صدر محترم جنرل پرویز مشرف کا خیال ہے کہ طالبان نے ہماری بات نہیں مانی اس لیے انہیں اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور ہمارے بعض سیاسی و مذہبی دانشوروں کا بھی یہی ارشاد ہے کہ طالبان اگر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے سپرد کرنے کی بات مان لیتے تو افغان عوام کو اس ہولناک تباہی سے بچایا جا سکتا تھا جو بمباری اور بھوک کی صورت میں ان پر نازل ہوئی ہے۔
ہمارے ان دانشوروں کی مجبوری یہ ہے کہ یہ کتاب اور تھیوری کی دنیا کے لوگ ہیں جو ہر مسئلے کا حل اسی میں تلاش کرتے ہیں جبکہ طالبان کا تعلق عمل اور پریکٹیکل کے جہان سے ہے۔ اس لیے انہیں جب کچھ لوگ دانش و حکمت اختیار کرنے اور صرف ایک مہمان کی خاطر اپنے لوگوں کو نہ مروانے کا مشورہ دیتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بین الاقوامی یونیورسٹی کا کوئی پروفیسر پہلوانی کے فن پر دو چار کتابیں پڑھ کر اکھاڑے کے تماشائیوں میں کھڑا ہوگیا ہے اور کشتی میں ایک دوسرے سے نبرد آزما پہلوانوں کو کتاب ہاتھ میں لے کر داؤ پیچ بتا رہا ہے۔
ہماری الجھن یہ ہے کہ حالات کے جبر اور جابر و قاہر قوتوں کی فرعونیت کے سامنے سر اٹھا کر کھڑے ہونے کی ہم نے اپنے اندر ہمت نہ پائی اور گردن جھکا کر ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ اور جو چند سر پھرے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر سر اٹھائے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں ان پر بھی ہمیں غصہ آرہا ہے کہ یہ بے وقوف اس طرح کیوں کھڑے ہیں اور انہوں نے ہماری طرح سر جھکا کر جان بچانے کی ’’دانش و حکمت‘‘ کیوں اختیار نہیں کی؟ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے، تاریخ اس سے قبل بھی اس قسم کے منظر دیکھ چکی ہے اور ایسے سرفروشوں کا جنون ہی ہمیشہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر رہا ہے جنہوں نے قوت، طاقت اور جبر و تشدد کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا ہے اور اپنے اس انکار کی آبرو قائم رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے۔ آئیے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے ایسے چند مناظر پر ہم بھی نظر ڈال لیں۔
بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ
یہ مکہ مکرمہ ہے اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک، بت پرستی، اور جہالت کے ماحول میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقیدہ کا اعلان کر کے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دے کر پوری سوسائٹی میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ قوم مخالف ہوگئی ہے، ارباب اقتدار اس دعوت کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں، اور اصحاب دانش کو اپنی حکمت و دانش کے سارے پیمانے ٹوٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جناب نبی اکرمؐ اور ان کے چند رفقاء کے خلاف طعن و تشنیع، تشدد و اذیت، اور مخالفت و عناد کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔ قبائلی روایات کے مطابق آنحضرتؐ کے سرپرست اور ان کے خاندان کے سربراہ جناب ابو طالب پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ اس نوجوان کو بتوں کی مخالفت سے باز رکھو، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو اس کی سرپرستی چھوڑ کر اسے ہمارے حوالے کر دو، ہم خود اس سے نمٹ لیں گے۔ جناب ابو طالب نے نہ تو اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کلمہ پڑھا ہے اور نہ ہی ان کا دین قبول کیا ہے۔ لیکن ان کی حفاظت کو اپنی خاندانی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ ادھر مخالفت بڑھ رہی ہے اور دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ قریش کے تمام خاندان متحد ہو کر ابوطالب کے پاس آگئے ہیں کہ یہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ محمدؐ کو ہمارے حوالے کر دو، ورنہ ہم تمہیں بھی اس کا ساتھی شمار کریں گے اور جو معاملہ اس کے ساتھ ہوگا وہی تمہارے ساتھ بھی ہوگا۔
اگر یہ آج کی حکمت و دانش کا دور ہوتا تو جناب ابو طالب کے لیے یہ بات بہت آسان ہوتی کہ اپنی جان بچانی ضروری ہے اور دوسروں کی خاطر خود کو خطرے میں ڈال لینا عقلمندی نہیں ہے۔ لیکن ابھی حکمت و دانش اس معیار کو نہیں پہنچی تھی اس لیے جناب ابو طالب نے حضرت محمدؐ کو قریش کے حوالے کرنے سے دو ٹوک انکار کر دیا جس کے نتیجے میں خاندان بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا اور جناب ابوطالب ایمان نہ لاتے ہوئے بھی اپنے بھتیجے کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے۔ یہ بائیکاٹ تین سال جاری رہا، بھوک اور فقر و فاقہ نے اس گھاٹی میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور بچوں کی بھوک اور پیاس پر قہقہے لگانے والے بھی موجود تھے۔ مگر نہ جناب رسول اللہؐ نے اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کسی مرحلہ میں جناب ابوطالب کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر کچھ عقلمندوں کی بات مان لیتا تو خاندان بنو ہاشم پر بھوک اور فقر و فاقہ کی یہ مصیبت نہ ٹوٹتی۔
کربلا کا محاصرہ
یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت سیدہ فاطمہؓ کے لخت جگر ہیں جن کا نام حضرت امام حسینؓ ہے۔ انہوں نے امیر المومنین حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یزید کو خلیفہ ماننے اور اس کی بیعت سے انکار کر دیا ہے۔ حضرت حسینؓ کو کوفے والوں نے خطوط لکھ کر بلایا کہ آپ تشریف لائیے، ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ وہ مدینہ منورہ سے خاندان سمیت چل پڑے مگر کربلا تک پہنچتے پہنچتے صورتحال تبدیل ہوگئی۔ کوفے پر یزید کے گورنر ابن زیاد کا کنٹرول قائم ہو چکا تھا۔ حضرت امام حسینؓ کے نمائندے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کیاجا چکا تھا اور اب امام حسینؓ کے استقبال کے لیے کوفہ سے ان کے عقیدت مندوں کا گروہ نہیں آیا تھا۔ بلکہ مزاحمت کے لیے ابن زیاد کی فوج عمر بن سعد کی کمان میں کربلا پہنچ کر راستہ روکے کھڑی تھی اور حضرت امام حسینؓ سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ یزید کی خلافت تسلیم کرنے کا اعلان کر کے اس کی بیعت کرو یا پھر خود کو ہتھیار ڈال کر ہمارے حوالے کر دو۔
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے یزید کے پاس دمشق لے چلو، میں خود اس سے بات کرلوں گا، یا مجھے واپس مدینہ مدینہ جانے دو، میں اپنے گھر بیٹھ جاؤں گا، یا کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو جہاں کافروں کے خلاف کسی معرکہ میں مصروف ہو جاؤں گا۔ لشکر کا کمانڈر عمر بن سعد اس پیشکش کو معقول قرار دیتے ہوئے اطمینان کا سانس لیتا ہے کہ کوئی درمیان کی راہ نکل آئے گی اور خاندان نبوت کے ساتھ مزاحمت کی نوبت نہیں آئے گی۔ مگر گورنر کوفہ ابن زیاد کے لیے یہ بات قابل قبول نہ تھی۔ اس نے اپنے کمانڈر کو جواب دیا کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ حسین خود کو ہمارے حوالے کر دیں، اس کے سوا کوئی بات قابل قبول نہیں ہے۔ اگر وہ ہتھیار ڈال کر خود کو تمہارے حوالے نہیں کرتے تو ان کا سر قلم کر کے ہمارے پاس لاؤ، اگر تم اس بات میں جھجھک دکھاؤ گے تو تمہیں بھی عبرتناک سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب امام حسینؓ کے سامنے دو ہی راستے رہ گئے تھے کہ سر جھکا کر خود کو ابن زیاد کے حوالے کرتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی عورتوں و بچوں کی جانیں بچائیں یا پھر ابن زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر کے ہاتھوں خاندان سمیت ذبح ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس وقت حضرت امام حسینؓ کے گرد و پیش غالباً کوئی دانشور موجود نہیں تھا، کوئی ڈپلومیٹ بھی نہیں تھا، اور شاید کوئی فقیہ عصر بھی قریب قریب نہیں تھا۔ ورنہ ’’حکمت و دانش‘‘ کا یہ سبق انہیں بھی پڑھایا جا سکتا تھا کہ جب جان بچانے کی اور کوئی صورت ممکن نہ رہے تو سر جھکا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، اور اپنے ساتھ معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی خطرے میں ڈال لینا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے، اور یہ کہ جب طوفان آتا ہے تو عقلمند لوگ کھڑے رہنے کی بجائے بیٹھ جایا کرتے ہیں اورطوفان کے گزر جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ یا ممکن ہے کہ اصحاب دانش کی کوئی کھیپ وہاں موجود ہو اور اس نے مشوروں سے نوازا بھی ہو مگر امام حسینؓ نے ان مشوروں کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے اپنے انکار کا بھرم قائم رکھنے کو ترجیح دی۔ اور تاریخ کا ریکارڈ یہی کہتا ہے کہ امام حسینؓ نے جبر و قہر کی رعونت کے سامنے سر جھکانے کا راستہ اختیار نہیں کیا اور خاندان کے معصوم بچوں اور خواتین سمیت مقدس جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بتا دیا کہ سب لوگ سر جھکانے والے نہیں ہوتے، کچھ سر اٹھا کر بھی چلتے ہیں، اور یہی لوگ تاریخ کے روشن ابواب کا عنوان ہوا کرتے ہیں۔
شیر کی ایک دن کی زندگی
یہ میسسور ہے۔ سلطان حیدر علیؒ کا میسسور، اور سلطان فتح علی ٹیپوؒ کا میسسور جو برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف مزاحمت کا آخری مورچہ تھا اور جس مورچے پر قابض ہونے کے بعد انگریز حکمرانوں کو یہ اعلان کرنے کا حوصلہ ہوا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔
بنگال میں نواب سراج الدولہ شہیدؒ کی شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوس اقتدار اور نوآبادیاتی تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سلطان فتح علی ٹیپوؒ برصغیر کی آزادی کے تحفظ کی آخری جنگ لڑ رہا تھا، اور تنہا لڑ رہا تھا۔ پڑوس کی مسلم ریاست حیدر آباد نے ٹیپو کا ساتھ دینے کی بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی کے کیمپ میں رہنے کو ترجیح دی اور ترکی کی خلافت عثمانیہ مدد کے لیے سلطان ٹیپوؒ کی درخواست مسترد کر کے اسے انگریزوں کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کی تلقین کر چکی تھی۔ مگر سلطان ٹیپوؒ کا جنون کسی بات کی پروا نہیں کر رہا تھا، نہ اسے حیدر آباد کی مسلم ریاست کی پالیسی کی کچھ پروا ہے، اور نہ خلافت عثمانیہ کی تلقین سے کوئی دلچسپی۔ بلکہ اس پر ایک ہی جنون سوار ہے کہ کسی طرح برصغیر میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا جائے اور سلطنت خداداد میسسور کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی آزادی کی حفاظت کی جائے۔
یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ اور فرانس بھی ایک دوسرے کے دشمن تھے اور برصغیر پاک و ہند میں فرانسیسی بھی برطانیہ کی طرح قدم جمانے کی کوشش کر رہے تھے۔ سلطان ٹیپو نے اس کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس نے فرانسیسیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ان کے کچھ لوگوں کو اپنی افواج میں شامل کرلیا۔ یہ بات برطانوی حکمرانوں کے لیے اشتعال اور غیظ و غضب کا باعث بنی اور انہوں نے اسے بہانہ بنا کر دھمکی دی کہ ہمارے دشمن فرانسیسیوں کو فوج سے نکال دو ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ سلطان ٹیپوؒ سمجھ رہا تھا کہ انگریزوں نے اس کی سلطنت پر حملہ تو ویسے بھی کرنا ہے مگر وہ اس کے لیے فرانسیسیوں کی موجودگی کا بہانہ کر رہے ہیں۔ اس لیے اس نے انگریزوں کی کوئی بھی شرط ماننے سے انکار کر دیا۔ سلطان ٹیپوؒ کی فوج کے فرانسیسی افسر خود سلطان ٹیپوؒ کے پاس آئے اور کہا کہ اگر اس سے انگریزوں کا غصہ وقتی طور پر ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، آپ ہمیں ان کے حوالے کر دیں۔ اس وقت بھی کسی نہ کسی دانشور، ڈپلومیٹ، یا فقیہ عصر نے سلطان ٹیپوؒ کو یہ مشورہ ضرور دیا ہوگا کہ کوئی حرج کی بات نہیں، وقت نکالو اور سر پر آئی ہوئی جنگ کو سردست ٹالنے کی کوشش کرو کہ یہ حکمت و دانش کا راستہ بھی ہے اور عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر سلطان ٹیپوؒ نے کسی بھی مشورے پر کان نہ دھرا، تمام شرطیں بے نیازی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے میدان جنگ میں دشمن کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ہزاروں جاں نثاروں کی قربانی پیش کر کے خود بھی حریت پسندوں اور عزم و استقامت کی شاہراہ کے مسافروں کو یہ سبق دیتے ہوئے اپنی جان پر کھیل گیا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔