گلاسگو برطانیہ کے بڑے شہروں میں سے ہے جہاں مجھے ہر سال دو چار روز کے لیے حاضری کا موقع ملتا ہے۔ اس سال بھی معمول کے مطابق حاضری ہوئی مگر نئی بات یہ ہوئی کہ مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات عبد اللطیف خالد چیمہ مجھ سے پہلے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجلس احرار اسلام سکاٹ لینڈ کے زیراہتمام مرکزی جامع مسجد گلاسگو میں ’’عالم اسلام کی موجودہ صورتحال اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے ایک جلسہ کا اہتمام کا رکھا تھا جس میں مہمان خصوصی کی کرسی پر انہوں نے مجھے بٹھا دیا۔ جلسہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر اور جماعت اسلامی کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ بعض حاضرین کا کہنا تھا کہ ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے بعد پہلا موقع ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام مشترکہ فورم سے اس مسئلہ پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔
گلاسگو کی مقامی آبادی افغانستان پر امریکی حملوں کے خلاف دو بار مظاہرہ کر چکی ہے۔ ۲۷ اکتوبر کو ہونے والے مظاہروں میں راقم الحروف نے بھی جمعیۃ علماء برطانیہ کے رہنما مولانا امداد الحسن نعمانی، مجلس احرار اسلام کے رہنما عبد اللطیف خالد چیمہ، اور شیخ عبد الواحد کے ہمراہ شرکت کی۔ یہ مظاہرہ گلاسگو کے جارج سکوائر میں ایک اسٹوڈنٹ تنظیم کی طرف سے کیا گیا اور اس میں مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ اسکاٹش پارلیمنٹ کے مقامی ممبر ٹامی شیرون نے خطاب کیا۔ مظاہرین نے مختلف کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر جنگ بند کرو، جنگ نہیں امن، دہشت گردی کا علاج دہشت گردی نہیں جیسے نعرے درج تھے۔ ایک کتبے پر ’’تین دہشت گرد بھائی بش بلیئر اور بن لادن‘‘ لکھا ہوا تھا۔ مقررین کی تقریروں کے دوران ریلی کے شرکاء تالیوں اور سیٹیوں کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔
اسکاٹش پارلیمنٹ کے ممبر نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کیے بغیر اور ہم سے پوچھے بغیر جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ہم اس جنگ کی حمایت نہیں کرتے اور نہتے افغان شہریوں پر بمباری اور ان کے قتل عام کو ظلم تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان پر حملے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیراعظم ٹونی بلیئر سے کہا کہ وہ اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لائیں اور رائے شماری کرائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ ارکان پارلیمنٹ کی رائے کیا ہے۔
ریلی میں ایک افغان طالبہ نے بھی تقریر کی جسے سب سے زیادہ داد ملی۔ اس طالبہ کا نام حورا قادر ہے اور اس نے انگلش میں پرجوش انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ بش اور بلیئر افغانستان میں جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں ان میں کامیابی نہیں ہوگی کیونکہ افغان قوم نے ہمیشہ اپنی آزادی برقرار رکھی ہے اور وہ اب بھی اپنی آزادی کا تحفظ کرے گی۔
برطانوی دارالعوام میں جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے میں ممبر پارلیمنٹ جارج گیلوے سب سے پیش پیش ہیں اور ان کا تعلق بھی گلاسگو سے ہے۔ انہوں نے عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی تھی اور اب افغانستان پر امریکی حملوں کے خلاف بلند آواز کے ساتھ کلمۂ حق بلند کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے گزشتہ دنوں برطانوی اور اسکاٹش پارلیمنٹ کے مسلمان ممبروں کا شکوہ کیا ہے کہ وہ انصاف کا ساتھ دینے کی بجائے وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں لندن کے ایک اخبار میں جارج گیلوے کا بیان شائع ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔
گلاسگو کیلون سے لیبر ممبر پارلیمنٹ جارج گیلوے نے ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے مسلمان ارکان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مباحثہ کریں کہ افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ کی جنگ کیسے جائز ہے اور اس کی کیوں حمایت کی جائے؟ انہوں نے کہا کہ ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے مسلمان ارکان مباحثہ کے لیے جگہ اور سامعین کا خود انتخاب کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان ارکان پارلیمنٹ سے یہ بحث کرنا چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان پر حملوں کے لیے کیا جواز پیش کرتے ہیں اور تین ہفتوں سے روزانہ چوبیس گھنٹے بمباری کی کیوں حمایت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جنگ کے خلاف انہیں روزانہ ہزاروں خطوط آرہے ہیں جن میں سے اکثر خط مسلمانوں کے ہیں، وہ بمباری کے خلاف سخت مشتعل ہیں۔ جارج گیلوے نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ وہ اور دیگر ارکان پارلیمنٹ ایک عرصہ سے یہ جنگ لڑ رہے تھے کہ مسلمانوں کو ارکان پارلیمنٹ بنایا جائے لیکن دکھ کی بات ہے کہ وہ مسلمانوں کی بجائے وزیراعظم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جارج گیلوے نے (سب سے پہلے) جب پارلیمنٹ میں افغانستان کے خلاف امریکی حملوں پر احتجاج کیا تھا اور جنگ کے خلاف آواز بلند کی تھی تو وہ تنہا تھے لیکن اب ان کی حمایت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسرے ارکان پارلیمنٹ بھی رفتہ رفتہ ان کی مہم میں شریک ہو رہے ہیں اور عوامی سطح پر جنگ کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
لندن میں گزشتہ ہفتے بہت بڑی ریلی ہوئی تھی اور ۱۸ نومبر کو لندن میں جنگ کے خلاف اس سے بھی بڑی ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا اہتمام سی این ڈی اور گرین پارٹی جیسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ مسلم پارلیمنٹ کے لیڈر ڈاکٹر غیاث الدین اس مقصد کے لیے متحرک ہیں کہ اس ریلی میں مسلمان زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں۔ گزشتہ روز انہوں نے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری سے ملاقات کی جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے ۱۸ نومبر کی ریلی کو کامیاب بنانے اور اس میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ رابطوں کا فیصلہ کیا۔
اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے برمنگھم میں جمعیۃ علماء برطانیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری تصور الحق کی دعوت پر مختلف دینی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں طے پایا کہ ۱۱ نومبر کو برمنگھم میں جنگ کے خلاف ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جائے گا جس سے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام خطاب کریں گے۔
الغرض برطانیہ میں عوامی سطح پر اور مسلمانوں کے دینی حلقوں میں جنگ کے خلاف بیداری بڑھ رہی ہے اور اس پس منظر میں گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا مذکورہ مشترکہ جلسہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ جلسہ سے راقم الحروف اور جناب عبد اللطیف خالد چیمہ کے علاوہ جمعیۃ علماء برطانیہ کے رہنما مولانا صاحبزادہ امداد الحسن نعمانی، ورلڈ اسلامک مشن کے رہنما علامہ فروغ القادری، جمعیۃ اہل حدیث کے رہنما مولانا محمد ادریس مدنی، یوکے اسلامک مشن کے رہنما مولانا عبد الرحمان عابد، اور مرکزی جامع مسجد گلاسگو کے خطیب مولانا حبیب الرحمان نے خطاب کیا۔ علامہ فروغ القادری گلاسگو میں مولانا شاہ احمد نورانی کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ نمائندگی صرف ورلڈ اسلامک مشن تک محدود نہیں بلکہ ان کی وضع قطع، انداز گفتگو اور تازہ بتازہ معلومات میں بھی مولانا نورانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اور اس قسم کی نستعلیق اور ٹو دی پوائنٹ گفتگو اس مکتب فکر میں مولانا نورانی کا کوئی نمائندہ ہی کر سکتا ہے۔
راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں اس نکتے پر زیادہ زور دیا کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو اپنے ملک کے قوانین کی پابندی اور اپنے معاہدات اور حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ظلم کی مخالفت اور مظلوموں کی حمایت کے لیے قانونی ذرائع اختیار کرنے چاہئیں۔ اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے مسلمان جو کچھ کر سکتے ہیں اس سے انہیں گریز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے والے حلقوں کے ساتھ شریک ہوں، میڈیا و لابنگ کے محاذ پر متحرک ہوں، بے گھر مسلمانوں کی امداد کے لیے مالی تعاون کو منظم کریں، اور مسلم حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ افغانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے امریکی حملوں کو رکوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔