بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ملک کے معروف دانشور اور پارلیمنٹیرین جناب پروفیسر خورشید احمد صاحب کی وفات ہم سب کے لیے صدمہ کا باعث بنی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب ملک کے نہ صرف معروف دانشور تھے، پارلیمنٹیرین تھے، بلکہ ملی اور قومی مسائل پر بڑی مضبوطی کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے والے راہنماؤں میں سے تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں اور علمی اسٹیج پر، فکری محاذ پر اور عوامی محاذ پر نصف صدی سے زیادہ عرصہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ میری ان سے تقریباً نصف صدی سے نیاز مندی رہی ہے، وہ جماعت اسلامی میں تھے، میں جمعیۃ علماء اسلام میں تھا، لیکن بہت سے مسائل پر فکری ہم آہنگی، قومی مسائل اور ملی مسائل پر مشترکہ جدوجہد، یہ ہمیشہ باعث بنی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے ملیں، ایک دوسرے سے استفادہ کریں، ایک دوسرے سے کام لیں اور ایک دوسرے کو کام دیں۔
پروفیسر صاحب کی زندگی کے مختلف کارناموں میں تین باتیں اس وقت میرے سامنے بہت زیادہ نمایاں ہیں:
(۱) ایک یہ کہ انہوں نے اپنے کراچی کے قیام کے دوران سرگرمیوں کے دوران سود کے مسئلے پر جس طرح فکرمندی کے ساتھ، حکمت و دانش کے ساتھ محنت کی ہے، سود کو حرام تو ہر مسلمان سمجھتا ہے، سود کی نحوستوں سے سب آگاہ ہیں، لیکن علمی بنیاد پر، فکری دائرے میں اور ٹیکنیکل حوالوں سے سود کی نحوستوں کو اور اس کی لعنت کو اجاگر کرنا اور قوم کو بالخصوص نئی نسل کو تیار کرنا، یہ بہت بڑے معرکے کی بات تھی، اور پروفیسر خورشید احمد صاحب نے ایک طویل عرصہ اس جدوجہد میں گزارا اور آخر وقت تک اس میں مصروف رہے۔
(۲) دوسری بات کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر انہوں نے قومی اور ملی مسائل پر مشترکہ سوچ بچار کا ایک فورم قائم کیا ’’انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘‘، مجھے اس میں متعدد بار حاضری کا اتفاق ہوا، کئی پروگراموں میں شرکت کا اتفاق ہوا، اور یہ بہت اچھی بات تھی کہ کسی قومی مسئلے پر، کسی ملی مسئلے پر مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ مل کر بیٹھیں اور ایک اجتماعی سوچ بیدار ہو۔ یہ ایک تھنک ٹینک کا کام ہوتا ہے جو پروفیسر خورشید احمد صاحب کے اس ادارے نے ایک طویل عرصے سے سنبھال رکھا تھا اور اب بھی وہ اپنے دائرے میں مصروفِ کار ہے۔
(۳) تیسرے نمبر پر مجھے یہ بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا، برطانیہ میں لیسٹر میں ’’اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے پروفیسر خورشید احمد صاحب کا ادارہ، وہ بھی عالمی سطح پر اور یوکے کے ماحول میں انہی مقاصد کے لیے کہ لوگوں کو ملی اور قومی مسائل کی طرف توجہ دلائی جائے، بریف کیا جائے، ان کو اسٹڈی فراہم کی جائے، اور ان کو تیار کیا جائے کہ وہ اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ مجھے وہاں بھی بہت دفعہ جانے کا اتفاق ہوا، کئی پروگراموں میں شرکت ہوئی، کئی سال میں جاتا رہا ہوں ’’اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ میں، پروفیسر صاحب کی موجودگی میں بھی، ان کی غیر موجودگی میں بھی، اور میں نے بہت سے پروگراموں میں شرکت کی ہے۔
مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ ملک کے اندر ’’انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘‘ کے نام سے اور یوکے میں ’’اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مختلف مکاتبِ فکر کے دانشوروں کو بٹھانے اور اجتماعی سوچ بچار کے لیے تیار کرنے کی طویل خدمت کی، طویل محنت کی۔
آج مجھے وہ ساری باتیں یاد آ رہی ہیں اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کی محنت پر دل سے دعا نکل رہی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی خدمات کو، محنت کو قبول فرمائیں، ان کے اداروں کو پہلے سے زیادہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اجتماعی سوچ بچار کے ان فورموں کو اللہ تبارک و تعالیٰ ترقیات، برکات، ثمرات سے نوازیں، اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، اور ان کے تمام متعلقین کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الاُمی واٰلہ واصحابہ و بارک وسلم۔