گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ:
’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘
یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:
- مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
- قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
- مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ
’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘
تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:
- مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
- امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
- مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔
اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔
مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے۔
مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ:
’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘
اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھا اور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:
’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘
الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر ۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔
بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی ہے۔