توہینِ رسالتؐ کے مقدمات پر چند گزارشات

   
۲ اگست ۲۰۲۵ء

توہینِ رسالتؐ کے سلسلہ میں درج ہونے والے مبینہ طور پر غلط مقدمات کی چھان بین کے لیے ’’انکوائری کمیشن‘‘ مقرر کرنے کی ایک درخواست کو منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں حکومت کو کمیشن مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے معطل کر دیا ہے۔ اس سے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا اور مختلف مجالس میں ہونے والی بحث نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ بعض مجالس میں مجھ سے بھی اس سلسلہ میں اظہار خیال کیا گیا اور میں نے نصف درجن کے لگ بھگ نشستوں میں اس سنگین مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی، اس کا مختصر خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

پہلی گزارش یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام و دیگر مقدس شخصیات و شعائر کی تعظیم اسلامی نقطۂ نظر سے ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ اور تقاضہ ہے اور ان کی اہانت سنگین جرم ہے، جس کی سزا پاکستان کے قانون میں موت مقرر کی گئی ہے۔ بین الاقوامی اداروں اور سیکولر لابیوں کو اس پر اعتراض ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور قوانین میں اسے جرم تسلیم کرنے کی بجائے اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی آزادی کے عنوان سے حقوق میں شمار سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں اس قانون کے عملی نفاذ اور مقدمات کے فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بین الاقوامی ادارے اور سیکولر این جی اوز اس کے خلاف مسلسل متحرک رہتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ صورتحال اس وقت تک موجود و قائم رہے گی جب تک بین الاقوامی قوانین میں مقدس شخصیات و شعائر کی توہین کو جرم تسلیم نہیں کیا جاتا اور اسے جرائم کی بجائے حقوق میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کے ماحول میں محنت کرنا ہو گی جو اس وقت موجود نہیں ہے اور اس سے لادین عناصر غلط فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کام دراصل او آئی سی اور مسلم حکومتوں کے کرنے کا ہے جو اس کے لیے تیار نظر نہیں آتے اس لیے غیر سرکاری طور پر کوئی بین الاقوامی فورم منظم کر کے اس خلا کو پر کرنے کی محنت کی جا سکتی ہے، اس کے بغیر اس مسئلہ کے حل کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی اور دینی اداروں اور مراکز کو بہرحال اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ پاکستان میں جن مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں اور ملزموں کو مجرم قرار دیا جا چکا ہے انہیں سزا نہیں دی جا رہی بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں بچائے رکھنے اور ملک سے باہر بھجوا دینے کی کارروائیاں سامنے آ رہی ہیں جو کہ خود توہین رسالتؐ کے مترادف ہے اور ایسا کرنے والے کوئی بھی ہوں ہمارے خیال میں اس سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ قانون کے نفاذ اور عملدرآمد کے ادارے اپنے سسٹم میں اس حوالہ سے کمزوریوں کا جائزہ لیں اور اسے دور کرتے ہوئے توہین رسالت و مذہب کے سزایافتہ مجرموں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ جو مقدمات اس وقت عدالتوں میں زیرسماعت ہیں ان کے فیصلوں میں بے حد تاخیر ہو رہی ہے، یہ مقدمات نہ تو سارے کے سارے صحیح ہیں اور نہ ہی سب غلط ہیں، لیکن مقدمات کے فیصلوں میں مسلسل تاخیر سے عملاً‌ یہ ہو رہا ہے کہ اصل گستاخانِ رسولؐ کو مہلت مل رہی ہے جو ان کے لیے سہولت کاری کے مترادف ہے، جبکہ بے گناہ افراد کو انصاف نہیں مل رہا اور وہ بلاوجہ سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ صورتحال عدالتی پروسیجر کی کمزوری کے باعث رونما ہوئی ہے اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوئی متبادل صورت نکالے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کوئی شخص محض مقدمہ درج ہونے کے باعث گستاخِ رسولؐ نہیں قرار پا جاتا، وہ ملزم ہے، مجرم نہیں ہے۔ اور جب تک کوئی مجاز عدالت اسے اس سنگین جرم کا مرتکب قرار نہیں دیتی شرعاً‌، اخلاقاً‌ اور قانوناً‌ کسی بھی حوالہ سے اسے مجرموں کے دائرے میں شامل کرنا درست نہیں ہے، جبکہ ہمارے ہاں عمومی طور پر اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا جس سے مسائل کی سنگینی اور خلفشار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا ایک حل تو وہی ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلہ میں کمیشن کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، لیکن اگر یہ قابل قبول نہیں ہے، اور ہمیں بھی اس پر اصرار نہیں ہے، تو ایسے سنگین مقدمات کی سماعت میں وقت کی حد بندی کی جائے کہ اتنی مدت کے دوران فیصلہ ہو جانا چاہیے اور اس مدت میں فیصلہ نہ ہو سکے تو اسے عدالتی نظام کی کمزوری سمجھتے ہوئے ملزموں کو رعایت ملنی چاہیے، اس لیے کہ وہ فیصلے تک صرف ملزم ہیں، انہیں مجرم سمجھ کر مسلسل سزا کا مستحق بنائے رکھنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔

چوتھی گزارش یہ ہے کہ ایسے کسی موقع پر جب کوئی مشترکہ موقف بروقت سامنے نہیں آتا اور مختلف خیالات معاشرہ میں اپنے اپنے حلقے بنا لیتے ہیں تو ہم متفقہ موقف طے کرنے کے لیے نہیں بلکہ مختلف موقفوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے متحرک ہو جاتے ہیں، اس طرزعمل پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں گزشتہ روز ۳۰ جولائی کو مختلف مکاتب فکر کے مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کا ایک اہم اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہوا جس کی کاروائی مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کے قلم سے اس کالم میں شامل کی جا رہی ہے۔

’’ملی مجلس شرعی، جو پاکستان کے تمام دینی مکاتب فکر کا ایک مشترکہ علمی فورم ہے، اس کا ایک اجلاس آج مولانا زاہد الراشدی صاحب (صدرِ مجلس) کی زیر صدارت جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہوا جس میں قانون ناموسِ رسالت پر عمل درآمد کے حوالے سے غور کیا گیا۔

علماء کرام کا موقف یہ تھا کہ سیکولر اور لبرل لابی اور غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز اس قانون کے غلط استعمال کا پروپیگنڈا کر کے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنا چاہتی ہیں اور اس قانون کو ختم اور غیر مؤثر کرنا چاہتی ہیں۔ علماء کرام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ نبی کریم ﷺ کی حرمت و عزت سارے مسلمانوں کے دین و ایمان کا مسئلہ ہے۔

علماء کرام نے حکومت پر زور دیا کہ اس قانون کے غلط استعمال پر کمیشن کی بجائے قانون پر مؤثر اور بلاتاخیر عمل درآمد کیا جائے۔ جن کیسوں پر فیصلہ ہو چکا ہے ان پر فوراً‌ عمل کیا جائے اور زیر ٹرائل کیسز کو بلاتاخیر نمٹایا جائے۔ علماء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ توہین انبیاء کو قابلِ سزا جرم بنانے کے لیے عالمی سطح پر قوانین بنوانے کی کوشش کی جائے۔ صدر مجلس نے علماء کرام کی مشاورت سے ایک سات رکنی کمیٹی قائم کی جو اس سارے معاملے پر غور کر کے اپنی سفارشات جلد پیش کرے گی۔

اس مجلس میں سارے مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت کی خصوصاً‌ مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد یوسف خان، مفتی شاہد عبید، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا ڈاکٹر محمد کریم خان، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، حافظ محمد عمران طحاوی، مولانا عبد الودود، حافظ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی، چوہدری غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ، مفتی شمس الدین ایڈووکیٹ، حافظ نعمان حامد جالندھری، مولانا ڈاکٹر حسیب قادری، مولانا خان بہادر، عرفان جہانگیر ایڈووکیٹ، مفتی خالد محمود، حافظ مبشر اقبال چوہدری، محمد یونس ایڈووکیٹ، مولانا محمد امجد، مولانا مزمل رسول، اور دوسرے بہت سے علماء کرام نے شرکت کی۔‘‘

اجلاس میں ’’تحفظِ قانونِ ناموسِ رسالتؐ جائزہ کمیٹی‘‘ کے عنوان سے قائم کی جانے والی کمیٹی چند روز میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر رہی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس سنگین اور اہم مسئلہ کے معقول حل اور اس کے لیے ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں،اللہ پاک اسے بار آور فرمائیں (آمین یا رب العالمین)۔

   
2016ء سے
Flag Counter