صومالیہ، مشرقی افریقہ کا افغانستان

   
جنوری ۱۹۹۴ء

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کمیونزم کے تارو پود بکھرے تو اس عمل سے صومالیہ بھی متاثر ہوا جو افریقہ کا ایک مسلمان ملک ہے۔ آبادی ایک کروڑ سے زائد بیان کی جاتی ہے اور یہ ملک کئی اعتبار سے افغانستان سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ صومالیہ مشرقی افریقہ میں داخلہ کا دروازہ ہے اور اس کی بندرگاہ موغادیشو کو علاقہ میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اس طور پر بھی کہ آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے جس کی اسلام کے ساتھ وابستگی اس قدر گہری ہے کہ مسیحی تبلیغ کے مشنری ادارے اس خطہ کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں واضح ناکامی محسوس کرتے ہوئے اپنے کئی مشن بند کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ پھر افغانستان کی طرح صومالیہ کا معاشرہ بھی قبائلی طرز کا ہے جس میں باہمی کشمکش بسا اوقات خانہ جنگی کی افسوسناک صورت اختیار کر لیتی ہے اور سب سے بڑھ کر صومالیہ کے علماء بھی ’’ہتھیار آشنا‘‘ ہیں اور حالیہ کشمکش میں ان کے کئی مسلح گروپ برسر پیکار ہیں۔

صومالیہ غلامی کے دور میں تین حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک پر برطانیہ کی عملداری تھی، دوسرا حصہ فرانس کے قبضہ میں تھا، جبکہ تیسرے پر اٹلی کی آقائی کا پرچم لہرا رہا تھا۔ آزادی کے بعد برطانوی و صومالی لینڈ نے مشترکہ جمہوریت قائم کر لی جبکہ فرانسیسی صومالیہ بدستور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ صومالیہ کا اکثر علاقہ بنجر ہے، کچھ حصہ کاشت ہوتا ہے، کیلا زیادہ پیدا ہوتا ہے، مویشیوں اور کھالوں کی تجارت بھی ہوتی ہے، اور اب کچھ معدنی ذخائر اور تیل کا سراغ لگا ہے جو ابھی تحقیقی و تجزیہ کے مراحل میں ہے۔

جہاد افغانستان کے ہاتھوں سوویت یونین کی پسپائی کے وقت صومالیہ پر سید بارے کی حکومت تھی جو بائیں بازو کے لیڈر اور مشرقی افریقہ میں روسی مفادات کے نگہبان کے طور پر متعارف ہیں۔ کلہ جب تک مضبوط رہا ان کی حکمرانی کا سکہ چلتا رہا مگر سوویت یونین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد سید بارے کے لیے بھی اقتدار کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا اور صومالیہ خانہ جنگی کی راہ پر چل پڑا۔ خانہ جنگی میں سید بارے کی فوج کے ایک بڑے افسر جنرل محمد فرح عدید اور علی محمد نے قوت پکڑی اور اقتدار کی کشمکش نے قبائلی خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ خانہ جنگی نے ملک کی جو تھوڑی بہت پیداوار تھی اسے بھی متاثر کر دیا جس کے نتیجے میں قحط سالی اور بھوک نے صومالیہ کو لپیٹ میں لے لیا۔ کہا جاتا ہے کہ تین لاکھ کے لگ بھگ افراد اس خانہ جنگی اور قحط کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے صومالیہ کے عوام کو خانہ جنگی اور قحط کے اثرات سے بچانے کے لیے مداخلت کا فیصلہ کیا اور مشترکہ فوج وہاں اتاری جس میں پاکستانی فوج کے دستے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی فوج کو صومالیہ میں جنرل فرح عدید کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جن کا گروپ اس خانہ جنگی میں سب سے بڑے اور طاقتور گروپ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے فوجی دستوں سے بھی اس گروپ کی جھڑپ ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں طرفین کے متعدد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جنرل عدید نے اقوام متحدہ کی فوج کی آمد کو صومالیہ کے معاملات میں امریکی مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مزاحمت کی اور حالات پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ حتیٰ کہ اب امریکہ ان کا وجود تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر ان سے مفاہمت کے لیے پیش رفت کر رہا ہے۔

اسی دوران صومالیہ کے مذہبی گروپ بھی متحد ہوگئے جو اس سے قبل الگ الگ متحرک تھے۔ یہ بھی مسلح کشمکش میں شریک ہیں اور اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ صومالیہ کو ایک اسلامی نظریاتی ریاست کی حیثیت دے دی جائے جبکہ فرح عدید ایک سیکولر اور قوم پرست راہنما ہیں۔ صومالیہ کے مذہبی گروپوں کا موقف یہ ہے کہ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے دستوں کا وہاں بھیجا جانا درست نہیں ہے بالخصوص ایسے حالات میں کہ پاک فوج کو صومالیہ کے مختلف گروپوں کے ساتھ تصادم کے لیے بقول ان کے ایک ایسی حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے جس سے پاکستان کے بارے میں صومالیہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا محبت و اعتماد کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ صومالیہ کے علماء اور دینی راہنماؤں نے اس سلسلہ میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے قائدین کو پیغامات بھجوائے اور خطوط ارسال کیے کہ ان کے موقف سے آگاہی حاصل کی جائے اور ان کی مشکلات کو کم کرنے میں تعاون کیا جائے۔

اس پس منظر میں ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء کو جناب مجیب الرحمان شامی مدیر زندگی لاہور، مولانا عبد الرؤف ملک سیکرٹری جنرل متحدہ علماء کونسل، اور مولانا محمد مسعود اظہر سیکرٹری جنرل حرکۃ الانصار کے ہمراہ نیروبی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہمارا قیام تین روز تک رہا۔ نیروبی مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کا دارالحکومت ہے جو صومالیہ کے جنوب میں واقع ہے اور صومالیہ کے داخلی حالات مخدوش ہونے کے باعث وہاں سے رابطہ کے لیے قریب ترین مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کینیا ہمارے ہاں چائے کے حوالہ سے متعارف ہے کیونکہ وہاں کی سب سے بڑی پیداوار چائے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی کل چائے کا پچاس فیصد کے لگ بھگ حصہ کینیا سے آتا ہے۔ خط استوا کے قریب ہونے کی وجہ سے دن اور رات کا تناسب تقریباً سارا سال یکساں رہتا ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ مگر سطح سمندر سے بلندی پر ہونے کے باعث گرمی زیادہ نہیں پڑتی، معتدل موسم رہتا ہے اور بارش بھی اکثر ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے نیروبی کا موسم پسند آیا کیونکہ موسم کا سارا سال اعتدال میں رہنا اور دن رات کے اوقات کا توازن بھی قائم رہنا اس سے قبل کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا۔

کینیا کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب تیس فیصد بیان کیا جاتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان سے آکر بس جانے والے مسلمانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ نیروبی کے وسط میں مغل طرز تعمیر کی جامع مسجد دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، یہ وسیع مسجد ۱۹۲۵ء میں تعمیر ہوئی جس کے ساتھ ایک بڑا اسلامک سنٹر ہے جہاں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے امور کی نگرانی کی جاتی ہے۔ وہیں فیصل آباد کے مولانا مطیع الرسول سے ملاقات ہوئی جو حضرت السید مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے شاگرد ہیں اور ایک عرصہ سے نیروبی میں مقیم ہیں بلکہ اب تو وہاں کے شہری ہیں اور مسلمانوں کی دینی تعلیم، دعوت اسلام اور نوجوانوں کے فلاحی امور کی طرف ہمہ تن متوجہ رہتے ہیں۔ نیروبی سے باہر بھی ایک تعلیمی ادارہ انہوں نے قائم کر رکھا ہے جو اپنے مقاصد کی طرف کامیابی کے ساتھ گامزن ہے۔ وقت کی کمی کے باعث وہ ادارہ نہ دیکھا جا سکا مگر اس کی کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل کر کے بے حد مسرت ہوئی۔

کینیا بھی ہماری طرح برطانوی استعمار کی نوآبادی رہا ہے اس لیے بود و باش اور عام طرز زندگی میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا۔ البتہ عام زندگی اور دفتری زندگی میں نظم کی صورتحال ہم سے بہتر نظر آئی۔ کینیا کا سکہ شلنگ کہلاتا ہے۔ جس روز ہم وہاں پہنچے نیروبی ایئرپورٹ پر کرنسی کے تبادلہ میں ایک امریکی ڈالر کے عوض ۶۵ شلنگ ملے۔ گویا پاکستانی روپے کے مقابلہ میں کینیا کا شلنگ تقریباً نصف قیمت کا حامل ہے۔ پہلی رات ہمیں وسط شہر کے ایمبسڈر ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا جس کا کرایہ پینتالیس ڈالر فی کمرہ تھا مگر دوسرے روز اپنے میزبانوں کے ساتھ رابطہ و ملاقات کی سہولت کے پیش نظر ملیمانی روڈ کے ہرن کورٹ ہوٹل میں منتقل ہوگئے جس کا کرایہ ۱۳ ڈالر فی کمرہ تھا۔ ہوٹل کچھ زیادہ معیاری نہ تھا مگر میزبانوں کے ساتھ رابطہ کی سہولت کے باعث ہم بقیہ دو دن وہیں ٹھہرے ۔

اس ہوٹل میں ایک پاکستانی نوجوان سے ملاقات ہوئی جو کافی دنوں سے وہاں قیام پذیر تھا۔ اس نے اپنے قیام کا مقصد کاروبار بتایا مگر معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ اور پاکستانی نوجوان بھی ہیں جو بہت دنوں سے اس قسم کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو امریکہ اور یورپ جانے کے شوق میں ٹریول ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں مختلف راستوں سے منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے فن کا کمال دکھاتے ہیں۔ میں اس قسم کے نوجوان بڑی تعداد میں استنبول اور تاشقند میں بھی دیکھ چکا ہوں۔ ان میں سے بہت سے نوجوانوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ ایجنٹ اپنے پیسے کھرے کر کے انہیں اسی قسم کے کسی درمیانی منزل پر چھوڑ کر رفوچکر ہو جاتے ہیں اور وہ ’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کے مصداق اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں۔

ایمبیسڈر ہوٹل سے ملیمانی ہوٹل منتقل ہوتے وقت جس ٹیکسی سے ہم نے سفر کیا اس نے اپنے وطن کے ساتھ مشابہت کے احساس کو اور زیادہ اجاگر کر دیا۔ ٹیکسی شکل و صورت کے لحاظ سے برطانوی تھی کہ اسی قسم کی ٹیکسیاں وہاں چلتی ہیں۔ اسے دیکھ کر خیال ہوا کہ شاید اس معاملہ میں کینیا والے ہم سے کچھ آگے ہیں لیکن ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اطمینان کی ایک لہر دل و دماغ پر چھا گئی کہ خیر ہے معاملہ اپنے جیسا ہی ہے۔ یعنی صرف اوپر کا خول اور باڈی انگلش تھا باقی سب کچھ اپنی طرح کا ہی تھا۔ ہمارے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے اردگرد کھڑے کچھ لوگوں کو اشارہ کیا اور وہ گاڑی کو دھکا دینے کے لیے متحرک ہوگئے۔ یہ ٹیکسی ہمارے اجتماعی نظام کی ہوبہو تصویر تھی کہ ظاہری ڈھانچہ مغربی طرز کا لیکن اندر سے پوری مشینری دھکا سٹارٹ۔ جبکہ دھکا لگانے والے بھی ورلڈ بینک کے ڈائریکٹروں کی طرح ہماری بے بسی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے، آپس میں اشارے کر رہے تھے اور ہمیں دھکا دے رہے تھے۔ خدا خدا کر کے گاڑی اسٹارٹ ہوئی لیکن چند قدم چلی اور اچانک رک گئی۔ معلوم ہوا کہ گاڑی میں تیل ہی نہیں تھا اور ڈرائیور کسی طرح ’’اللہ توکل‘‘ پٹرول پمپ تک پہنچ جانا چاہتا تھا مگر پٹرول پمپ سے چند قدم پیچھے ’’دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا‘‘ گاڑی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور ٹیکسی سے اترا، ڈگی سے ایک خالی ڈبہ نکالا اور پٹرول پمپ کی طرف چل پڑا۔ وہاں سے پٹرول لا کر گاڑی میں ڈالا اور پھر دھکا سٹارٹ کے مرحلہ سے دوچار ہونا پڑا۔ دھکا لگانے والے یہاں بھی آسانی سے مل گئے ہمیں نہیں اترنا پڑا۔ مگر اب کیفیت یہ تھی کہ گاڑی میں ہم لوگ تشریف فرما تھے، کچھ لوگ گاڑی کو دھکا دے کر اسٹارٹ کرانے کی کوشش کر رہے تھے اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے افریقی بچے ساتھ ساتھ چلے جا رہے تھے جو اپنی زبان میں ہم سے سوال کر رہے تھے اور کچھ نہ ملنے پر ہمارا منہ چڑا رہے تھے، دانت نکوس رہے تھے اور عجیب و غریب اشارے کر رہے تھے۔ اس شان و شوکت کے ساتھ ہمارا جلوس نیروبی کے ایک کھلے بازار میں فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ تو چلا ہی ہوگا مگر جب انگلش گاڑی نے ہم ایشیائیوں کو افریقہ میں ساتھ لے کر آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تو ڈرائیور نے ایک اور ٹیکسی والے سے ہمارا سودا کر کے ہمیں اس میں منتقل کر دیا اور خدا خدا کر کے ہم ہرن کورٹ ہوٹل پہنچے۔ دوسری ٹیکسی بھی انگلش طرز کی تھی لیکن کچھ شریف النسل لگتی تھی اس نے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اس کے بعد جتنے دن ہم وہاں رہے انگلش ٹیکسی سے واسطہ نہیں پڑا۔ جمعہ کی نماز ہم نے اسی جامع مسجد میں ادا کی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ امام صاحب نے مقامی زبان میں خطاب کیا۔ کینیا کی مقامی زبان سواحلی ہے لیکن انگریزی بھی سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ امام صاحب کی زبان تو ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی البتہ گفتگو کا مفہوم ہم بخوبی سمجھ رہے تھے۔ ان کا موضوع عالم اسلام کی حالت زار تھا، انہوں نے فلسطین اور افغانستان کا ذکر کیا، عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور مغربی ممالک کے تسلط و بالادستی سے نجات کے احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مولانا مطیع الرسول کے دفتر میں امام صاحب سے ہماری ملاقات بھی ہوئی، اسلام کی بالادستی اور عالم اسلام کے اتحاد کا جذبہ رکھنے والے مخلص بزرگ ہیں اور ملت اسلامیہ کے احوال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نماز جمعہ کے بعد مسجد کے گیٹ پر کچھ پاکستانی احباب مل گئے۔ جناب مجیب الرحمان شامی ہمارے ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں، روزنامہ جنگ میں ’’جلسہ عام‘‘ کے عنوان سے ان کا کالم قارئین کا وسیع حلقہ رکھتا ہے، نیروبی میں بھی انہیں دیکھ کر پہچاننے والوں کی کمی نہیں تھی۔ چنانچہ اس حوالہ سے متعدد حضرات سے ملاقات ہوئی جن میں پاک فوج کے ایک افسر بھی تھے۔ وہیں ڈاکٹر فاروق صاحب سے ملاقات ہوئی جو گوجرانوالہ میں ہمارے محلہ ایمن آبادی گیٹ کے رہنے والے ہیں اور ایک عرصہ سے نیروبی میں مقیم ہیں۔ ان کے ایک عزیز ریٹائرڈ میجر محمد علی بٹ چند روز قبل نیروبی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہوگئے ہیں۔ یہاں قتل اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں عام ہیں، راہ چلتے لوگوں سے سامان اور رقم چھین لینا عام معمول ہے۔ پولیس کے سپاہی بڑے بڑے ڈنڈے اٹھائے ہر وقت گھومتے رہتے ہیں مگر وارداتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ محمد علی بٹ مرحوم نیروبی میں ایک ہوٹل چلا رہے تھے، شام کے وقت ہوٹل سے باہر نکلے تو ڈاکوؤں نے انہیں گولی مار دی اور گاڑی چھین کر فرار ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

نیروبی میں ہماری ملاقات راؤ محمد اختر صاحب سے بھی ہوئی۔ یہ پاکستانی بزرگ ہیں جو ایک عرصہ سعودی عرب میں رہے ہیں اور اب نیروبی میں ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی سے بھی تعلق ہے اور نیروبی میں ایک رفاہی ادارہ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے ہماری واپسی کے روز اپنی رہائش گاہ پر پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا اور پھر ایئرپورٹ پر چھوڑنے آئے بلکہ جہاز پر سوار ہونے تک ساتھ رہے۔ ان کا خصوصی ذوق مساجد کا قیام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کینیا کی حکومت مسلمانوں کو مسجد کے لیے جگہ بلامعاوضہ دیتی ہے اور اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کینیا کے مختلف حصوں میں مسجدیں بنا چکے ہیں۔ راؤ محمد اختر صاحب کے ساتھ ملاقات بڑی معلومات افزا رہی۔

پاک فوج کے بعض افسروں کے علاوہ صومالیہ کی مسلح تنظیموں کے نمائندوں، جامع مسجد نیروبی کے امام صاحب، اور صومالیہ کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے بعض عرب راہنماؤں سے بھی ملاقات ہوئی جن کے ساتھ صومالیہ کے حالیہ تنازعہ کے حوالے سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی۔ ان ملاقاتوں اور سفر کے دیگر مشاہدات کے حوالہ سے کم از کم میرے تاثرات یہی ہیں کہ صومالیہ کے دینی حلقوں کے اس موقف کو بے وزن قرار دینا مشکل ہے کہ امریکہ نے صومالیہ میں اپنے مقاصد کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کی ہے اور پاک فوج کو جان بوجھ کر ایسا کردار دیا جا رہا ہے جس سے پاکستان اور افریقی مسلمانوں کے درمیان محبت کے رشتے کمزور ہوں اور شکوک و منافرت کی فضا قائم ہو۔ ان کے بقول امریکہ صومالیہ کے ذریعہ مشرقی افریقہ کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے، سوڈان اور ایتھوپیا کی اسلامی تحریکات کو دبانا چاہتا ہے، صومالیہ کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بننے سے باز رکھنا چاہتا ہے، اور متوقع تیل اور معدنی ذخائر کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔ صومالیہ کے دینی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور اس کی فوج کو ان امریکی مقاصد کے لیے آلہ کار نہیں بننا چاہیے اور اپنے موجودہ کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ صومالیہ کے دینی راہنماؤں کا یہ موقف سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے اور حکومت پاکستان، حزب اختلاف اور مذہبی راہنماؤں کو اس صورتحال کا پوری متانت کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter