(۱۰ دسمبر ۲۰۲۵ء کو جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو کے سالانہ اجتماع سے آن لائن خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے ابوعمار زاہد الراشدی عرض کر رہا ہوں۔ اور آج دس دسمبر کو جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو کے سالانہ جلسہ عام کے شرکاء سے مخاطب ہوں۔ میں نے اس جلسہ میں حاضری کا حضرت مولانا مفتی محمد اشفاق صاحب سے وعدہ کیا تھا، ارادہ بھی تھا، لیکن حاضر نہیں ہو سکا، اس لیے کہ تکلیف تو مجھے پہلے بھی تھی، گھٹنوں کے درد کی اور ٹانگوں کی کمزوری کی، لیکن کچھ دنوں سے کمر درد کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، اور زیادہ دیر بیٹھنا میرے لیے مشکل ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحبان مجھے لمبے سفر سے منع کر رہے ہیں۔ آج میں معذرت خواہ ہوں، جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد اشفاق صاحب سے بھی، تمام اساتذہ سے، تمام طلبہ سے، تمام شرکاء سے کہ میں وعدے کے باوجود اس عذر کی وجہ سے حاضر نہیں ہو پا رہا۔ البتہ بالکل محروم رہنے کی بجائے دورۂ حدیث کے طلبہ سے، جو آج بخاری شریف کا آخری سبق اپنے اساتذہ سے پڑھیں گے، ان کو اس تکمیل پر مبارک باد دیتے ہوئے حاضری کے لیے ایک بات یاددہانی کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا۔
عزیز طلبہ! آپ نے بخاری شریف پڑھی ہے، دورۂ حدیث کی ساری کتابیں پڑھی ہیں، تو بخاری شریف کی ’’کتاب العلم‘‘ میں ہمارے ایک قدیمی بزرگ حضرت امام ربیعۃ الرائے رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک نصیحت اور ایک ارشاد امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے کسی ترجمۃ الباب میں۔ امام ربیعہ رائےؒ کا تعارف یہ ہے کہ یہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے بھی استاذِ محترم ہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بھی استاذِ محترم ہیں، اس کے بعد کچھ اور کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ امام ربیعۃ الرائےؒ فرماتے ہیں کہ ’’لا ینبغی لاحد عندہ شئ من العلم ان یضیع نفسہ‘‘ کسی آدمی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس علم کا کچھ تھوڑا سا حصہ بھی ہو تو وہ اپنے آپ کو ضائع کرے۔
یہ بہت اہم نصیحت ہے امام ربیعۃ الرائے رحمہ اللہ تعالیٰ کی، اور میں یہ طلبہ سے اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ صاحبِ علم کو اپنی حفاظت کرنی چاہیے، اپنے علم کی بھی حفاظت کرنی چاہیے، اور اپنے کردار کی بھی حفاظت کرنی چاہیے، امام ربیعہ رائےؒ کے اس ارشاد کو میں دو حصوں میں تقسیم کیا کرتا ہوں۔ وہ فرماتے یہ ہیں کہ جس کے پاس تھوڑا سا علم بھی ہے ’’شئ من العلم‘‘ اس کو ’’ان یضیع نفسہ‘‘ اپنے آپ کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کسی عالم کا ضائع ہونا، دو بنیادی دائرے ہیں اس کے ضائع ہونے کے۔
(۱) ایک یہ ہے کہ علم سے تعلق ختم ہو جائے اور اس کا علم ختم ہو جائے۔ علم کی ممارست رہے گی تو علم باقی رہے گا، اور علم کے ساتھ ممارست نہ رہے تو وہ علم چلا جاتا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں علم کے سب سے بڑے سرچشمہ قرآن پاک کے بارے میں یہ مثال دے کے بات فرمائی ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ تعاہد یعنی مسلسل رابطہ رہے گا تو قرآن پاک یاد رہے گا، اور اگر مسلسل رابطہ نہیں رہے گا تو یہ ذہن سے دل سے نکل جائے گا، ایسے جیسے اونٹ کی رسی کھول دی جائے اور وہ پھر چلا جائے تو اس کا ملنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔
علم کا ضائع ہونا، علم کے ضائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علم سے تعلق نہیں رہا، علم کی ممارست نہیں رہی، پڑھنے پڑھانے کا کوئی شغل باقی نہیں ہے۔ تو میں طلبہ سے ایک بات یہ عرض کیا کرتا ہوں، امام ربیعہ رائےؒ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ جو علم پڑھا ہے نا، جتنا بھی ہے، اس کی حفاظت کا اہتمام بھی کریں۔ اس کا اہتمام اس طرح ہو گا کہ وہ تعلیم و تعلم سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور رکھیں۔ باقی کام بھی کریں، تجارت بھی کریں، جو بھی کرتے ہیں۔ دیکھیں، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تاجر تھے، کپڑے کے بڑے تاجر تھے، تجارت بھی چلتی تھی، علم کے ساتھ جتنا مشغلہ ان کا تھا اور کس کا ہو سکتا ہے۔ تو یہ ساری باتیں چل سکتی ہیں۔ لیکن کہیں بھی علمی دائرہ مل جائے تو بہت اچھی بات، اور اگر علمی دائرہ نہیں ملا، کوئی اور دائرہ ہے، کاروبار کا ہے، ملازمت کا ہے، تو علم کے ساتھ تعلق اور پڑھنے پڑھانے کا کوئی سلسلہ قائم رہے، یہ رکھنا چاہیے۔ خود کو ضائع کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ علم کو ضائع کر دیا تو خود ضائع ہو گئے۔
(۲) ایک دوسرا معنی بھی ہے خود کو ضائع کرنے کا۔ ایک ہے علم، ایک ہے عالم کی پہچان۔ بطور عالم کے آپ اپنی پہچان باقی رکھیں گے تو آپ علم کی خدمت کر سکیں گے اور آپ کے علم پر اعتماد ہو گا لوگوں کا۔ اور اگر بطور عالم کے اپنی پہچان آپ قائم نہیں رکھ سکیں گے، مثلاً شکل و صورت، لباس و تراش خراش، لینا دینا، لوگوں کے ساتھ رہنا، گفتگو۔ ایک عالم کے طور پر آپ کی پہچان کا باقی رہنا بھی ضروری ہے۔ لوگ آپ کو عالم سمجھیں گے تو بات کریں گے۔ لوگ آپ کو علماء کے طبقے میں سے سمجھیں گے تو آپ سے پوچھیں گے۔ اور آپ کی عالمانہ شان اور شناخت باقی رہے گی تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے۔
ہر طبقے کی اپنی شناخت ہوتی ہے، ہر طبقے کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ وکیل حضرات، ان کا ایک لباس ہے، ایک طرز ہے، جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں کہ یہ وکیل ہے، اور ان سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان کی بھی ایک شناخت ہوتی ہے، اپنی ایک پہچان ہوتی ہے۔ وہ پہچان قائم رکھنا۔ محکموں میں دیکھیں، فوج کی اپنی پہچان ہے، پولیس کی اپنی پہچان ہے۔ ایک طبقاتی پہچان ہوتی ہے، جس سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ یہ عالم ہے، یہ وکیل ہے، یہ ڈاکٹر ہے، اور اس حیثیت سے اس سے پوچھا جاتا ہے۔ عالم کی شخصی و طبقاتی پہچان کیا ہے؟ ان کا لباس، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کی سوسائٹی، ان کا ماحول، ان کا لوگوں کے ساتھ تعلق، لین دین، یہ عالمانہ ہو۔
تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ایک ہے علم کی حفاظت، ایک ہے بطور عالم اپنی شناخت کی حفاظت، اپنی پہچان کی حفاظت۔ یہ دو پہچانیں قائم رہیں گی تو عالم ضائع ہونے سے بچے گا۔ اور اگر ان میں سے کوئی پہچان متاثر ہو گئی تو بطور عالم کے معاشرے میں اس کی بات بھی نہیں سنی جائے گی اور اس کے اوپر اعتماد بھی نہیں رہے گا۔ تو میں یہ عرض کیا کرتا ہوں، آپ طلبہ سے بھی، حاضری کے لیے، کہ امام ربیعہ رائےؒ کا یہ جملہ اگر ’’کتاب العلم‘‘ کے کسی ترجمۃ الباب میں تلاش کر سکیں تو آپ بھی دیکھ لیں، بخاری شریف میں موجود ہے۔ آپ عملی زندگی میں جا رہے ہیں، اپنے آپ کو آپ ضائع ہونے سے بچائیں، اپنے علم کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں، اپنی شناخت کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں، اپنے معاملات کو بھی ضائع ہونے سے بچائیں۔ جس شعبے میں مرضی جائیں، لیکن علم کے ساتھ، پڑھنے پڑھانے کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق آپ کا باقی رہے گا تو آپ علم کی خدمت کر سکیں گے، اپنے آپ کو بچا سکیں گے اور بطور عالم کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔
اس کے ساتھ میں آپ حضرات کو مبارکباد دیتا ہوں، آپ کے اساتذہ کو، حضرت مولانا مفتی محمد اشفاق صاحب کو بطور خاص، اور تمام منتظمین کو مبارکباد دیتا ہوں، اور خود حاضر نہ ہو سکنے پر، جو ظاہر ہے کہ عذر کی وجہ سے ہے، معذرت خواہ ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائیں اور تمام طلبہ اور اساتذہ کو اپنے علمی اور دینی مقاصد میں کامیابی نصیب فرمائیں۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

