۱۸۳۱ء کے معرکۂ بالاکوٹ میں امیر المومنین سید احمد شہیدؒ اور امام المجاہدین حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ کی شہادت کے بعد وہ قافلہ بکھر گیا جو دہلی کے ولی اللّٰہی مرکز کی راہنمائی میں برطانوی استعمار سے آزادی اور جنوبی ایشیا کے کسی کونے میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ دہلی کی ولی اللّٰہی درسگاہ کے مسند نشین حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے تھے اور ان کے تلامذہ کا حلقہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا تھا۔ ایک طرف وہ حضرات تھے جو نجد کے داعی و مصلح حضرت محمد بن عبد الوہابؒ کی تحریک سے متاثر تھے اور حنفیت کے دائرہ سے نکل رہے تھے۔ اور دوسری طرف وہ اہل علم تھے جو حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی طرح حنفیت پر پختگی کے ساتھ کاربند رہتے ہوئے آزادئ وطن کی خاطر کچھ نہ کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کی ہجرت کے بعد دہلی کی مسند پر حضرت میاں نذیر حسین دہلویؒ متمکن ہوئے جو اول الذکر گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور جن کا رجحان زیادہ تر علم و تدریس اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے نئے مسلک کا دائرہ وسیع کرنے کی طرف تھا۔ جبکہ حقیقت کا دامن تھامے رکھنے والوں میں حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ اور حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ سرفہرست تھے جن کی امیدوں اور عقیدتوں کا مرکز تھانہ بھون کی خانقاہ بن گئی تھی جہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی صورت میں روحانی قیادت ان کی راہنمائی کے لیے جلوہ افروز تھی۔ ان حضرات نے ۱۸۵۷ء کے معرکۂ آزادی میں شاملی کے محاذ کو سنبھالا، جہاد کا اعلان کیا، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو امیر منتخب کیا، اور ان کی قیادت میں مسلح جنگ لڑ کر شاملی کی پوری تحصیل انگریزوں سے آزاد کرا لی۔ لیکن دہلی میں معرکہ حریت کی ناکامی کے بعد ان کے لیے شاملی کے علاقہ کو قبضہ میں رکھنا مشکل ہوگیا چنانچہ انہوں نے وہاں سے بھی پسپائی اختیار کر لی۔
۱۸۵۷ء سے قبل جنوبی ایشیا کے اس وسیع و عریض خطے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی جس نے بہادر شاہ ظفر کی شکل میں مغل حکمران کو شوپیس کے طور پر دہلی میں بٹھا رکھا تھا۔ مگر ۱۸۵۷ء کے بعد برطانوی حکومت نے خود متحدہ ہندوستان کا اقتدار سنبھال لیا اور برائے نام بادشاہ کے تکلف سے جان چھڑا کر جنوبی ایشیا کو براہ راست تاج برطانیہ کی ماتحتی میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے تحریک آزادی میں حصہ لینے والے گروہوں اور طبقات کے خلاف وسیع پیمانے پر انتقامی کاروائیوں کا آغاز کر دیا جن میں فرنگی کے انتقام اور غیظ و غضب کا سب سے زیادہ نشانہ علماء کرام بنے۔ ہزاروں علماء کرام کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، ہزاروں شہید کر دیے گئے، اور دینی تعلیم کے مدارس بند کر کے ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ اور عدالتی نظام تبدیل کر دیا گیا جس کے تحت عدالتوں میں فتاویٰ عالمگیری کے شرعی نظام کی جگہ فرنگی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ اور تعلیمی نظام بھی یکسر بدل دیا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ علماء کرام کو تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنے والے مراکز ختم ہوگئے بلکہ قومی زندگی کے کسی شعبہ میں علماء کرام کی کوئی کھپت باقی نہ رہی۔
ان حالات میں تحریک ولی اللّٰہی کی اس شاخ کے بچے کھچے افراد نے جو حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری اور حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے وابستہ تھے اور جو شاملی کے محاذ پر باقاعدہ جنگ آزادی میں حصہ لے چکے تھے، انہوں نے ضلع سہارنپور کے قصبہ دیوبند میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ایک درسگاہ کا آغاز کیا جس کی بنیاد باہمی امداد کے اصول اور عوام کے رضاکارانہ تعاون پر رکھی گئی تھی۔ اس کے بانیان میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، حضرت حاجی عابد حسینؒ ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے والد گرامی حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ ، اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے والد محترم حضرت مولانا فضل الرحمان عثمانیؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
دیوبند کا یہ مدرسہ ایک چھوٹی سی مسجد میں انار کے ایک چھوٹے سے پیڑ کے سائے میں ۱۸۶۷ء میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے استاد ملا محمودؒ اور سب سے پہلے طالب علم محمود حسنؒ تھے جو بعد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے نام سے برصغیر کے سب سے بڑے محدث و فقیہ اور تحریک آزادی کے اپنے دور کے سب سے بڑے راہنما کے طور پر متعارف ہوئے۔ دیوبند کی مسجد چھتہ اور اس میں انار کے اس درخت کی راقم الحروف نے زیارت کی ہے جہاں ۱۵ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ کو اس دینی درسگاہ کا آغاز کیا گیا تھا۔ بعد میں قصبہ سے باہر وسیع زمین لے کر نئی عمارت تعمیر کی گئی اور اس مدرسہ کو دارالعلوم دیوبند کے نام سے وہاں منتقل کر دیا گیا جہاں آج وہ ایشیا کی سب سے بڑی دینی درسگاہ کے طور پر دنیا بھر کی علمی اور فکری تحریکوں کی امیدوں کا مرکز بن چکا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے قیام کی بنیادی غرض اس تعلیمی خلا کو پر کرنا تھا جو درس نظامی کے ہزاروں مدارس کی یکلخت بندش سے پیدا ہوگیا تھا۔ اور یہ شدید خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ عوام کی ضرورت کے مطابق حافظ، قاری، امام، خطیب، مفتی اور مدرس فراہم نہ ہونے کی صورت میں جنوبی ایشیا کی لاکھوں مساجد ویران ہو جائیں گی۔ اور اس کے نتیجے میں نئی نسل تک قرآن و سنت کی تعلیم پہنچانے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہے گا اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے آثار اس خطہ سے کچھ عرصہ میں ہی ختم ہو کر رہ جائیں گے۔ لیکن دیوبند کی اس درسگاہ کے بعد سہارنپور میں مدرسہ مظاہر العلوم اور مراد آباد میں مدرسہ شاہی قائم ہوئے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے طول و عرض میں ایسے مدارس کا جال بچھ گیا جو سرکاری امداد سے بے نیاز اور ریاستی مداخلت سے محفوظ رہتے ہوئے عوامی چندہ اور باہمی امداد کی بنیاد پر انتہائی قناعت کے ساتھ دینی علوم کی ترویج، اسلامی تہذیب و روایات کے تحفظ، مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت، اور ان کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لیے قریہ قریہ بستی بستی مصروف کار ہوگئے۔
اس نظام تعلیم نے عقیدۂ ختم نبوت، حمیت سنت رسولؐ، ناموس صحابہ کرامؓ کے تحفظ، اور سلف صالحینؒ کے طرز زندگی کے فروغ کے لیے نمایاں کام کیا جس سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں عقیدہ و ایمان اور اعمال و اقدار کے حوالہ سے اٹھنے والے فکری فتنے اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکے۔ اس نظام تعلیم نے اس خطہ کی آزادی کے لیے ہر مرحلہ پر راہنماؤں اور کارکنوں کی کھیپ مہیا کی جنہوں نے پابندیوں، حوصلہ شکنیوں، جیلوں اور پھانسیوں کے بیسیوں مراحل طے کر کے تحریک آزادی کو منزل تک پہنچایا۔ اور اسی نظام تعلیم نے دعوت و تبلیغ کے اس عالمگیر عمل کو جنم دیا جو دین کی بنیادی باتوں اور مساجد و نظام کے ساتھ عام مسلمانوں کا جوڑ دوبارہ قائم کرنے کے لیے دنیا کے طول و عرض میں شب و روز مصروف عمل ہے۔
چنانچہ یہ بات کسی شبہ اور خدشہ کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کی طرز پر قائم ہونے والے ان مدارس نے جنوبی ایشیا میں مغربی استعمار کی سیاسی، فکری، عدالتی، ثقافتی، اور تہذیبی یلغار کو ناکام بنا دیا۔ اور آج انہی مدارس کی کوکھ سے طالبان کی اس تحریک نے جنم لیا ہے جو دنیا کے ہر نظام اور ہر تہذیب کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اصلی اور عملی اسلام کی طرف واپسی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے۔