اب تک جو ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ سودی نظام کی عالمی صورتحال بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے۔ اب تو عالمی سطح کے معاشی ماہرین بھی یہ کہتے ہیں کہ سودی نظام انسانی معاشرے کے لیے فائدے کی نہیں بلکہ نقصان کی چیز ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک سابق ڈائریکٹر کا انٹرویو انڈیا کے ایک جریدہ تعمیرِ حیات لکھنؤ میں چھپا تھا، ان سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں جو معاشی عدمِ توازن ہے اس کا کیا حل ہے؟ انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ سود کی شرح جتنی کم ہو گی اتنا ہی عدمِ توازن کم ہو گا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ شرح سود کتنی کم ہونی چاہیے تو ان کا جواب یہ تھا کہ اصل جگہ تو زیرو ہے، جتنا کم کر سکیں اتنا بہتر ہے۔
ڈاکٹر خلیق احمد نظامی ہمارے نامور مؤرخ گزرے ہیں، ’’سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ اور ’’تاریخ مشائخ چشت‘‘ ان کی معروف کتابیں ہیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر فرحان نظامی برطانیہ کے ایک بڑے مرکز ’’آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ مجھے کئی مرتبہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ مجھے ایک یونیورسٹی سے دعوت ملی کہ ہم سود اور معاشی نظام کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر جاننا چاہتے ہیں تو آپ تشریف لا کر ہمیں لیکچر دیں۔ کہتے ہیں میں نے دعوت قبول کر لی اور تیاری شروع کر دی، میرے ذہن میں آیا کہ اس کا جو ہمارا روایتی انداز ہے کہ قرآن مجید کی چار پانچ آیات، چند احادیث، صحابہ کرامؓ اور ائمہؒ کے اقوال، اس سے میں تو مطمئن ہو کر آ جاؤں گا کہ میں نے اپنا کام کر لیا، لیکن یہ ہمارے دلائل ہیں ان کے ہاں یہ کام نہیں دیں گے۔ ڈاکٹر فرحان نظامی کہتے ہیں کہ ذہن میں ایک تکنیک آئی اور میں نے سود پر ایڈوانس اسٹڈی کی کہ آج کے معاشی ماہرین کہاں تک پہنچے ہیں۔ تو مجھے اس بات پر تمام متفق ملے کہ سودی نظام انسانی فائدے کا نہیں ہے۔ میں نے ایک مقالہ تیار کیا اور وہاں جا کر پیش کر دیا اور آخر میں قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیا کہ آج کی ریسرچ جس نتیجے پر پہنچی ہے قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہی کہا تھا ’’یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات‘‘۔ کہتے ہیں کہ میرا وہ مقالہ پسند کیا گیا اور مجھے اس کے بعد مختلف اداروں سے دعوت مل چکی ہے۔
پوپ بینی ڈکٹ جب پاپائے روم تھے، ان دنوں دنیا میں معاشی بحران آیا تھا اور بہت سی بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی تھیں، امریکہ میں بھی ہنگامے ہوئے تھے اور لمبا قصہ چلا تھا، تو پاپائے روم نے اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی کہ دیکھو کیا ہو رہا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کمیٹی کی رپورٹ ویٹی کن سٹی کے سرکاری ترجمان میں چھپی، اس کے کچھ اقتباسات میں نے سہ ماہی دعوت دہلی میں پڑھے تھے۔ رپورٹ یہ تھی کہ دنیا کا موجودہ معاشی نظام بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے، اگر دنیا کے نظام کو توازن کے کسی صحیح ٹریک پر لانا ہے تو ان معاشی اصولوں کو اختیار کرنا ہو گا جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ اور وہ لوگ ایسا نہیں کرتے کہ ٹھیک ہے بس رپورٹ آگئی ہے، بلکہ اس پر تجربہ بھی کرتے ہیں، چنانچہ غیر سودی بینکاری پر تجربات شروع ہو چکے ہیں۔
انڈیا کے ہمارے ایک دوست مولانا مفتی برکت اللہ برطانیہ میں ورلڈ اسلام فورم کے سیکرٹری جنرل ہیں، فاضل دیوبند ہیں، ہمارے یہاں کئی دفعہ آ چکے ہیں، وہ بھی معاشی ماہرین میں سے ہیں۔ میں ایک دفعہ وہاں گیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں بھی سودی غیر سودی کشمکش شروع ہو گئی ہے اور ہمیں بھی کچھ کردار ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے اور میں ان دنوں مصروف رہتا ہوں، کبھی پیرس، کبھی برلن، کبھی لندن۔ میں نے کہا کہ یہ تو خیر کا کام ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مغرب میں سودی بینکاری کے نقصانات اور غیر سودی بینکاری کی افادیت محسوس ہونی لگی ہے لیکن انہیں اسلام و غیر اسلام سے غرض نہیں ہے، ان کا معیار یہ نہیں ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے اور بائبل کیا کہتی ہے، انہوں نے اپنے حساب سے کام شروع کیا ہے کہ کون سی سرمایہ کاری محفوظ ہے اور کون سی رسک والی ہے، اس حوالے سے وہ تجربہ کر رہے ہیں اور انہوں نے غیر سودی کاؤنٹر کھولنا شروع کر دیے ہیں۔
اب تو مغربی دنیا کے بہت سے بینکوں میں غیر سودی بینکاری ہو رہی ہے، انہیں تجربے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ فائدے کی چیز ہے۔ میں آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کی ایک رپورٹ آپ سے عرض کر دوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے معاشی بحران کے دوران ایک بات کا تجربہ کیا ہے کہ بحران کے دور میں سودی بینکاری کے مقابلے میں غیر سودی بینکاری میں رسک برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اور پاکستان کا حوالہ دیا کہ پاکستان میں سودی اور غیر سودی دونوں نظام چل رہے ہیں، یہاں سودی سسٹم بیٹھتے بیٹھتے بچا ہے، جبکہ غیر سودی بینکاری کو معاشی بحران کے دور میں اضافہ اور فروغ حاصل ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ یہ ہے کہ ہمیں بھی اب اپنے قوانین میں ترمیم کر کے غیر سودی بینکاری کے اصولوں کو اپنانا ہو گا کیونکہ اس میں رسک برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے اور نقصانات کا خدشہ کم ہے۔ چنانچہ وہ اپنے انداز میں اس مقام پر سوچ رہے ہیں۔
پھر ایک مرحلہ آیا کہ غیر سودی بینکاری کا مرکز کون بنے گا؟ اس بات پر لندن اور پیرس کی کشمکش شروع ہو گئی۔ آپ اندازہ کریں کہ پیرس جو مسلمان عورت کے سر پر سکارف برداشت نہیں کرتا، اس فرانس کی کابینہ نے اپنے معاشی قوانین میں ترمیم کی تاکہ غیر سودی بینکاری کو اپنے سسٹم میں لانے کا راستہ ہموار ہو سکے۔ اور یہ بھی آپ کے ذہن میں ہو گا کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لندن میں ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ میرا ایجنڈے کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ میں لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بناؤں گا۔
میں کہا کرتا ہوں کہ اللہ بڑا بے نیاز ہے، آج سے تیس سال پہلے جب ہم غیر سودی بینکاری کا نام لیتے تھے تو لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے کہ مولویوں کو کسی چیز کا پتہ ہی نہیں ہے، سود کے بغیر کوئی سسٹم چل بھی سکتا ہے؟ لیکن آج ہمیں بے وقوف کہنے والے خود غیر سودی بینکاری کی بات کر رہے ہیں اور یہ ملک کے اندر بھی اور بیرون ملک بھی اپنا راستہ بنا رہی ہے۔
میں اپنے تاثرات کے حوالے سے ایک بات ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ میں معاشی ماہرین میں سے نہیں ہوں اور میری معلومات عمومی ہوتی ہیں لیکن میں دینی نقطۂ نظر سے اس بارے میں غور کرتا ہوں۔ ایک ہے غیر سودی معیشت اور ایک ہے اسلامی معیشت۔ دنیا غیر سودی بینکاری کا ذکر اسلامی بینکاری کے نام سے بھی کرتی ہے حالانکہ ان میں فرق ہے جس کا ذکر کیے بغیر بات پوری نہیں ہو گی۔ وہ یہ کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی غیر سودی بینکاری کی بنیاد نہ عقیدہ پر ہے اور نہ اخلاقیات پر ہے، مغرب کے معاشی نظام کی بنیاد اس پر ہے کہ نفع کہاں سے ملتا ہے اور مال کی حفاظت کس میں ہے۔ جبکہ اسلامی معیشت کی بنیاد اس پر ہے کہ عام آدمی کا فائدہ کس میں ہے، تفاوت کیسے کم ہو گا، توازن کیسے قائم ہو گا؟ اسلام کا معاشی اصول یہ ہے کہ ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ (الحشر ۷) دولت کی گردش اوپر مالداروں میں نہیں رہنی چاہیے بلکہ نیچے آنی چاہیے۔ جبکہ سود کا کام یہ ہے کہ دولت نیچے سے اوپر لے جائے اور چند طبقات میں جمع کر دے۔ اس لیے یہ غیر سودی بینکاری اگر اخلاقی اور روحانی اقدار کے بغیر ہو گی تو وہ بھی بس حصولِ زر کا ایک نیا ذریعہ ثابت ہو گی۔
غیر سودی بینکاری کو اخلاقی و روحانی بنیادیں فراہم کرنا اور دنیا کی رہنمائی کرنا کہ انسانیت اور سماج کا فائدہ ہو گا تو غیر سودی بینکاری وہ نتائج دے گی جو ہم چاہ رہے ہیں۔ اور اگر یہ بنیادیں نہیں ہوں گے تو غیر سودی بینکاری اور سودی بینکاری میں اتنا ہی فرق ہو گا کہ وہ قدرے غیر محفوظ ہے اور یہ قدرے محفوظ ہے جبکہ مقصد دونوں کا پیسے کھینچنا ہو گا۔
بہرحال میں نے تھوڑا سا منظر بیان کیا ہے کہ سودی نظام کے حوالے سے کشمکش جاری ہے اور میری ہمیشہ علماء کرام سے درخواست ہوتی ہے بالخصوص ان سے جو سسٹم کی باتوں کو سمجھتے ہیں کہ انہیں اس میں کوئی نہ کوئی کردار ضرور ادا کرنا چاہیے اور مطالعہ، تحقیق، گفتگو اور رہنمائی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ہم نہیں کریں گے تو پھر دنیا اپنی مرضی کرے گی، اور جب وہ اپنی مرضی کرے گی تو وہی ہو گا جو کچھ ہو رہا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔