جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے اور سنت سے اعراض کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ نکاح انسانی فطرت کے تقاضوں میں سے ہے اور نسل انسانی کی نشوونما اور ان کی معاشرت کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے جب بعض صحابہؓ نے زندگی بھر شادی نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تو جناب نبی اکرمؐ اس بات پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ’’نکاح میری اور انبیاء کرامؑ کی سنت ہے‘‘۔ اسی طرح جناب رسول اللہؐ نے شادی کو ایک شرعی تقاضہ قرار دے کر نہ صرف یہ کہ اس سے بلاوجہ گریز کو پسند نہیں کیا بلکہ نکاح کے بعد اسے عمر بھر نبھانے کی تلقین فرماتے ہوئے طلاق کو ناپسندیدہ ترین چیز قرار دیا کہ اسے انتہائی مجبوری کی صورت میں ہی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ بعض احادیث میں آنحضرتؐ نے عورت پر مال خرچ کرنے حتیٰ کہ اس کے منہ میں لقمہ ڈالنے کو خاوند کے لیے رضائے خداوندی کا ذریعہ بتایا ہے جبکہ عورت کے لیے خاوند کی اطاعت کو جنت کا راستہ ارشاد فرمایا ہے۔ یوں نکاح اسلام میں ایک مذہبی فریضے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جسے روحانی تقدس حاصل ہے اور وہ انسانی معاشرہ میں خاندان کے یونٹ اور اکائی کی مستحکم بنیاد ہے۔
آج ایک طرف مسلمان معاشرے کا خاندانی سسٹم تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود بھی دنیا بھر کی توجہات کا مرکز ہے۔ اور دوسری طرف خاندانی سسٹم سے نجات کے خواہشمند اپنی راہ کا سب سے بڑا پتھر سمجھتے ہوئے اسے ختم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ جبکہ ’’فری سوسائٹی‘‘ کی بلندیوں کو چھو کر واپسی کی راہ تلاش کرنے والے لوگ مسلم معاشرہ کے خاندانی نظام کو رشک اور امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
مغرب نے جب نکاح کو مذہبی تقدس اور تحفظ سے الگ کر کے محض ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دیا تو اس وقت اسے نتائج کا اندازہ نہ ہو سکا۔ آج جب یہ سوشل کنٹریکٹ یا برابری کا معاہدہ مغرب کو خاندانی زندگی کے تصور اور رشتوں کے تقدس سے کلی طور پر محروم کر چکا ہے تو وہی مغرب اب متبادل راہوں کی تلاش میں ہے۔ گزشتہ دنوں خبر رساں ایجنسی رائٹر نے میکسیکو کے بارے میں ایک خبر دی ہے کہ وہاں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نکاح کے بندھن کو مضبوط کرنے کے لیے اب کئی جوڑے ’’قانونی معاہدوں‘‘ کا سہارا لے رہے ہیں۔ خبر کے مطابق ایک جوڑے نے شادی کو عمر بھر کا بندھن بنانے کے لیے جو قانونی معاہدہ کیا ہے، اس کی تفصیلات سولہ صفحات پر مشتمل ہیں۔
خاندانی سسٹم کی تباہی اور طلاق کی شرح میں اضافہ نے مغرب کو اس حد تک پریشان کر دیا ہے کہ سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف نے اپنی کتاب ’’پرسٹرائیکا‘‘ میں اس کا رونا روتے ہوئے خاندانی نظام کی بحالی پر بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ برطانوی وزیراعظم جان میجر Back to basics (بنیادوں کی طرف واپسی) کا نعرہ لگا کر ان عورتوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسیاں وضع کر رہے ہیں جو بچوں کی پرورش کے لیے گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ برطانیہ میں تو یہ محاورہ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ تھری ڈبلیوز (Three Ws) کا کوئی اعتبار نہیں۔ وومن، ویدر، ورک۔ یعنی بیوی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب چھوڑ کر چلی جائے، موسم کا کچھ پتہ نہیں کہ کب کیا صورت اختیار کر لے، اور ملازمت کا کوئی اعتبار نہیں کہ کس روز اچانک جواب مل جائے۔
ظاہر بات ہے کہ جب شادی محض ایک سوشل کنٹریکٹ یا برابری کا معاہدہ ہوگا اور اسے مذہب اور روحانیت کا تحفظ حاصل نہیں ہوگا تو دونوں شراکت داروں میں سے جس کا جب جی چاہے چھوڑ دے۔ یہ تو دین اسلام ہے جو شادی کو روحانی رشتہ قرار دیتا ہے، طلاق کو ناپسندیدہ بلکہ شیطانی عمل کہتا ہے، میاں بیوی کی محبت کو خدا کی رضا کی علامت بتاتا ہے، بیوی بچوں کو کما کر کھلانے اور ان پر خرچ کرنے کو صدقہ اور اجر و ثواب کا باعث قرار دیتا ہے، اور خاوند کی اطاعت کو بیوی کے لیے جنت کے حصول کا ذریعہ بیان کرتا ہے۔ الغرض انسانی معاشرہ آج بھی شادی کو محض ایک سوشل کنٹریکٹ سمجھنے کی بجائے مذہبی فریضہ اور انبیاء کرامؑ کی سنت کے طور پر اختیار کر لے تو اسے ان تمام مصیبتوں سے نجات مل سکتی ہے جو خاندانی انارکی کی صورت میں اس پر مسلط ہو چکی ہیں۔